منتخب کردہ کالم

ایک جلسہ عمران کا‘ دوسرا شامی صاحب کا….رؤف طاہر

ایک جلسہ عمران کا‘ دوسرا شامی صاحب کا….رؤف طاہر

اتوار کی شب لاہور میں دو جلسے تھے۔ ایک گریٹر اقبال پارک میں عمران خان کا جلسہ‘ جس کی بھرپور میڈیا کوریج ایک دن پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس حوالے سے خان قسمت کا دھنی ہے۔ ایک دوست کے بقول‘ جلسہ گاہ میں پہلی کرسی رکھنے سے لے کر جلسے کے اختتام پر آخری آدمی کے نکل جانے تک‘ میڈیا پر رننگ کمنٹری جاری رہتی ہے۔ ایک میڈیا گروپ کے ساتھ خان کے معاملات 2014ء کے دھرنے کے دنوں سے خراب چلے آ رہے تھے۔ سنا ہے، ”نیک چلنی‘‘ کی یقین دہانی پر اب تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ خان اور اس کی تحریک انصاف کے لیے میڈیا کی اس غیر معمولی فیاضی پر ہمارے ایک جماعتی دوست سوشل میڈیا پر گلہ کئے بغیر نہ رہے کہ حال ہی میں یہیں گریٹر اقبال پارک میں جماعت کا یوتھ کنونشن میڈیا کو کیوں نظر نہ آیا‘ جس میں (ہمارے اس دوست کے دعوے کے مطابق) سراج الحق صاحب کے پچاس ہزار نوجوان شریک ہوئے تھے۔
لاہور میں اس شام دوسرے ”جلسے‘‘ کا ذکر ہمارے یارِ عزیز‘ نوراللہ نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں کیا… ”منظر ہی نرالا تھا۔ ہوٹل کے مین گیٹ تک پہنچنا مشکل تھا‘ دُور پارکنگ کے بعد ”سٹیج‘‘ کے قریب جانا بھی ایک چیلنج سے کم نہ تھا۔ لگتا تھا کہ سارا لاہور شامی صاحب کے بیٹے کی دعوت ولیمہ پر مدعو تھا۔ بلا شبہ یہ ایک یادگار تقریب تھی‘‘۔ نوراللہ کی پوسٹ میں ذرہ برابر مبالغہ نہ تھا۔ شامی صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے عثمان کی بارات بھی تعداد اور معیار‘ دونوں اعتبار سے کم نہ تھی۔ شامی صاحب کی بہو ماشاء اللہ حافظہ قرآن اور میڈیکل کی آخری سال کی طالبہ ہیں۔ نکاح مفتیٔ اعظم پاکستان جناب رفیع عثمانی نے پڑھایا۔ دو سابق وزرائے اعظم چودھری شجاعت حسین اور یوسف رضا گیلانی بھی شریک تھے۔ چودھریوں سے شامی صاحب کے ذاتی تعلقات‘ بڑے چودھری صاحب شہید کے دنوں سے ہیں۔ گیلانی صاحب‘ علی شامی کی شادی میں بھی آئے تھے‘ تب وہ سِٹنگ پرائم منسٹر تھے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے لاہوریوں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ میاں صاحب نے اپنے پہلے دورِ وزارتِ عظمیٰ سے شادی کی تقریبات میں شرکت نہ کرنے کا ”اصولی‘‘ فیصلہ کر رکھا ہے۔ البتہ وہ ایک آدھ دن پہلے یا بعد میں آ کر ”سلامی‘‘ دے جاتے ہیں۔ (بیگم صاحبہ بھی ان کے ساتھ ہوتیں‘ اللہ انہیں صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازے کہ ہم انہیں ایک بار پھر اپنے شریک حیات کے شانہ بشانہ اور قدم بقدم دیکھیں۔) آرمی چیف اور ان کے ترجمان نے الگ الگ تحائف بھجوائے تھے۔ صدر ممنون حسین ناسازیٔ طبع کے باعث تشریف نہ لا سکے اور فاروق عادل کے ہاتھ مبارک اور معذرت کا سندیسہ بھجوا دیا۔ عرفان صدیقی صاحب بھی یہاں سرکاری حیثیت میں نہیں‘ ذاتی تعلق کی بنا پر تشریف لائے تھے۔ احسن اقبال اور پرویز رشید کہیں راستے ہی میں رہ گئے۔ جاوید ہاشمی یہاں بھی ”مرجع خلائق‘‘ بنے ہوئے تھے۔ محمد علی درانی سے میجر عامر کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ لاہور ایئرپورٹ سے ان کا فون آیا تھا۔ لیکن وہ ابھی یہاں نہیں پہنچ پائے تھے۔ اپنی صحافی برادری میں سے وہ بھی تھے‘ سوشل میڈیا پر جن کا شامی صاحب کے ساتھ ”چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد‘‘ والا معاملہ رہتا ہے۔ تمام سیاسی و مذہبی مکاتبِ فکر اور نسلی و لسانی اکائیوں کی بھرپور نمائندگی کے ساتھ یہ بلا شبہ قومی یک جہتی کے حوالے سے بھی ایک یادگار تقریب تھی۔ ان تمام احباب سے معذرت جن کے نام نہیں لکھ سکا کہ کالم کی تنگی ٔ داماں کا کوئی علاج نہیں۔ شامی صاحب اپنی آخری ذمہ داری سے بھی سبک دوش ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے برادر محترم اور بھابی صاحبہ کو سویرا‘ فیصل‘ عمر‘ علی اور عثمان کے بچوں بچیوں کی خوشیاں بھی نصیب فرمائے۔
اور اب کچھ ذکر عمران خان کے جلسے کا۔ لوگ اس کا موازنہ خان کے 30 اکتوبر 2011ء کے جلسے سے کرتے ہیں۔ تب یہ ”مینار پاکستان‘‘ تھا‘ اب گریٹر اقبال پارک ہے‘ پہلے سے کئی گنا بڑا۔ دیانتداری سے کہا جا سکتا ہے کہ حاضری کے اعتبار سے یہ اکتوبر 2011ء والے جلسے سے کم نہ تھا‘ لیکن اتنی ہی ایمانداری سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب لاہوریوں کی شرکت (اور ان کا جوش و خروش) تب کی نسبت بہت کم تھا۔ عمران نے سیاسی جلسوں کو ایک نیا رنگ اور آہنگ دیا۔ بھٹو صاحب کے جلسے بھی نئی روایت لئے ہوتے (”بھٹو آ گیا میدان چہ‘ ہے جمالو‘‘ پر نوجوانوں کا لُڈی ڈانس) اب عمران خان کے جلسوں میں ابرارالحق کا… ”عمران خان دے جلسے چہ‘ اج میرا نچنے نوں جی کردا‘‘ اور اس کے ساتھ لڑکوں اور لڑکیوں کا واقعی ناچنا… (وقت وقت کی بات ہے‘ اب ہم ”معززین‘‘ کے ہاں بھی شادی بیاہ میں بچوں‘ بچیوں کو ڈی جے کے گیتوں پر رقصاں دیکھتے ہیں۔)
گریٹر اقبال پارک میں ہفتے کی شب ہی ”میلہ‘‘ سج گیا تھا۔ خود خان نے اسے میوزیکل نائٹ قرار دیا تھا۔ فرزندِ لال حویلی کافی دنوں بعد منظرِ عام پر آیا۔ وہ کہاوت تو آپ نے سنی ہو گی‘ ایک ہاتھی اور بلی لکڑی کے پل پر جا رہے تھے‘ بلی سمجھ رہی تھی ہم دونوں کے وزن سے پل ہل رہا ہے۔ شیخ کا کہنا تھا‘ کرپشن کے خلاف جہاد میں‘ میں عمران کے ساتھ ہوں کہ اسے میری سپورٹ کی ضرورت ہے۔ مزید فرمایا‘ میں پنڈی کی دو سیٹوں سے اپنے انتخابی نشان قلم دوات کے ساتھ الیکشن لڑوں گا‘ اور اس کے عوض ملک بھر میں میری عوامی مسلم لیگ‘ عمران کے امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ خان نے شیخ کے اس ”احسان‘‘ کا جواب اس طرح دیا کہ ایک وقت تھا جب شیخ میری جماعت کو ”ٹانگہ پارٹی‘‘ کہا کرتا تھا۔ شیخ کو اس کی اوقات یاد دلانا ضروری تھا‘ خان کو پی ٹی آئی میں اپنے نائب کو بھی یہ بات یاد دلانے کی کیا ضرورت تھی کہ تحریک انصاف کی عدم مقبولیت کے دنوں میں‘ میں شاہ محمود قریشی کے پاس دعوت لے کر گیا کہ ان جیسے صاف ستھرے آدمی کی جگہ پی ٹی آئی میں ہے‘ تو یہ اس طرح میری طرف دیکھنے لگا جیسے میں پا گل ہوں۔ تو کیا خان یہ کہنا چاہتا تھا کہ پنڈی کا شیخ ہو یا ملتان کا سجادہ نشین‘ پی ٹی آئی کے سیاسی نظریے کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ مقبولیت کی ہوا دیکھ کر انہوں نے بھی ادھر کا رخ کر لیا۔
ویسے سچ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا وہ نظریہ ہے کہاں‘ اوائل 1996ء میں خان جس کا پرچم تھامے میدان میں اترا تھا (تفصیل اور دلیل کے لیے فوزیہ قصوری کا حال ہی میں شائع ہونے والا آرٹیکل پڑھ لیں۔)
عمران خان نے گیارہ نکاتی انتخابی منشور کا اعلان کیا‘ جن میں نیشنل سکیورٹی اور فارن پالیسی کے حوالے سے کچھ نہ تھا۔ ایک دوست کا تبصرہ تھا: خان ان معاملات کے حوالے سے حقیقت پسند ہے۔ اسے معلوم ہے‘ یہ حساس اور نازک امور منتخب نمائندوں کے سپرد نہیں کئے جا سکتے‘ جن کی سوچ اور اپروچ اپنے حلقے سے اوپر نہیں اٹھتی۔ بھٹو کی بیٹی فارن کوالیفائیڈ تھی۔ پالیٹکس اور فارن افیئرز جس کے خاص مضامین تھے‘ لیکن نومبر 1988ء میں اسے جو پاور ٹرانسفر کی گئی‘ دفاع اور امور خارجہ (بلکہ اکنامک پالیسی بھی) اس میں شامل نہیں تھے۔ جنرل ضیاء الحق 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات سے شروع ہونے والے نئے سیاسی نظام کو ٹرانسفر آف پاور کی بجائے شیئرنگ آف پاور کا نظام کہا کرتے تھے‘ (انتقالِ اقتدار کے بجائے شراکتِ اقتدار) اپریل 1988ء میں وزیر اعظم جونیجو والی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں بھی انہوں نے ایک بار پھر صاف صاف الفاظ میں اس حقیقت کی یاد دہانی کرا دی تھی۔ جونیجو سمجھنے کو تیار نہ ہوئے تو مئی میں انہیں گھر کی راہ دکھا دی گئی۔ (17 اگست کو ضیاء الحق بھی راہی ٔملک عدم ہوئے) اپوزیشن 8ویں ترمیم میں نیشنل سکیورٹی کونسل کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوئی تو منتخب حکومت (اور قومی اسمبلی) کے خاتمے والی 58/2B سمیت ”چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے نام پر صدر کے کچھ اور صوابدیدی اختیارات بھی تسلیم کرنا پڑے۔ میاں صاحب کے دوسرے دور میں 13ویں اور زرداری+ گیلانی دور میں 18ویں ترمیم کے ذریعے 1973ء کے آئین کی اصل روح بحال کر دی گئی لیکن پھر وہی بات کہ قومی سلامتی سے متعلق حساس اور نازک معاملات کم فہم سیاستدانوں پر کیسے چھوڑ دیئے جائیں؟ ”Dejure‘‘ پر اصرار اپنی جگہ لیکن ”Defacto‘‘ سے بھی مفر ممکن نہیں۔