منتخب کردہ کالم

ایک بار پھر استعفوں کا پتہ کھیلنے کی تیاری؟ تجریہ: قدرت اللہ چودھری

جہانگیر

ایک بار پھر استعفوں کا پتہ کھیلنے کی تیاری؟ تجریہ: قدرت اللہ چودھری
کیا تحریک انصاف نے ایک بار پھر استعفوں کا کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا؟ حالیہ ہفتوں میں تحریک انصاف نے یکے بعد دیگرے دو اہم پتے پھینکے تھے، دونوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پہلا تو یہ مطالبہ تھا کہ قبل از وقت انتخابات کرا دیئے جائیں، لیکن اس پر کسی نے توجہ نہیں دی حتیٰ کہ پارٹی کے اندر بھی اس پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ بہت سے پارٹی قائدین بھی اس کے حق میں نہیں تھے، ورنہ مطالبے کو آگے بڑھانے کیلئے کوئی سرگرمی تو دکھائی جاتی، کوئی تحریک تو نظر آتی۔ ایک پریس کانفرنس میں مطالبہ کرنے سے سب کچھ ہو جاتا تو ملک کے بہت سے مسائل پیدا ہونے سے پہلے ہی حل ہو جاتے، لیکن ایسا نہیں ہے، جب تک مطالبے میں جان نہیں ہوتی اس وقت تک کوئی ایسے سیاسی مطالبے کی جانب متوجہ نہیں ہوتا۔ دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ یہ بھی تھا کہ پرویز خٹک کی حکومت مستعفی ہو جاتی تاکہ وہاں نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی، لیکن انہیں یقین نہیں کہ اگلی باری وہ منتخب بھی ہوسکیں گے یا نہیں۔ ابھی تو انہیں این اے 4 کا پل صراط عبور کرنا ہے جہاں بہت دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا، یہ نشست گلزار خان کے انتقال سے خالی ہوگئی تھی جو اپنی زندگی میں اگرچہ پارٹی قیادت سے باغی ہوگئے تھے، لیکن اپنی زندگی تک وہ پارٹی چھوڑ کر نہیں گئے تھے، لیکن اب ان کے صاحبزادے پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مرحوم گلزار خان نے پچاس ہزار کی لیڈ سے اپنے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ناصر خان موسیٰ زئی کو ہرایا تھا، لیکن اب اسی نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار کی جیت یقینی نہیں ہے کیونکہ گلزار خان کے صاحبزادے اپنے والد کا بہت سا ووٹ لے جائیں گے بالفاظ دیگر جو ووٹ تحریک انصاف کے امیدوار کو پڑنے تھے وہ تقسیم ہو جائیں گے۔ اس مقابلے میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب پرویز خٹک نے کے پی کے کی مخلوط حکومت میں شامل جماعت اسلامی کی قیادت سے کہا کہ وہ اپنا امیدوار بٹھا دیں اور تحریک انصاف کی حمایت کریں۔ جماعت اسلامی کا جواب بڑا دو ٹوک تھا کہ ہمارے امیدوار کی پوزیشن بہتر ہے اس لئے تحریک انصاف کے امیدوار کو جماعت اسلامی کے حق میں دستبردار ہو جانا چاہئے۔ اس حلقے میں اگر جماعت اسلامی کا امیدوار 2013ء جتنے ووٹ لے گیا تو بھی تحریک انصاف کے امیدوار کی جیت مشکل ہوگی۔ اس حلقے میں جتنے امیدوار ہیں سب نئے ہیں سوائے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ناصر موسیٰ زئی کے جنہیں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور قومی وطن پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان حالات میں 26 اکتوبر کو اگر تحریک انصاف کا امیدوار جیت نہ سکا تو استعفوں کا کارڈ کھیلنا مشکل ترہو جائے گا کیونکہ جو ارکان اس وقت اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں وہ استعفوں سے گریز کریں گے کہ کیا معلوم دوبارہ منتخب بھی ہوسکیں یا نہیں‘ اس لئے جب تک رکن ہیں پورا فائدہ اٹھالیں۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ گورنر کو صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دے سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور پرویز خٹک یہ جرأت مندانہ فیصلہ کرلیتے ہیں تو کم از کم ایک صوبے میں تو انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی اور جنہیں ’’نئے مینڈیٹ‘‘ کا شوق ہے ان کے متعلق بھی علم ہو جائے گا کہ عوام میں ان کی پذیرائی کس حد تک ہے۔ پاکستان میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوتے ہیں لیکن اگر وزیراعلیٰ اسمبلی توڑ دیں تو پھر آئین کے مطابق اس اسمبلی کے انتخابات تو قبل از وقت کرانا پڑیں گے، باقی صوبے اس معاملے میں پرویز خٹک کا ساتھ نہیں دیں گے۔ پنجاب اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہے، دونوں جماعتوں اور اس کی لیڈر شپ کے بارے میں عمران خان کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اس لئے ان سے کوئی تعاون ملنا مشکل ہے۔ عمران خان کو اپنی سیاسی لڑائی خود ہی لڑنی پڑے گی لیکن وہ جس طرح کی سیاسی لڑائی لڑسکتے ہیں یہ تو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو ہٹانے کی کوششوں سے ہی معلوم ہوگیا ہے۔ اس معاملے میں انہوں نے جو چال چلی تھی وہ ایم کیو ایم پاکستان کے گھر سے آگے نہیں بڑھی اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ خورشید شاہ کو ہٹانا ان کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام اگر کرنا تھا تو اس کیلئے پہلے ہوم ورک تو کرلیا جاتا جو نہیں کیا گیا، اگر کرلیا جاتا تو کم از کم وہ سبکی تو نہ ہوتی۔
اب تحریک انصاف کی منصوبہ بندی یہ لگتی ہے کہ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن (نصف تعداد 52 ارکان) سے پہلے پہلے کوئی ایسی چال چلی جائے کہ کسی طرح یہ انتخاب نہ ہوسکیں۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ الیکٹورل کالج نامکمل رہے اور اس کیلئے صوبائی حکومت کا خاتمہ خود وزیراعلیٰ کے ہاتھوں سے ہونا ضروری ہے، وہ اگر اس کیلئے تیار ہو جائیں تو ممکن ہے کوئی سیاسی کھڑاک کرنے میں کامیاب ہو جائیں بصورت دیگر یہ کام بھی نہیں ہوسکے گا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی مستعفی ہو جائیں تو ایک وقتی بحران کھڑا کرسکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی کے تمام ارکان مستعفی ہو جائیں گے؟ اس سوال کا جواب یقینی نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی جب تحریک انصاف کے ارکان نے استعفے دیئے تھے تو پانچ ارکان ایسے تھے جنہوں نے پارٹی کا فیصلہ نہیں مانا، وہ پارٹی کی مخالفت کرتے ہوئے اسمبلی کے اجلاس میں بھی جاتے رہے۔ اب بھی اگر بعض ارکان ایسا کرتے ہیں تو پارٹی کے تضادات مزید نمایاں ہوں گے جو اس وقت بھی دبے نہ رہ سکے جب شاہ محمود قریشی کا نام بطور اپوزیشن لیڈر سامنے آیا۔ پارٹی کے اندر جہانگیر ترین گروپ نے انہیں اپوزیشن لیڈر ماننے سے ہی انکار کردیا، ایسے میں اگر پندرہ سولہ ارکان مستعفی بھی ہوتے ہیں تو ان نشستوں پر ضمنی انتخابات بھی کرائے جاسکتے ہیں، لیکن پہلے یہ تو دیکھنا ہوگا کتنے ارکان استعفوں کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ 2014ء میں جتنے ارکان نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ان میں سے ایک نے بھی (ماسوا جاوید ہاشمی) اسمبلی میں جاکر یا سپیکر کے پاس اپنے استعفے کا اعلان نہیں کیا، اب ان آزمودہ لوگوں پر کتنا انحصار کیا جاسکتا ہے