ایک اور پیش گوئی….حسنین جمال
اپنے کالم میں اپنا ہی شعر لکھ دینا یا کسی پرانے کالم کا حوالہ دینا اور اپنے آپ کو نجومی ثابت کرنا یقیناً تھوڑا عجیب سا لگتا ہے لیکن اپنی ناکامیوں کا اعتراف کر لینے میں شاید کوئی حرج نہیں۔ دو ڈھائی سال پہلے جب امریکی الیکشنوں کی دھوم چاروں طرف مچی تھی تو اس وقت فقیر بیٹھا لوگوں کے تبصرے سنتا‘ اور حیران ہوتا تھا کہ ٹرمپ جیسا آدمی بھی کبھی صدارتی امیدوار ہو سکتا ہے؟ مطلب اس بندے نے سوچا ہی کیسے کہ وہ الیکشن لڑے گا؟ سکینڈلز کا ایک طومار تھا جو اس کی ذات سے بندھا تھا، امریکی میڈیا بھی مسلسل اس کے خلاف خبریں چلاتا تھا، اپنے لوگوں کی رائے بھی اس کے بارے میں یہی تھی کہ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں اس جیسا بندہ الیکشن جیت ہی نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔ تو اس وقت بھائی نے کبھی جذبات میں آ کر ایک بلاگ لکھ مارا جس کا عنوان تھا: ”ڈونلڈ صاحب ٹرمپ ہو گئے کیونکہ ڈمب ہیں‘‘۔ اس کا چھوٹا سا اقتباس دیکھ لیجیے بس، پھر آگے بات کرتے ہیں؛
”ڈونلڈ صاحب! اس تمام مہم میں سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ آپ کے صدر بننے کا امکان صفر فی صد ہے اور آپ اس امر کو یقینی بنا رہے ہیں کہ ہلیری جیت جائیں، ایک واضح اکثریت کے ساتھ جیت جائیں۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ آپ صدر نہیں بننے والے ۔ اگر آپ، ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے کہ آپ صدر بن ہی جاتے ہیں، تو کیا آپ کو خود یقین آئے گا؟ کوئی احمق ہی ایسے شخص کو صدر بنانا چاہے گا جو مذاق اڑانے پر آئے تو معذور افراد کو بھی نہیں بخشتا۔ اور ہاں، آج مسلمانوں کے خلاف بات کی جاتی ہے ، کل یہودی ہوں گے ، پرسوں بدھ مذہب والے اور یہ سلسلہ صدارتی انتخاب کے بعد بھی کیا ایسے ہی جاری رہے گا؟‘‘
تو پھر اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اس لکھنے والے نے جانا کہ خواہش ایک الگ چیز ہے اور زمینی حقائق اس سے بالکل الگ کہیں کھڑے منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ ٹرمپ صدر بنے تو سب سے پہلے اپنا یہ بلاگ نکالا، دوبارہ پڑھا اور سوچا کہ استاد آئندہ ایسے سالڈ طریقے سے کوئی پیشگوئی نہیں کرنی، جو بات بھی کرنی ہے گول مول کرنی ہے‘ جس طرح ہمارے بہت سے فلاسفر کرتے ہیں اور پھر نکالنے والے جو مرضی مطلب نکال لیں بات وہیں کی وہیں کھڑی رہتی ہے ۔ لیکن اس وقت جب نتیجہ آنے میں دس بارہ دن باقی ہوں تو ایسا کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ کاش یہ اندازہ بھی درست ثابت نہ ہو لیکن طالب علم کی جہالت کے پردے تلے دبی آنکھ دیکھتی ہے کہ اگلے وزیر اعظم عمران خان ہی ہوں گے۔
ہم شہباز شریف کو جتنا مرضی لتاڑتے رہیں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنے حصے کی تھوڑی بہت گیم بچا لی ہے، یہی سیاست کہلاتی ہے ۔ یہ بھائی سے غداری ہرگز نہیں، یہ پارٹی کی بقا کا مسئلہ تھا۔ فرض کر لیجیے کہ شہباز شریف تصادم کا راستہ اختیار کرتے ، کارکنوں کو وحشی بنا کے ہر رکاوٹ توڑتے ہوئے ایئرپورٹ پہنچ جاتے ، اسلام آباد بھی فل چارج ہو جاتا، بپھرا ہوا ہجوم پولیس والوں پہ چڑھ دوڑتا تو اس کے بعد کیا ہونا تھا؟ نواز شریف بہرحال جیل لے جائے جاتے ، مریم نواز بھی جاتیں لیکن باقی پارٹی کا مکو بھی ٹھپا جاتا۔ سارے بڑے لیڈر قید میں ہوتے ، کارکنوں کی بڑی تعداد دہشت گردی کے مقدموں کا شکار ہوتی، پھر احتجاج کا دائرہ پھیلتا تو ملک گیر ہنگامے ہوتے ، اس کے بعد الیکشن ملتوی بھی کیے جا سکتے تھے ۔ چار دھماکے اور تین سو سے زیادہ لوگوں کی موت اس الیکشن سے پہلے ہی ہو چکی ہے، کیا یہ سارا سیناریو الیکشن ملتوی کرانے کے لیے کافی نہ ہوتا؟ اس کے بعد ملک میں واضح اکثریت رکھنے والی جمہوری جماعت پہ یہ الزام بھی لگتا کہ انہوں نے گیم اپنے ہاتھ سے جاتے دیکھ کر ہنگامے کروا دئیے اور الیکشن نہیں ہونے دئیے ۔ نگران حکومت پھر بھی یہی رہنی تھی۔ تو حالات کے گرداب میں پھنسے شہباز شریف نے ایک کامیاب غوطہ لگایا اور بہرحال مفاہمت کا راستہ اختیار کیا لیکن…
لیکن یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی وزیر اعظم عمران خان ہی بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوال ان چیزوں پہ اٹھائے جاتے ہیں کہ عمران خان کی طبیعت صلح صفائی والی نہیں ہے، وہ اکیلے فیصلہ کرنا پسند کرتے ہیں، وہ کسی کے ساتھ کولیشن بنانا اور چلانا نہیں جانتے، وہ مفاہمت کی سیاست سے واقف نہیں یا وہ اپنی ضد پہ اڑ جانے والے انسان ہیں۔ سوال کرنے والوں کو اب یہ دیکھنا ہو گا کہ موجودہ عمران خان کیا وہی ہیں جو سات آٹھ سال پہلے تھے؟ کیا انہوں نے پے در پے اپنے کیے ہوئے فیصلے اتنے زیادہ نہیں بدلے کہ ان کا یُو ٹرن مشہور زمانہ ہو گیا؟ کیا سارے الیکٹیبلز کو اٹھا لینا اور ان کو ٹکٹ دے دینا تجزیہ کاروں کے لیے حیرانی کا باعث نہیں تھا؟ کیا پرانی پارٹی کا تھوڑا سا بھی کوئی جوہر تحریک انصاف میں باقی رہ گیا ہے؟ جب ایسا کچھ نہیں ہے تو یہ سوچنے میں کیا حرج ہے کہ وقت آنے پہ عمران خان بڑی سے بڑی ایڈجسٹمنٹ کر جانے کو بھی تیار ہوں گے؟ سینیٹ انتخابات میں اس کی ایک جھلک ہم دیکھ چکے ہیں اور وہ اس بات کا یقین دلانے کو بہت کافی ہے۔ عمران خان کا حتمی ٹارگٹ پاکستان کا وزیر اعظم بننا ہے اور اس راہ میں آنے والی بڑی سے بڑی رکاوٹ کامیابی کے ساتھ ہٹائی جا رہی ہے تو آخر میں کیوں سوچ لوں کہ عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکتے؟
ووٹر طاقتور کا ساتھ دیتا ہے ، پنجابی ہو یا کہیں اور کا ہو۔ مظلومیت کا ووٹ بے نظیر کی شہادت جیسے انتہائی اقدام کے بعد تو ایکسپیکٹ کیا جا سکتا ہے ورنہ چانس نشتہ۔ ن لیگ میں پھوٹ پڑنے کی خبریں ایک طویل عرصہ ہوا گرم تھیں لیکن اب ان پہ نئی طاقت سے پھونک ماری جا رہی ہے ۔ وہ تمام لوگ جو نواز شریف کے حامی ہیں انہیں ائیر پورٹ نہ پہنچ سکنے والے شہباز شریف کو نیچا دکھانے کا ایک نیا موقع مل گیا ہے اور وہ اپنی رائے رجسٹر کرنے میں حق پہ ہیں لیکن جو تبصرے پڑھنے والا ہے، جو خبریں پڑھنے والا ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ پارٹی خود اپنے بیانیوں میں پھنس چکی ہے، تقسیم جیسی نظر آتی ہے، اگر ویسی ہی ہے تو بہت گہری ہے پھر اس گھن چکر میں اپنا ووٹ ضائع کرنا کون پسند کرے گا؟ اگر نواز شریف کو پسند کرنے والے اور ان کے بیانیے پہ یقین رکھنے والے ن لیگ کو ووٹ دیں گے تو وہ شہباز شریف کی جھولی میں گرے گا، اس صورت حال میں وہ شیر پہ ٹھپہ آخر کیوں لگائیں گے ؟ گمان غالب ہے کہ اس طرح کا سارا ووٹ کسی دوسری پارٹی کو ملے گا۔ ن لیگ کو ٹھیک ٹھاک ڈینٹ ان آخری دنوں کی ہوا ڈالے گی جس میں دونوں بھائیوں کے ہمدرد ان کے حامیوں کو متواتر کنفیوزیا رہے ہیں۔
سیاست میں تھوڑا مل جانا سارا جانے سے بہت بہتر سمجھا جاتا ہے ۔ پنجاب کی حکومت پہ اگر شہباز شریف کسی کمپرومائز کی پوزیشن میں آئے تو شاید وہ بھی اس ناگہانی کی حمایت پہ مجبور ہو جائیں۔ حالات جتنے مرضی خراب ہو جائیں، بے شک جھنگ، سیالکوٹ اور فیصل آباد کے جلسے میں حاضریاں کم ہوں، بے شک عمران خان اور پرویز خٹک مخالفین کے خلاف بدکلامی کی حدیں پار کر لیں، لیکن اصل بات وہی ہے جو میں نے بیان کر دی۔
صرف ایک چیز عمران خان کی وزارت میں کسی بھی متوقع اپ سیٹ کا موہوم سا اشارہ ہو سکتی ہے اور وہ بلاول کا یہ بیان ہے کہ آصف علی زرداری وزارت عظمی کے امیدوار ہوں گے ۔ عمران خان اور ان کے چاہنے والوں کو ادھر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے غیر ضروری بلند بانگ بیانات کبھی نہیں آتے ، وہ ہمیشہ پتے چھپا کر کھیلتی ہے ، زرداری اور بلاول اتنا بولتے ہیں جتنا اشد ضروری ہو اور یہ پاکستان کے حالات میں عین واجب ہے ۔ تو بھائی اگر ڈرنا ہے تو زرداری صاحب کی فراست سے ڈرو باقی تحریک انصاف کے لیے راوی اور اس کے مضافات چین ہی چین لکھتے ہیں۔