منتخب کردہ کالم

ایک بلا جوازکتا دشمنی…وقارخان

ایک بلا جوازکتا دشمنی

ایک بلا جوازکتا دشمنی…وقارخان

آج ہمیں بصد شرمندگی یہ اعتراف کر ہی لینے دیجئے کہ ہماری وسیع برادری کے تمام خاندانوں میں کتے کی کوئی اہمیت نہیں۔ بلکہ دیسی زبان میں یوں سمجھیے کہ ہمارے گھروں میں کتے کی کتے برابر حیثیت نہیں۔
ہم نے اپنی رشتہ دار برادری میں دو ناقابل فخر چیزوں کی نسل در نسل منتقلی کا مشاہدہ کیا۔ ایک سفید پوشی اور دوسری کتا دشمنی۔ ہمارے عزیزواقارب عجیب الفطرت جاٹ ہیں کہ جن کی مویشیوں کی حویلیاں ممالیہ اور غیر ممالیہ جانوروں کے لیے جتنی وسیع ہیں، کتے کے لیے ان کے دل اتنے ہی تنگ ہیں۔ ہمارے باڑوں میں گائے، بھینسوں، بیلوں اور بچھڑوں کے لیے رہائش اور خوراک کا معقول بندوبست ہے لیکن کتے کے لیے کوئی گوشہ عافیت نہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، ہم نے ڈھور ڈنگروں کی اپنی حویلی میں شوقیہ اور غیر منافع بخش جانوروں یعنی بڑے بڑے سینگوں والے موٹے تازے بیلوں کو دیسی گھی کھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے، تاہم کسی کتے کے نصیب میں ہمارے گھروں کی بچی کھچی خشک روٹی کا ٹکڑا تک نہیں۔ آج جب اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ تہذیب میں کتا اپنا وجود منوا چکا ہے اور مہذب گھروں میں کتے انسانوں سے زیادہ عزت و توقیر کے مستحق ٹھہرے ہیں، ہم ابھی تک کتا دشمنی کے غیر تہذیب یافتہ اور غیر ترقی پسند جذبات کے حصار میں محصور ہیں۔ ایک طرف کتوں سے متعلق بُلھےؔ شاہ کا خدشہ ”بازی لے گئے کتے، تیتھوں اُتے‘‘ درست ثابت ہو چکا ہے اور دنیا میں کتوں کے لیے شاندار ریستوران اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہسپتال قائم ہو چکے ہیں‘ تو دوسری طرف ہمارا خاندان ہنوز کتوں کو تسلیم نہ کرنے کی ہٹ دھرمی پر بے شرمی سے قائم ہے۔
ہمارے بچپن میں جب اخلاقی اقدار کمرشلائز نہ ہوئی تھیں، ہم نے گائوں کے اپنے مہمان خانے میں ہمیشہ مہمانوں کی بہتات دیکھی۔ ان میں ہمارے بزرگان کے یار دوستوں کے علاوہ مویشیوں کے بیوپاری، پھیری کے ذریعے اشیا بیچنے والے اور پاپیادہ سفر کرنے والے اجنبی مسافر شامل ہوتے تھے، جو رات قیام کرنے کی خاطر ہمارے کچے مہمان خانے کو رونق بخشتے تھے۔ اللہ بخشے، دادا جان الزام عائد فرماتے تھے کہ میرے بیٹے دور جاتے دشمن کو بھی پیچھا کرکے پکڑ لاتے ہیں کہ کھانا کھا کے جانا۔ رات کو سردیوں میں لالٹین اور گرمیوں میں چاند کی روشنی میں محفل جمتی تو بھانت بھانت کے مہمانانِ گرامی اپنے اپنے سفر کے تجربات دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے‘ جو ہمارے لیے خبروں کا واحد ذریعہ تھا۔ کئی مہمانوں کے ہمراہ ان کے جانور بھی ہوتے۔ ہمارے بڑے مہمانوں کے ساتھ ساتھ ان کے مویشیوں کی سیوا میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ تاہم بدقسمتی سے کتا جس مہمان کا ہمسفر ہوتا، اسے نہ صرف ہمارے بزرگوں کی طرف سے واضح سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ اس کے کتے کی خاطر مدارت پر بھی قطعاً کوئی توجہ نہ دی جاتی۔ یہی نہیں بلکہ مہمان کتے کی عزت نفس مجروح کرنے کی بھی حتی المقدور سعی کی جاتی۔
بچپن کی چاند راتوں میں ہم نے ایک اور دلخراش منظر کا بھی بارہا مرتبہ تماشا کیا ہے۔ تب یہاں لوگ گزر اوقات کے لیے بھیڑ بکریوں کے بڑے بڑے ریوڑ پالتے تھے۔ ہمارے گھروں کے سامنے ایک بڑا سا میدان اور اس کے آگے سڑک تھی۔ اس میدان میں گرمیوں کے لیے جھاڑیوں سے بھیڑ بکریوں کے اوپن باڑے بنائے گئے تھے۔ یہ باڑے ہمیشہ بھیڑیوں کے رزق کا وسیلہ بنے رہے۔ اکثر رات گئے جب بھیڑیا ڈنر کے لیے ان باڑوں پر حملہ آور ہوتا تو ”چیں باں‘‘ ہو جاتی۔ ہم بچوں کا یہ نالہ ٔشب گیر سن کر جائے واردات پر پہنچنا معمول تھا۔ ہمارے بڑے ڈانگوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہوکر بھیڑیے کا پیچھا کرتے مگر تب تک وہ ایک عدد بھیڑ یا بکروٹے پر مشتمل اپنا شکار اٹھا کر سڑک پار کر چکا ہوتا۔ ایسے ہر سانحے کے بعد بزرگوں کی ہنگامی میٹنگ بھی معمول کا حصہ تھی، جس میں آئندہ کے لیے بھیڑیے کے دانت کھٹے کرنے کے طریقوں پر غور اور عزم ہوتے؛ تاہم ان ہنگامی میٹنگز کے ایجنڈے میں کبھی بھی اپنے جانوروں کی حفاظت کے لیے کتے پالنے کا آپشن شامل نہ ہو سکا۔
بہت سال پہلے کی بات ہے، ہمارے ایک خالہ زاد نے خاندانی روایت توڑتے ہوئے ڈوگی نامی ایک کتا پال لیا۔ یہ اس روایت کے خلاف پہلا پتھر تھا، جو آخری بھی ثابت ہوا۔ حرماں نصیب کتے کا ہمارے گھروں میں آنا تھا کہ ہماری اخلاقیات کو سخت متلی کی شکایت ہو گئی۔ بلا تخصیص مردوزن سالم برادری کے غم و غصے کایہ عالم تھا کہ جیسے ہمارے ہاں ”را‘‘ کا ایجنٹ گھس آیا ہو۔ ہمارے کزن کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ تمام تر دبائو کے باوجود ثابت قدم رہا۔ اب کتے کا امتحان شروع ہوا۔ یوں سمجھیں کہ نفرت کا ایک بھڑکتا الائو تھا، جس میں کتے کے وفادارانہ اور دیگر نازک جذبات و احساسات جل کر بھسم ہو گئے۔ ہر طرف یوں کتا کتا ہو گئی، جیسے کبھی ایک حکمران کی ہوئی تھی۔ آپ یقین فرمائیں کہ ہم نے آج تک کسی ذی روح کی اتنی بے عزتی ہوتی دیکھی اور نہ سنی، جتنی اس کتے کے بچے نے برداشت کی۔ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈوگی کی بے عزتی ہٰذا کا علم ہوتا تو وہ کبھی نہ فرماتے کہ تاریخ میں جتنی بے عزتی میری ہوئی ہے، کسی کی نہیں ہوئی۔ مظلوم کتا جس گھر یا فرد کے قریب سے گزرتا، اسے ایسے تضحیک آمیز اور زہر میں بجھے جملوں کا سامنا کرنا پڑتا کہ اگر وہ کسی پہاڑ کے لیے استعمال ہوتے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتا‘ مگر آفرین ہیں اس کتے پر جس کا جگر چھلنی ہو گیا‘ لیکن اس نے جیتے جی ہمارا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ ڈوگی کے لیے سب سے کڑا وقت وہ ہوتا جب اس کا سامنا ہمارے خالو مرحوم سے ہو جاتا۔ ایسے میں خوشی سے خالو کا ذہنی اور جسمانی توازن متزلزل ہو جاتا۔ وہ اسے بارود بھرے لہجے میں ”آئیے! ڈوگی صاحب‘‘، کہہ کر خوش آمدید کہتے اور ساتھ ہی جوتے، لاٹھی یا پتھر پر لپکتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خالو کی فیملی کھانے پر بیٹھی تھی کہ اتفاقاً بدنصیب ڈوگی کا گزر وہاں سے ہو گیا۔ خالو ہتھوں اکھڑ گئے۔ پہلے تو انہوں نے زہریلے لہجے میں کہا ”آئیے ڈوگی صاحب‘ کیا آپ ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھاناکھانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟‘‘ پھر یکدم بہشتی نے جمپ لگایا اور اپنی لاٹھی اٹھا لی۔ کتے نے جان بچانے کی خاطر نزدیکی کھیتوں کا رخ کیا اور جہاں تک ہماری یادداشت کام کرتی ہے، وہ سخت گیر بزرگ ڈوگی کو تین نمبرات خسرہ پار کرا کے واپس آیا۔
وہ منظر تو ہمارے حافظے پر لمحۂ موجود کی صورت ثبت ہے جب بھک موئے ڈوگی نے ہمارے دادا جان مرحوم کا کھونڈا چاٹ لیا۔ بڑے چوہدری صاحب نے نہ صرف اپنا پلید کھونڈا فوراً متروک کر دیا بلکہ کھونڈا متروکہ سے کتے کی مقدور بھر خیر خیریت بھی دریافت کی۔ ڈوگی کا یہ سنگین جرم کتا دشمن برادری سے پوشیدہ نہ رہ سکا اور اسے وہ انفرادی و اجتماعی دُر دُر ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ اگرچہ کتے کی شان میں خنجر بدست زبانوں سے نکلے ہوئے وہ الفاظ ہی تھے مگر سٹنگر میزائل سے زیادہ تیز، بارودی اور زہر ناک۔ ڈوگی پر طعنوں اور ٹھڈوں کے ڈرون حملوں اورڈیزی کٹر بموں کی ایسی کارپٹ بمباری ہوئی کہ وہ نیم جاں ہو گیا۔ آخر کتے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ وہ دو تین دن تک کھویا کھویا سا گہری سوچ میں گم پھرتا رہا۔ پھر جیسے اس نے ایک فیصلہ کر لیا۔ ڈوگی ایک غمزدہ سی ملگجی اندھیرے کی طرف بڑھتی شام کے دھندلکوں میں سڑک کے کنارے جا کر بیٹھ گیا۔ اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ جلد ہی تلہ گنگ کی جانب سے ایک ٹرک آتا دکھائی دیا اور وہ چپ چاپ اس کے آگے لیٹ گیا۔
آج نجانے کیوں اتنے برس بعد ہمیں آنجہانی ڈوگی کی دردناک رخصتی یاد آ رہی ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کتے اتنے بھی کتے نہیں ہوتے کہ ان سے ٹنوں کے حساب سے نفرت کی جائے۔ ہمارے پاس کتوں سے اتنی دشمنی کا کوئی جواز نہیں… ہاں مگر ایسے بائولے یقینا ہماری نفرت کے مستحق ہیں، جو ہماری پھول جیسی معصوم بچیوں کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور ہمارے جگر زخمی اور کلیجے چیر دیتے ہیں۔ ان سے نفرت اور انہیں ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے مطالبات کا ہمارے پاس ٹھوس جواز موجود ہے۔ ایسے حالات پیدا کرنا ضروری ہیں کہ معاشرہ بائولوں سے پاک ہو جائے۔ اس پر آئندہ کالم میں بات کریں گے۔