ستمبر سوموار کی سہ پہر سائوتھ بلاک نئی دہلی میں سرخ فون اٹھانے والے کے چہرے پر ایسے تاثرات ابھر آئے جیسے کسی نے ”سہاگ‘‘ اجڑنے کی خبر سنا دی ہو اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کی بری، بحری اور فضائی افواج کے جنرل ہیڈ کواٹرز سمیت بی ایس ایف میں ایک خاموش سی افراتفری نے سب کے چہروںکو انتہائی Tense کر دیا۔ خاموش راہداریوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ تیزی سے ایک سے دوسرے کے کمرے میں آ نے جانے لگے اور ان کا جونیئر عملہ اپنی اپنی جگہ الرٹ ہو کر بیٹھ گیا۔ جیسے ہی ان کے کانوں میں ایک دو الفاظ پڑے ان کے تجربے نے انہیں بتا دیا کہ معاملہ کیا ہے۔ پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ tension کے پیش نظر سیٹلائیٹ سہولتوں نے سائونڈ پروف کمروںکے اندر ہونے والی”بات چیت‘‘ کو اس طرح پھیلا دیا جیسے بھارت پر حملہ ہو نے والا ہے۔ ایک جانب بھارت بھرکے سرکاری دفاتر،کاروباری اداروں، سکیورٹی اور انتظامی اداروں میں یہ خبر مختلف طریقوں سے پھیلتی جا رہی تھی تو ساتھ ہی پاکستان کی سرحد کے ارد گرد ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس اور سنٹرل ریزرو پولیس کے دستے ہر سڑک اور چوک پر ڈیپلائے ہوکر ہر گزرنے والی گاڑی اور موٹر سائیکل کو روک کر اس کی تلاشی لینے لگے۔ شامت ایک بار پھر بے چارے سکھوں کی آنی شروع ہو گئی کیونکہ اس وقت ہر سکھ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ جو افواہ پھیل رہی تھی اس کے مطابق پاکستانی فوج کے ساتھ سکھ سپاہی اور افسر بھی بھارتی فوج کی وردیاں پہنے ہوئے پٹھان کوٹ اور اس کے ارد گرد فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوگئے ہیں کیونکہ گورداسپور سمیت پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے سمیت بھارت کی انتہائی حساس فوجی تنصیبات بھی نصب ہیں، جن کے بارے میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ وہاں اب تک بہت نقصان ہو چکا ہے، لیکن بھارتی حکومت ابھی اس پر پردہ ڈال رہی ہے تاکہ یہ خبر باہر نہ نکلے۔
گورداسپور میں رہنے والوں نے بھارتی فوج کے دستوںکو جب شاہ پور چوک سے گڑتھولی محلہ سے ملحقہ چرچ سے ہوتے ہوئے مشن روڈ کی جانب جاتے دیکھا تو سب کو یقین ہو نے لگا کیونکہ مشن روڈ کا اگلا سرا ڈلہوزی پٹھان کوٹ روڈ سے جا ملتا ہے۔ اب مزید افواہوںکا جنم لینا یقینی تھا کیونکہ یہ سڑک سیدھی جا کر ٹانک چوک سے سبحان پور ( پٹھان کوٹ) سے جا ملتی ہے۔نیشنل ہائی وے گورداسپور، سجان پور،دینا نگر، قادیان، بٹالہ، سری ہرگوبند پور، فتح گڑھ چوڑیاں، بہرام پور، چکی اور خاص طور پر ڈیرہ بابا نانک صاحب کی جانب سے پٹھان کوٹ آنے جانے والی سڑکوں اور اس سے ملحقہ علا قوں میں جگہ جگہ لگے ناکوں کے ہاتھوں پریشان شہری اور خاص طور پر سکھوںکی تلاشیوں سمیت بھارتی فوج کے قافلوںکی پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے اور اس کے گرد پھیلے ہوئے کھیتوںکی تلاشی کے یہ مناظر دیہاتیوں کی جانب سے حیرت سے دیکھے جا رہے تھے۔
بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پھیل گئی کہ پاکستانی فوج کے پیرا شوٹر بھی اپنے ساتھیوں کی مدد کے لئے اتر کر کھیتوں میں چھپ چکے ہیں جنہیں تلاش کیا جا رہا ہے۔ وہاں سے گزرتے ہوئے جگہ جگہ تلاشیاں دیتے لوگ اپنے تک پہنچنے والی ان خاموش اطلاعات کی تصدیق کر رہے تھے کہ پاکستان کی جانب سے کیا ہونے والا ہے؟ اور جب بھارت کی بری اور ایئر فورس کے کمانڈو یونٹ پٹھان کوٹ کے ارد گرد کی ہر سڑک کی جانب بڑھنا شروع ہو ئیں تو دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار بند کر کے لوگ بھاگم بھاگ اپنے گھروں کی جانب دوڑ پڑے، لیکن اس دوران بھارت اور بھارت سے باہر اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو اطلاع دینا نہ بھولے کہ حملہ ہو گیا ہے۔ پھر ہندوستان سے باہر اور اندر ایک کان سے دوسرے کان تک یہ ہولناک خبر ان سوالوں کے ساتھ پھیلنا شروع ہو گئی کہ تمہیں پتا ہے کیا ہوگیا ہے؟ سنا ہے کہ پاکستان نے حملہ کر دیا ہے؟ یہ حملہ کہاں سے کیا گیا ہے؟ اب صورت حال کیا ہے؟ بھارتی فوج کی صورت حال کیا ہے؟ حملہ روکا گیا ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔
بھارتی ایئر فورس کے مشہور اڈے پٹھان کوٹ اور اس کے پچاس کلومیٹر تک کے ارد گرد اور خاص طور پر پٹھان کوٹ ڈلہوزی سڑک پر26 ستمبر کی سہ پہر تین بجے کے قریب ہر آنے جانے والا کو چیک کیا جا رہا تھا۔ ایک ایک گاڑی کی تلاشی لی جا رہی تھی، حتیٰ کہ فوج اور پولیس سمیت پیرا ملٹری فورسز کی گاڑیوں کو بھی روک کر ان میں سوار لوگوں کی شناخت کے ساتھ تلاشی لی جا رہی تھی کیونکہ بھارت کے فوجی ہیڈ کوارٹر کو یہ اطلاع مل چکی تھی کہ ”بھارتی فوج کی وردی میں ملبوس‘‘ پاکستان کے کمانڈوز پٹھان کوٹ اور مقبوضہ کشمیر کے راستوں سے داخل ہو چکے ہیں اور وہ بہت ہی حساس ترین فوجی تنصیبات کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ 400 کے قریب پولیس کے جوان جن میں 3 سپرنٹنڈنٹ پولیس،5 ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور10 تھانوں کے پولیس انچارج، ایس ایس پی پٹھان کوٹ راکیش کوشل کی قیادت میں پٹھان کوٹ کے گرد کھیتوں اور دیہات کی تلاشی میں مصروف ہو گئے۔ راکیش کوشل کا کہنا تھا کہ اسی قسم کی اطلاع ہم نے اپنے ساتھ والی ریاست ہما چل پردیش سے بھی وصول کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں ان کے مخبر نے اطلاع دی ہے کہ پاکستان سے ایک گروہ بھارت میں تخریبی کارروائیوں کے لئے چل پڑا ہے، جسے یہاں سے بھارتی فوج میں موجود خالصتانی سکھوں کی مدد بھی حاصل ہے، جس پر بھارتی فوج کے دستوں نے Chakki River کے ساتھ ملنے والے علا قوں اور وہاں قریب ہی موجود ایک مشہور کالج کو خالی کر اکر اس کے ایک ایک حصے کی اچھی طرح تلاشی لینے کے بعد اپنا ایک سیکشن وہیں پر ڈیپلائے کر دیا ہے۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر کسی نےChakki Khad سے ملنے والی بھارتی فوج کی کچھ وردیوں کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا جس نے اس خبر کی سچائی پر مزید مہر تصدیق ثبت کر دی۔ بعد میں جب یہ وردیاں آرمی ہیڈ کوارٹر پہنچائی گئیں تو یہ کئی سال پرانی اور جگہ جگہ سے پھٹی بلکہ گلی ہوئی تھیں، لیکن بھارتی فوج کی وردیوں کی اس چند سطری اطلاع نے سب کو ہلا کر رکھ دیا اور سونے پر سہاگا یہ کہ اس کے بعد سوشل میڈیا کے باعث دنیا بھر میں نمک مرچ کے ساتھ ایک سے دوسرے ہاتھ کے ذریعے پھیل جانے والی وردیوں کی خبر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت کشیدہ ہونے والے تعلقات کے پس منظر میںکسی کو حقائق تک پہنچنے کی مہلت دیئے بغیر اسے سچ مان لیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ہرکوئی دوسرے کو یہ کہہ کر بتانے لگا کہ ایک فوجی جیپ میں گورے رنگ کے پنجابی سپاہیوںکو کسی سے پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کا راستہ پوچھتے ہوئے اس نے خود دیکھا ہے۔ 26 ستمبر کی سہ پہر تین بجے سے 28 ستمبر کی شام تک پٹھان کوٹ اور گورداسپور اور اس سے ملحقہ ہما چل پردیش کے سرحدی علا قوں میں ایک چھوٹی سی افواہ اور کئی سال پرانی پھٹی ہوئی بھارتی فوج کی وردیوں سے پیدا ہونے والی افراتفری نے پوری بھارتی حکومتی مشینری اور دنیا بھر کے بھارتیوں کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا۔ ہمارا دشمن بھی کسی وقت ایسی ہی صورت حال پاکستان میں پیدا کر سکتا ہے، جس پر ہم سب کو اپنے ہوش و حواس بحال رکھتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ جنگ کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے۔