منتخب کردہ کالم

ایک بھولا بسرا منظر…خالد مسعود خان

’’تری مُورتی‘‘...ایم ابراہیم خان

ایک بھولا بسرا منظر…خالد مسعود خان

کل صبح گھر سے روانہ ہوا تو آگے بوسن روڈ بند تھا۔ خدا جانے کیا معاملہ تھا؟ کچھ گاڑیاں واپس مڑ رہی تھیں تاکہ چھ نمبر چونگی سے گلگشت کالونی کے اندر سے ہو کر سیدھی تحصیل چوک پر نکل جائیں۔ میں اس طرح پھنس چکا تھا کہ واپسی کا راستہ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں نے مسدود کر دیا تھا۔ چاروناچار اب سڑک کھلنے کا انتظار کرنے لگا کہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے دیکھا بائیں طرف والی ٹریفک آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ میں نے اللہ نواز کوکہا کہ گاڑی بائیں لین میں لے جائے۔ بائیں طرف ٹریفک میں تھوڑی سی حرکت ہو رہی تھی۔ ہم بھی ادھر ہو گئے۔ مین سڑک بند تھی لیکن سائیڈ والی سروس لین چل رہی تھی۔ ہم سروس لین میں داخل ہو گئے اور آہستہ آہستہ ایمرسن کالج کے سامنے پہنچ گئے۔ عشروں بعد میں نے ایک منظر دیکھا۔ اس منظر کو دیکھے آنکھیں ترس گئی تھیں۔ ایمرسن کالج کے لڑکوں نے جلوس نکالا ہوا تھا۔ طلبہ کے جلوس کو دیکھے اتنا عرصہ گزر گیا ہے کہ اب یہ خواب و خیال ہو چکے ہیں۔
کیا زمانہ تھا۔ میں گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں پڑھتا تھا۔ ساٹھ کے عشرے کے آخری سال تھے۔ میں تب ساتویں آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ ایوب خان کے خلاف جلوس نکلا کرتے تھے۔ ادھر ایک طرف گورنمنٹ ہائی سکول تھا اور ایک پتلی سی سڑک کے اس پار ایمرسن کالج کا آرٹس بلاک۔ اب کسی کو شاید یاد بھی نہیں کہ تب اس سارے علاقے میں اول اول یہی دو مردانہ تعلیمی ادارے تھے۔ پھر کمپری ہینسو ہائی سکول بن گیا اور گورنمنٹ سائنس کالج وجود میں آ گیا۔ بعدازاں آرٹس بلاک میں ایجوکیشن کالج بن گیا اور سائنس بلاک مکمل طور پر ایمرسن کالج بن گیا۔
گلگشت کالونی تب رہنے کی جگہ تھی۔ اب تو یہ اس طرح برباد ہوئی کہ رہے نام اللہ کا۔ ساری کی ساری کالونی کمرشل ہو گئی ہے۔ پاکستان میں موجود ہر فوڈ چین کی برانچ‘ ہر برانڈڈ کپڑے کی آئوٹ لیٹ اور ہمہ قسم کی دکانوں اور ریستورانز نے ساری کالونی کی شکل بگاڑ کر رکھ دی ہے اور کہیں رہنے کی جگہ باقی نہیں بچی۔ سب رہائشی اپنے مکان مہنگے داموں بیچ کر کہیں اور جا چکے ہیں۔ دوچار لوگ ہیں جو ابھی تک اس بوجھ سے بچے ہوئے ہیں مگر کب تک؟ ایک دو سال میں وہ بھی گھر بیچ باچ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔ پیسے کے لالچ میں نہ سہی مگر اس کمرشلزم نے رہنے کا ماحول بھی ختم کر دیا ہے۔ سکون وغیرہ کا نام و نشان نہیں ملتا۔ آخر کوئی شریف آدمی اس مستقل ہنگامے میں کتنے دن گزار سکتا ہے؟
تب ہمارے سکول کے گرائونڈ میں پہاڑی کوے اڑتے پھرتے تھے۔ عام کوے سے بڑے سائز کے کوے جن کی چھاتی شہری کووں کے برعکس بالکل سیاہ تھی اور سفید رنگ ندارد تھا۔ ہم ان کووں کو ”ڈھوڈرکاں‘‘ کہا کرتے تھے۔ اب یہ کوے پورے ملتان میں نایاب ہیں۔ ایمرسن کالج کے آرٹس بلاک اور سائنس بلاک کے درمیان ایک ڈیڑھ فرلانگ کا فاصلہ تھا اور درمیان میں ایک کچی سڑک تھی۔ آرٹس بلاک کے سامنے ایک پرانا بڑ کا درخت تھا۔ درمیان میں سڑک کے دونوں طرف رتیلا میدان تھا جس میں لکیر دار پتلی پتلی چھپکلیاں دوڑا کرتی تھیں۔ اب نہ بڑ کا درخت ہے اور نہ رتیلا میدان۔ نہ ڈھوڈرکاں ہیں اور نہ ہی لکیردار چھپکلیاں۔
ساری ہنگامہ آرائی آرٹس بلاک میں ہوا کرتی تھی۔ آرٹس بلاک میں ایف اے اور بی اے کی کلاسیں لگتی تھیں۔ ایف ایس سی‘ بی ایس سی اور ایم اے کی کلاسیں سائنس بلاک میں لگتی تھیں۔ تب تین ایم اے ہوا کرتے تھے۔ ایم اے اردو‘ ایم اے پولیٹیکل سائنس اور ایم اے اکنامکس۔ پرنسپل آفس سائنس بلاک میں اور لائبریری آرٹس بلاک میں ہوتی تھی۔ سارے جلسے آرٹس بلاک کے کرش ہال میں ہوتے تھے۔ گھومتی ہوئی گول سیڑھیاں مستقل سٹیج کا کام دیتی تھیں۔ سارے مقررین انہی سیڑھیوں پر چڑھ کر تقاریر کیا کرتے تھے۔ فخر بلوچ‘ اللہ نواز درانی اور جاوید ہاشمی کو اول اول میں نے انہی سیڑھیوں پر شعلہ بیانی کرتے سنا۔
جلوسوں کی ابتدا اور آغاز بھی آرٹس بلاک سے ہوتا تھا۔ پہلے پہل تو یہ ہوتاتھا کہ کالج کا جلوس ہمارے سکول میں آ کر نعرہ بازی کرتا تھا اور کلاسوں میں آ کر ہمیں چھٹی کرواتا تھا لیکن بعد میں یوں ہونے لگا کہ جونہی کالج کے لڑکوں کا جلوس سکول میں داخل ہو کر نعرے لگاتا ہم اپنی کتابیں سمیٹ کر اور بستہ اٹھا کر خود ہی کلاسوں سے باہر نکل آتے۔ ماسٹر بھی ہمیں اس بات پر منع نہ کرتے۔ مجھے یاد نہیں کب، لیکن ایک طالبعلم جو دت کامران کچہری روڈ پر پولیس کی گولی سے شہید ہوا تھا اس کی برسی منائی جاتی تھی اور ایک جلوس اس کی جائے شہادت پر آتا تھا۔ ایک طالبعلم ایک نظم نہایت سر میں گاتا تھا۔ اب بھی اس کے کچھ بول مجھے یاد ہیں۔ غالباً جودت کامران کرکٹ کا کھلاڑی بھی تھا کہ اس نظم میں کرکٹ سے متعلق تلمیحات استعمال کی گئی تھیں۔
بال سیسے کا تھا‘ وکٹیں ہڈیوں کی تھیں
بال جج نہ ہوئی‘ وکٹیں ریزہ ہوئیں
کامراں گر گیا‘ بے زباں گر گیا
تقاریر ہوتیں‘ نعرے لگتے‘ پولیس آنسو گیس پھینکتی اور آخرکار لاٹھی چارج ہوتا۔ اس سارے کام کے بعد جلوس بکھر جاتا اور ہم گھر آ جاتے۔ ہم سے مراد میں اور مرحوم بھائی طارق محمود خان ہیں۔ میں گلگشت ہائی سکول میں تھا اور بھائی طارق مرحوم ایمرسن کالج میں۔ میں اباجی کے ساتھ سکوٹر پر سکول جایا کرتا تھا اور بھائی جان طارق اپنے سائیکل پر۔ یہ عام دنوں کی روٹین تھی لیکن جلسے جلوسوں والے دنوں میں اباجی کی ہدایت تھی کہ طارق بھائی مجھے اپنے ساتھ سائیکل پر گھر لے کر آئیں گے۔ یہ بڑے مزے کی ہدایت تھی اور ہم دونوں بھائی اس ہدایت کے طفیل جلوس کے مزے لیتے تھے حالانکہ یہ بندوبست ہمیں جلوسوں سے بچانے کیلئے کیا جاتا تھا۔ اباجی ایمرسن کالج میں لائبریرین تھے اور وہ جلوسوں وغیرہ سے قطع نظر کالج کے اوقات کے مطابق واپس گھر آتے تھے۔ جلوس کے باعث کالج اور اس کے نتیجے میں میرا سکول صبح ساڑھے نو یا دس بجے ہی بند ہو جاتا تھا۔ اباجی کی بھائی کو ہدایت تھی کہ وہ مجھے سکول سے لے کر سیدھے گھر چلے جایا کریں۔ وہ مجھے لے کر جلوس میں شامل ہو جاتے۔ ہمارا یہ آپس میں معاہدہ تھا کہ اباجی کو اس بات کا قطعاً پتا نہ چلے کہ ہم جلوس میں گئے تھے۔ ایک دوبار لاٹھی چارج کے باعث مچنے والی بھاگ دوڑ اور افراتفری میں ہم دونوں بھائی ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ بڑی مشکل سے ایک دوسرے کو تلاش کیا جاتا۔ ایک آدھ بار تو باوجود کوشش کے ایک دوسرے کو تلاش نہ کر سکے تو ڈرتے ڈرتے گھر آئے۔ بھائی گلی کی نکڑ پر چچا سولی کی دکان کے پاس میرا انتظار کر رہے تھے کہ وہ سائیکل کے طفیل جلد گھر پہنچ گئے اور میں پیدل واپس پہنچا۔
کیا زمانہ تھا؟ طلبہ سیاسی معاملات پر ردعمل کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر جلوس نکالتے تھے۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس معمول کی بات سمجھتے تھے۔ پھر بھائی طارق فیصل آباد کامرس کالج پڑھنے چلے گئے اور میں ایمرسن کالج میں آ گیا۔ آرٹس بلاک میں ایجوکیشن کالج بن گیا۔ سائنس بلاک میں مزید کمرے بن گئے اور سارا کالج اس میں شفٹ ہو گیا۔ پھر بھٹو کے خلاف جلوس نکلنے شروع ہوئے تو میں سکول کے طفیلی طالبعلم کے بجائے کالج کے باقاعدہ طالبعلم کے طور پر ان میں شریک ہوتا تھا۔ کیا زمانہ تھا؟۔
طلبہ یونین ہوتی تھی۔ ملکی سیاست میں تقریباً تمام نمایاں نام انہی طلبہ یونینز کی پیداوار تھے۔ طلبہ میں سیاسی شعور بھی تھا اور سیاسی بیداری بھی۔ پھر ضیاء الحق کے زمانے میں طلبہ یونینز پر پابندی لگ گئی۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔ کل پاکستان بین الکلیاتی تقریبات سے لے کر جلوسوں تک اور الیکشن کے جلسوں سے لے کر ہفتۂ تقریبات تک۔ آہستہ آہستہ طلبہ یہ سب کچھ بالکل ہی بھول گئے۔ کل ایمرسن کالج کے لڑکوں کو قصور کے واقعے پر سڑک پر دیکھا تو ایک خوشگوار حیرانی ہوئی۔ میں نے یہ منظر قریب چار عشروں کے بعد دیکھا۔