ایک زمانہ ختم ہوا، نئے کی اُمید….ایاز امیر
پاکستان کو ایک نئی شروعات کی ضرورت ہے۔ نون لیگ کی حکومت اور اُس سے پہلے پیپلز پارٹی اور جنرل مشرف کے اَدوار پرانی طرز حکمرانی کے عکاس تھے ۔ موجودہ سیاسی ہنگام اور آنے والے انتخابات سے اُمید پیدا ہوتی ہے کہ پرانی حکمرانی کا دور ختم ہوا اور نئے طریقوں کو آزمانے کا وقت آ گیا۔
جس زاویے سے بھی دیکھا جائے انتخابات کے بعد ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے ۔ ملکی حالات پہ اسٹیبلشمنٹ کا غیر معمولی کنٹرول ہمیشہ کیلئے نہیں رہ سکتا۔ موجودہ صورتحال نہ فوج کیلئے نہ پاکستانی معاشرے کیلئے اچھی ہے ۔ جو حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں اور جو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئے لوگ اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالیں گے‘ اُس صورتحال میں جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں اُس کا غیر معمولی تسلط ضرور متاثر ہو گا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے نئی سوچ اُبھرنے کے زیادہ امکانات پیدا ہوںگے ۔ ایک بات بہت سارے تجزیہ کاروں نے نوٹ کی ہو گی۔ عمران خان نے ہندوستان کے بارے میں کبھی بھی بے لچک قسم کی گفتگو نہیں کی۔ نواز شریف کا ہندوستان کی طرف رویہ غیر حقیقت پسندانہ تھا ۔ بجائے اِس کے کہ حقیقت پہ مبنی مفاہمت کی راہیں تلاش کریں اُن کے رویے سے یہ تاثر اُبھرتا تھا کہ وہ ہندوستان سے یاری کرنا چاہتے ہیں ۔ دُشمنی کے اندھے کھیل کا عمران خان حصہ نہیں بنیں گے لیکن نواز شریف کی یاری والا تاثر بھی نہیں دیں گے ۔ بہت سارے پاکستانیوں سے وہ ہندوستان کو زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے ساتھ کرکٹ کھیلتے رہے اور وہاں کے دورے بھی اُنہوں نے کیے۔ بہت ساری دوستیاں بھی وہاں ہیں ۔ اس لئے اُنہیں ہندوستان کے بارے میں نہ کوئی زیادہ غلط فہمی نہ کوئی کمپلیکس (complex) ہے۔ جب اُنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کا دورہ کیا تھا تو نریندر مودی کے ساتھ بڑے نارمل طریقے سے بیٹھے دکھائی دئیے۔ اِس تناظر میں اُمید لگائی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات قدرے نارمل ہو جائیں ۔ جس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل ختم ہو جائیں گے لیکن ایک ایسا ماحول تو پیدا ہو سکتا ہے‘ جس میں دونوں ممالک کے درمیان بات چیت تو ہو سکے اور آنے جانے کا سلسلہ تھوڑا آگے بڑھے۔
دونوں ممالک میں موجودہ صورتحال قطعاً نارمل نہیں۔ جب دنیا میں سرد جنگ چھڑی ہوئی تھی تو امریکہ اور روس کے تعلقات ایسے نہ تھے جیسے ہمارے دو ممالک کے درمیان ہیں ۔ امریکہ اور روس میں آنا جانا رہتا تھا اور گفت و شنید کئی سطحوں پہ ہوتی تھی ۔ ہمارا تو قصہ ہی مختلف ہے ۔ لمبے بارڈر پہ صرف ایک ہی مقا م واہگہ پر کراسنگ ہے جہاں آمدورفت ممکن ہے ۔ باقی تمام بارڈر پہاڑوں سے لے کر سمندر تک بالکل بند ہے۔ پاکستانی پالیسی سازوں کے ذہنوں پہ ہندوستان چھایا ہوا ہے ۔ بات بات پہ وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان ہمارا اَزلی دشمن ہے اور پاکستان کے وجود کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ اور کچھ ہو نہ ہو عمران خان ایسی ذہنیت کے شکار نہ ہوں گے۔ اُن کیلئے ہندوستان ایک ہوّا نہیں بنا ہو گا۔ یہ خوش آئند بات ہو گی کیونکہ دونوں ممالک کے تعلقات جس بند گلی میں پڑے ہوئے ہیں وہاں سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔
اس بحث میں مفروضہ یہ ہے عمران خان کی پارٹی انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے اور اقتدار اُس کے نصیب میں آتا ہے ۔ اگر قسمت نے ساتھ دیا اور ایسا ہی ہوتا ہے تو ایک اور اُمید بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ عمران خان کی سربراہی میں چلنے والی حکومت اسٹیبلشمنٹ‘ جس کا معنی ہے فوج‘ سے معاملات بہتر طریقے سے چلا سکے گی ۔ نواز شریف والا پرابلم نہیں ہو گا کہ جرنیلوں سے ٹانگ اڑاتے پھریں۔ جس ذہنی دباؤ کا شکار نواز شریف رہتے تھے جب اُنہیں فوج سے بات کرنا پڑتی‘ وہ کیفیت عمران خان کی نہ ہو گی۔ نہ وہ فوج کے خلاف بے جا محاذ کھولیں گے‘ نہ ہر چھوٹے بڑے معاملے میں فوج سے ڈکٹیشن لیں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ ایسی قیادت کے زیرِ سایہ سول ملٹری تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔
عمران خان کوئی سوشلسٹ قسم کے آدمی نہیں ۔ اُن کے دوست احباب پیسے والے لوگ ہیں ۔ یہ اُمید تو نہ لگائی جا سکے گی کہ معاشی محاذ پہ کوئی انقلاب برپا ہو لیکن کم از کم اُس قسم کی کرپشن اور اقرباء پروری جو ہمارے ہاں معمول بن چکی ہے‘ اُس میں تو کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ فضول قسم کی عیاشیاں ، بے جا بیرونی دورے ، دیگر ملکوں میں جائیدادیں بنانا اور پیسے رکھنا، یہ تو نہ ہو گا۔ معاشی محاذ پہ پاکستان کو اَچھے دماغوں کی ضرورت ہے۔ جب کرکٹ کی کپتانی کر رہے تھے تو عمران کی ایک نمایاں خصوصیت تھی کہ وہ اچھے لوگوں کی پہچان رکھتے اور پھر اُنہیں آگے لاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ جس ٹیم نے آسٹریلیا میں ورلڈ کپ جیتا اُس کا ہر فرد اَب بھی عمران کو لیڈر مانتا ہے ۔ کرکٹ کا میدان اور قومی معاملات مختلف چیزیں ہیں لیکن صحیح آدمیوں کو موقع فراہم کرنا اور اُنہیں آگے لانا‘ یہ قدر سیاست، کھیل، تجارت اور دفاعی اَمُور میں مشترک ہے۔ بزنس میں بھی آپ تب کامیاب ہوتے ہیں جب صحیح آدمیوں کو ذمہ داری سونپیں ۔ یہ اصول ہر میدان میں اہمیت رکھتا ہے ۔
ممبران اسمبلی پہ البتہ عمران کا دور بھاری ثابت ہو سکتا ہے ۔ اُن کے مزاج میں نہیں کہ کسی کا خواہ مخواہ نخرہ اُٹھائیں۔ ممبران اسمبلیوں کے ترقیاتی فنڈ بند ہونے چاہئیں اور شاید آنے والی حکومت میں ایسا ہو جائے ۔ اِس گندی روایت کی بنیاد جنرل ضیاء الحق کے دور میں رکھی گئی تھی اور اَب وقت آ گیا ہے کہ اِسے ختم کیا جائے۔ ممبران اسمبلی اپنا کام کریں اور ڈویلپمنٹ ضلع کونسلوں اور میونسپل کمیٹیوں پہ چھوڑیں۔ میونسپل نظام مضبوط ہونا چاہیے۔ ہر بڑے شہر میں منتخب میئر ہوں جن کے پاس با معنی اختیارات ہوں ۔ یہی طریقہ باقی دنیا میں ہے ۔ انگریزوں کے دور میں یہ نظام بہتر تھا لیکن ہم نے اُسے تباہ کر دیا۔ اَب صحیح معنوں میں لوکل باڈیز کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
دیرپا منصوبہ بندی ہم نے اِس ملک میں تقریباً ختم کر دی ہے ۔ نہ بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں فکر نہ آبی ذخائر میں کمی کے بارے میں کوئی سوچ ہے ۔ ایو ب خان کے دور تک دیرپا منصوبہ بندی کا رواج ملک میں قائم تھا اور پھر بہت ساری اچھی چیزوں کی طرح اِسے بھی برباد کر دیا گیا۔ مؤثر فیملی پلاننگ کی پاکستان میں ضرورت ہے ۔ جس انداز سے آبادی بڑھ رہی ہے‘ ہم اِسے سنبھال نہیں پائیں گے۔ شہروں میں پانی ختم ہو رہا ہے اور اُس کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ شہروں کے بے دریغ پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اقدام ہونے چاہئیں۔ شہروں کا نظام کیسے بہتر ہو اِس کے بارے میں نئی سوچ کی ضرورت ہے ۔ جو پیسہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لگ رہا ہے اُسے بہتر طرف لگانے کی ضرورت ہے۔
اِس بارے میں بھی گفتگو ضروری ہے کہ پاکستان کا جوہری ذخیرہ کتنا بڑا ہو۔ موجودہ جوہری سوچ قابل عمل نہیں۔ ہمارے جوہری منصوبہ ساز ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر سطح پہ ہندوستان کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اِس کی ضرورت ہے؟ تمام اطلاعات کے مطابق شمالی کوریا کے پاس سات سے دس جوہری بموں سے زیادہ کا ذخیرہ نہیں ہے اور اِن تھوڑے سے ہتھیاروں کی بنیاد پہ وہ امریکہ سے برابری کی سطح پہ بات کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس سینکڑوں ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور پھر بھی ہمارے منصوبہ ساز اُسے ناکافی سمجھتے ہیں۔ اس سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ ایسا آدمی ہی کر سکتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ سے پُر اعتماد طریقے سے بات کر سکے ۔ اب تک کے ہمارے سیاسی لیڈروں میں یہ صلاحیت نہیں دیکھنے کو ملی ۔ اَب آنے والے سیاسی طوفانوں کے بعد اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ اعتماد کا عنصر جو قومی سوچ سے غائب تھا‘ وہ کسی طریقے سے ملکی معاملات میں کارفرما ہو سکے۔