منتخب کردہ کالم

ایک اور NRO ؟…رئوف طاہر

ایک اور NRO ؟

ایک اور NRO ؟…رئوف طاہر

ہزارہ تو تحریکِ پاکستان کے دنوں سے مسلم لیگ کا گڑھ رہا ہے، چنانچہ یہاں معزول وزیر اعظم اور ان کی صاحبزادی کے بڑے جلسے خلافِ توقع نہ تھے لیکن پشاور میں بھی باپ بیٹی کے جلسے نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے اور اب اتوار کی شام سوات کا جلسہ بھی ایک نیا ریکارڈ قائم کر گیا۔ پنجاب تو نواز شریف کا ”اپناصوبہ‘‘ ہے۔ یہ عمران خان کے صوبے میں عوام کو کیا ہوا کہ کھولتے لہو اور ابلتے جذبوں کے ساتھ معزول وزیر اعظم سے اظہارِ یکجہتی کیلئے چلے آتے ہیں۔ ”ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ ان کے دلوں میں بھی بہت گہرا اتر گیا ہے۔
اور کیا نیب ریفرنسز کا سامنے کرنے والے معزول وزیر اعظم نے ”انصاف‘‘ کی چاپ سن لی ہے… ”انصاف‘‘ کی گھڑی جو زیادہ دور نہیں۔ سوموار کی صبح نیب کورٹ میں باپ بیٹی کی 50 ویں پیشی تھی۔ سپریم کورٹ نے 28 جولائی کے فیصلے میں نیب کورٹ کو یہ ریفرنسز نمٹانے کیلئے 6 ماہ کی مدت دی تھی، ابتدا میں دائر کئے گئے ریفرنسز میں بات بنتی نظر نہ آئی تو ضمنی ریفرنسز کا سلسلہ شروع ہوا۔ چنانچہ مقررہ (چھ ماہ کی) مدت میں دو ماہ کا اضافہ کرنا پڑا جسے مئی کے وسط میں مکمل ہو جانا ہے۔ پاناما بینچ کے ایک معزز رکن ان ریفرنسز میں مانیٹرنگ جج کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ایون فیلڈ فلیٹس والے ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ مسٹر ریڈلے کو کیلبری فونٹ کے حوالے سے جرح کے دوران وکیل صفائی خواجہ حارث کے ہاتھوں خاصی خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور اب استغاثہ کے سپریم وِٹنس (پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ) واجد ضیا کو بھی وکیل صفائی ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ لیکن وہ جو کہا جاتا ہے کہ لکھے کو کون ٹال سکتا ہے؟اندر کی خبر رکھنے والے تو اڈیالہ جیل میں کمرے کی تیاری کی خبر بھی دے رہے ہیں۔
تو یہ جو گزشتہ شام سوات کے جلسے میں نواز شریف نے پُرجوش عوام سے عہد لیا کہ میں جہاں سے بھی ہدایت دوں‘ عمل کرنا‘ اس سے مراد جیل سے آنے والی ہدایات تھیں ؟ تو کیا نواز شریف کو بھی نوشتۂ دیوار نظر آ گیا ہے؟ دیوار پر موٹے ہوئے حروف سے لکھا گیا فیصلہ… ادھر میڈیا میں ایک اور NRO کی قیاس آرائیاں ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والوں نے تو چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ملاقات کو بھی NRO کی تلاش کا عنوان دیدیا تھا، پیپلز پارٹی والے اس میں پیش پیش ہیں، عمران خان کی چشمِ تصور نے تو وزیر اعظم کو جناب چیف جسٹس کے حضور دست بستہ گڑ گڑاتے بھی دیکھ لیا۔ ہمارے سراج الحق اسے ” نااہل‘‘ کیلئے ریلیف کی فریاد قرار دے رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے نفس ناطقہ فواد چودھری تو اس دھمکی پر اتر آئے کہ عوام کسی NRO کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں گے حالانکہ ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ NRO کس طرح ہوتے ہیں ‘ اس میں کیسے کیسے سخت مقام آتے ہیں، پسِ پردہ کیا کیا وعدے وعید ہوتے ہیں۔ ”ٹریک ٹو‘‘ کتنا لمبا عرصہ لے جاتا ہے؟ محترمہ بینظیر بھٹو مشرف سے این آر او کیلئے کب سے کوشاں تھیں، اپنے امریکی دوستوں کے ذریعے وہ طویل عرصے سے نیٹ ورکنگ کر رہی تھیں، وہ تو لال مسجد (اور جامعہ حفصہ) آپریشن کے بعد اٹھنے والی نفرت کی لہر اور اس کے پہلو بہ پہلو ملک گیر چیف جسٹس موومنٹ تھی، جس نے ڈکٹیٹر کو لرزہ براندام کردیا اور وہ زمین بوس ہوتے ہوئے اپنے اقتدار کی مزید پانچ سالہ لیز کیلئے محترمہ کے ساتھ این آر او پر مجبور ہو گیا۔ اس میں جنرل اشفاق کیانی کا پس پردہ کردار بھی کم اہم نہ تھا (یہ الگ بات کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی پلس، اس سے پہلے محترمہ کی وطن واپسی جس کے بعد نواز شریف کو روکنا بھی ممکن نہ رہا، ایسے پے درپے واقعات تھے جن کے بعد NRO کاغذ کا ایک بے معنی ٹکڑا بن کے رہ گیا تھا)
کہنے والے نواز شریف کی (10 دسمبر 2000ء کی) جلا وطنی کو بھی کسی NRO کا نام دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ”NRO ‘‘ کا اینی شیٹو شریف فیملی کی طرف سے نہ تھا۔ وہ جو شاہ عبداللہ مرحوم نے قاضی حسین احمد صاحب سے کہا تھا‘ ہمارے دوست کی گردن تلوار کے نیچے تھی، ہم اسے نکال کر لے آئے۔ ڈکٹیٹر طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں خصوصی عدالت سے نواز شریف کیلئے سزائے موت کی توقع کر رہا تھا۔ اس کی بجائے دو بار عمرقید کی سزا ہو گئی جس کیخلاف فریقین اپیل میں چلے گئے۔ حکومت سزائے موت پر اصرار کر رہی تھی۔ تب بعض دانشور یہ فلسفہ بھی بگھارتے کہ اس سے پہلے پنجاب سے چھوٹے صوبے کو لاشیں جاتی رہیں (بھٹو کی راولپنڈی جیل میں پھانسی اور پھر اسی شہر میں بینظیر بھٹو کا قتل ، بعض لوگ اس میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خاں کے (لیاقت باغ راولپنڈی میں) قتل کو بھی شامل کر لیتے) ان کی دلیل تھی کہ اب پنجاب کے لیڈر کی پھانسی سے حساب برابر ہو جائے گا اور چھوٹے صوبوں کی ”شکایت‘‘ ختم ہو جائے گی۔ ایسے میں میاں صاحب کے سعودی دوست تھے جنہوں نے انہیں موت کے منہ سے نکال لے جانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔کچھ حصہ لبنان کے حریری اور قطر والوں کا بھی تھا۔ کسی بڑے کام میں امریکی بھی کریڈٹ لینے پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے یہ حقیقت بھی اپنی جگہ تھی کہ وزیر اعظم پاکستان کو بڑے المیے سے بچانا صدر کلنٹن کی خواہش بھی تھی۔
ایک اہم بات یہ بھی کہ میاں صاحب کی جلاوطنی خود ڈکٹیٹر کی ضرورت بھی بن گئی تھی۔ سینئر اخبار نویسوں سے ملاقات میں اسے معزول وزیراعظم کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دینے میں بھی عار نہ تھی۔ لیکن اسے پھانسی دینا ناممکن ہو گیا تھا اور جیل میں اس کی موجودگی ڈکٹیٹر کیلئے بڑا بوجھ بنتی جا رہی تھی۔ خود اس کے اپنے الفاظ میں‘ ایک طرف باہر سے سعودیوں کا دبائو تھا اور دوسری طرف اندرون ملک بیگم صاحبہ سڑکوں پر تھیں، جس سے عدم استحکام کا تاثر مستحکم ہو رہا تھا۔ مسلم لیگ میں بڑی نقب لگانے کیلئے بھی ضروری تھا کہ نواز شریف ملک میں نہ رہیں۔
نواز شریف کیلئے یہ آسان فیصلہ نہ تھا، 12 اکتوبر کے بعد کال کوٹھڑی کے چار ہفتے انہوں نے بڑی بہادری سے گزار لئے تھے‘اس عالم میں کہ یہاں سورج کی کرن بھی داخل نہ ہو پاتی۔ ڈکٹیٹر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بدترین دشمن کو سیاسی اور مالی لحاظ سے تباہ کرنے کے علاوہ نفسیاتی اور اعصابی طور پر بھی مفلوج کر دے گا۔ فوجی کارروائی کی نصف شب جنرل محمود سمیت تین باوردی جرنیلوں کی ”پیشکش‘‘ انہوں نے بڑی جرأت سے ٹھکرا دی تھی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران کراچی میں ایامِ اسیری اور پھر اٹک قلعے میں صعوبت کے بدترین دن بھی وہ بڑی ہمت سے کاٹ رہے تھے۔ بنیادی طور پر یہ ابا جی کا اصرار تھا جو نواز شریف جلا وطنی پر آمادہ ہوئے۔ ایک دلیل یہ بھی تھی کہ ”گوریلے کمانڈو‘‘ کے ساتھ سیاسی جنگ ”گوریلا‘‘ انداز میں ہی لڑی جائے۔
نواز شریف ایک بار پھر اپنی زندگی کی بدترین آزمائش سے دوچار ہے لیکن وہ بھی (اور اس کی بہادر بیٹی بھی) جیل جانے کیلئے تیار ہے۔ کہا جاتا ہے جس طرح پرائم منسٹر ہائوس سے نکلا ہوا نواز شریف کہیں زیادہ طاقتور ہے‘ اگلے مرحلے میں جیل میں بیٹھا ہوا نواز شریف مزید ”خطرناک‘‘ ہو گا۔ ایسے میں NRO نواز شریف کی نہیں‘ دوسروں کی ضرورت ہو گا۔ لیکن اب تاریخ شاید خود کو دہرانے کی بجائے ‘ ایک نیا اور مختلف باب رقم کرے۔