ایک سچ پر مبنی بدگمانی…خالد مسعود خان
پاکستان میں ڈاکٹر بننا اب کافی آسان ہوگیا ہے‘ لیکن اس کے لئے جیب میں پیسے ہونے چاہئیں ۔ غضب خدا کا کہ میڈیکل جیسا شعبہ‘ جس کا کام انسانیت کی خدمت کرنا تھی‘ شروع میں ہی اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ نیا ڈاکٹر انسانیت کی خدمت بارے سوچ ہی نہیں سکتا ۔ ظاہر ہے جب اس کا اپنا ذاتی خرچہ ہی ساٹھ ستر لاکھ سے تجاوز ہو چکا ہو تو وہ ڈاکٹر بننے کے بعد انسانیت کی خدمت کرے گا یا اپنا خرچہ بمعہ نفع وصول کرے گا ؟
یہ معاملہ اتنا آسان اور سادہ نہیں جتنا کہ میں نے اوپر والی چند سطروں میں بیان کیا ہے۔ پیسہ دے کر داخلہ لینے والے‘ کیونکہ بہت زیادہ خرچہ کرکے ڈاکٹر بنے ہوتے ہیں‘ اس لئے ان کی مجبوری ہے کہ وہ اپنا خرچہ مع منافع وصول کریں اور دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ انہیں آتا جاتا بھی کچھ خاص نہیں ۔ یہ بات سب پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے فارغ التحصیل ڈاکٹر حضرات پر صادق نہیں آتی کہ کافی سارے پرائیویٹ میڈیکل کالجز پڑھائی اور فیکلٹی کے حساب سے بہت اچھے ہیں ‘بلکہ ایک آدھ میڈیکل کالج کے بارے میں‘ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہاں نہایت شاندار اساتذہ طلبہ کو اعلیٰ معیار کی میڈیکل تعلیم دے رہے ہیں‘ لیکن یہ وہ کالج ہیں‘ جو ڈاکٹر عاصم کی حاتم طائی والی سخاوت کے باعث منظور نہیں ہوئے تھے‘ بلکہ میڈیکل کالج کیلئے درکار سارے لوازمات پورے کرکے میرٹ پر منظوری کے مراحل سے گزرتے تھے‘ لیکن کیا کروں ؟ ایک آدھ ایسے کالج بارے بھی جانتا ہوں‘ جہاں داخلے کے لئے علاقہ غیر کے ایک سمگلنگ کے بادشاہ نے آفر دی کہ بے شک ایک کروڑ لے لیں‘ لیکن میرا بیٹا ڈاکٹر بننا چاہئے۔ سو‘ انتہائی نالائق اور بمشکل ( بلکہ بندوبست کے ذریعے حاصل کی گئی ) فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے والا لڑکا ڈاکٹر بن رہا ہے ۔ اللہ مستقبل کے مریضوں پر اپنا کرم فرمائے۔
یادش بخیر سرکاری میڈیکل کالجوں میں اور کچھ نہیں تو کم از کم نوے فیصد لڑکے میرٹ پر داخل ہوتے تھے۔ آٹھ دس فیصد ایسے تھے ‘جو کسی نہ کسی طرح دس بارہ فیصد نمبر بڑھوا کر ہزار میں سے چھ سو نمبر حاصل کر لیتے تھے اور میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے درکار نمبر پورے کر لیتے تھے ۔ یہ والے لڑکے بھی کوئی نالائق نہیں ہوتے تھے ۔ بس آٹھ دس فیصد نمبروں کا بندوبست کرلیتے تھے ۔ باقی سارا سسٹم نہایت عمدہ چل رہا تھا ‘ لیکن یہ گزشتہ صدی کی ستر والی دھائی کا قصہ ہے‘ یعنی قریب چالیس پینتالیس سال پہلے کی بات ہے۔ تب ساٹھ فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے کا داخلہ اس کی مرضی کے کالج میں نہ سہی کہیں نہ کہیں ہو ہی جاتا تھا۔ ٹیوشن تب وجود میں آ چکی تھی‘ لیکن سرکاری کالجوں میں اساتذہ نہایت دلجمعی اور لگن سے پڑھاتے تھے ‘ لیکن آہستہ آہستہ سارا نظام کمرشل ہوتا گیا۔سرکاری کالجوں میں پڑھائی کا معیار نیچے آتا گیا۔ پرائیویٹ ٹیوشن اکیڈمیاں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ میدان میں آچکی تھیں۔ اساتذہ کلاس میں پڑھانے کی بجائے شام والی اکیڈمی میں زیادہ محنت اور لگن سے پڑھانے لگ گئے۔ نمبر لینا قابلیت سے زیادہ رٹے پر منتقل ہوگیا۔ آہستہ آہستہ یہ عالم ہوگیا کہ گیارہ سو میں سے ایک ہزار پچاس نمبر لینا بھی کوئی حیرانی یا اچنبھے کی بات نہ رہا۔ نقل ‘ رٹا ‘ پیپر کے پیچھے بھاگ دوڑ۔ ان سب نے ہمارے امتحانی نظام کی شفافیت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ اس کا توڑ نکالنے کے لئے انٹری ٹیسٹ کی انٹری ہوئی اور ساتھ ہی باقاعدہ جیب تراشوں کا گروہ انٹری ٹیسٹ کی تیار کے نام پر بڑے منظم انداز میں اکیڈمیاں وجود میں آگئیں۔ پہلے یہ چند بڑے شہروں میں تھیں پھر ملتان بھی آگئیں۔ دو تین ماہ کی تیاری کروانے کے نام پر کروڑوں روپے والدین کی جیبوں سے نکلوانے کا ایک اور بہانہ ہاتھ آگیا۔ یہ ڈاکٹری کے شعبہ میں جانے کے شوقین بچوں‘ بلکہ ان سے زیادہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کے شوقین والدین کے لئے ایک شاٹ کٹ نکل آیا۔ ان اکیڈمیوں میں پڑھنے والے بچوں سے تیاری کے نام پر کروڑوں روپے اینٹھنا معمول کی بات بن گئی‘ تو پھر چنیدہ امیر والدین کو پیپر بیچنے کا کام شروع ہوگیا‘ یعنی چل سو چل والا معاملہ چل پڑا۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے آنے کے بعد سب کچھ مزید الٹ پلٹ ہوگیا۔ سرکاری میڈیکل کالجوں کی سالانہ اٹھارہ بیس ہزار روپے فیس کے مقابلے میں لاکھوں روپے سالانہ فیس والے میڈیکل کالج دھڑا دھڑ کھلنے لگ گئے‘ جس حساب سے میڈیکل کالج کھلنے لگے ‘اسی حساب سے خرچہ بھی بڑھتا گیا اور کالج مالکان کی حرص کا دائرہ بھی پھیلتا گیا۔ لاکھوں روپے فیس اور پھر اوپر سے DONATION کا ڈرامہ شروع ہوگیا۔ کبھی ڈونیشن مستحقین کے نام سے وابستہ تھی‘ اب ڈکیتوں کے ساتھ وابستہ ہوگئی۔ ہر سال فیس بڑھتی گئی اور پانچ چھ لاکھ سالانہ فیس اور دس لاکھ ( ون ٹائم ) ڈونیشن داخلے کے لئے ضروری قرار پائی۔ ہر خرابی میں کوئی نہ کوئی اچھائی قدرت کی نعمت ہے۔ اسے انگریزی میں Blessing in disguise کہتے ہیں ‘ یعنی خرابی میں پوشیدہ نعمت اور یہ نعمت ڈاکٹر عاصم کے منظور کردہ کالج تھے‘ جنہوں نے مزید لوٹ مار مچا دی اور نالائقی کے نئے معیار قائم کئے۔ اس پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔اس از خود نوٹس کی بنیاد پر لوگوں کو آس بندھ گئی کہ معاملات ٹھیک ہو جائیں گے ۔ ڈونیشن بند ہو جائے گی۔ داخلے میرٹ پر ہوں گے اور تعلیمی معیار درست ہو جائے گا‘ لیکن ہوا یہ کہ یہ کیس دو سال بذات خود کورٹ میں ذلیل و رسوا ہوتا رہا اور میرٹ بارے کوئی باقاعدہ پالیسی نہ بن سکی۔ داخلوں کا معیار کیا ہوگا یہ بھی طے نہ ہو پایا؛ البتہ سپریم کورٹ نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی فیس از خود بڑھا دی اور وہ کالج ‘جو سالانہ ساڑھے چھ لاکھ سے ساڑھے آٹھ لاکھ لے رہے تھے‘ ان کو ساڑھے نو لاکھ کی از خود اجازت مرحمت فرما دی۔
اب پانچ سال کا خرچہ ( صرف اور صرف فیس ) ساڑھے سینتالیس لاکھ ہے ۔ پہلے فیس پچیس لاکھ اور دس لاکھ ڈونیشن ڈال کر ( جو پوری وصول کی جاتی تھی ) پینتیس لاکھ بنتی تھی‘ اب سینتالیس لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے‘ لیکن ملتان کے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج نے تو ڈاکو زنی کی حد ہی مکا دی ہے اور گزشتہ کئی سال سے ساڑھے گیارہ لاکھ روپے سالانہ فیس وصول کررہا ہے۔ طلبہ کئی بار سڑکوں پر آچکے ہیں اور کالج انتظامیہ ہر بار انہیں بہلا پھسلا کر پھر کالج کے اندر لے جاتی ہے۔ اس کالج کی زمین حکومت پنجاب کے محکمہ لیبر کی تھی‘ جو ٹرسٹ کے نام پر حاصل کی گئی اور یہ ٹرسٹ بچوں کے والدین کے ٹرسٹ کے ساتھ کھلواڑ کررہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بچوں کے والدین سے پانچ سال کی فیس کے ”پوسٹ ڈیٹڈ‘‘ یعنی مستقبل کی تاریخوں کے چیک وصول کر لیے گئے ہیں۔ اخبار نویسوں کا بڑا رعب دبدبہ ہوتا ہے‘ حال یہ ہے کہ ملتان کے ایک قومی اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی بیٹی بھی اس کالج میں پڑھتی ہے اور اس سے بھی پانچ سال کی فیس جو مبلغ ستاون لاکھ تیس ہزار (57,30,000) روپے بنتی تھی‘ اس کی پہلی قسط وصول کرنے کے ساتھ ہی اگلے چار سال کے چیک بھی وصول کر لئے ہیں۔ اس کا بریک اپ اس طرح ہے ۔ پہلے سال داخلہ فیس و ٹیوشن فیس گیارہ لاکھ نوے ہزار ‘ دوسرا سال دس لاکھ ساٹھ ہزار اور تیسرا‘ چوتھا اور پانچواں سال گیارہ لاکھ ساٹھ ہزار روپے فی سال ۔
ایمانداری کی بات ہے کہ ابھی تک چار پانچ توہین عدالت کے کیسوں کے سوا کوئی اور فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا ہو‘ اس عاجز کو تو یاد نہیں۔ ہاں بلا مانگے فیسوں میں اضافے والا فیصلہ ضرور ایسا ہے کہ اب پرائیویٹ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا مزید مشکل کر دیا گیا ہے‘ لیکن اس مشکل کے طفیل پیسے والوں کے لئے مزید آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ مملکتِ خدا داد پاکستان کے بارے میں یہ شک اب یقین میں بدلتا جارہا ہے کہ یہ غریبوں کے لئے نہیں‘امیروں کی سہولت کے لئے بنائی گئی ہے۔
اللہ مجھے اس بدگمانی پر ( جو سچ ہے ) معاف فرمائے ۔