ایک سیاسی، تعزیتی تقریب کا احوال…مرتضیٰ شبلی
گزشتہ سنیچر جنوبی کشمیر کے اننت ناگ قصبے میں ایک تعزیتی میں جانا پڑا۔ اننت ناگ کا اصل نام اسلام آباد ہے جسے مغل گورنر اسلام خان کے نام پر رکھا گیا جنھوں نے اسلام آباد کو ایک گاؤں سے قصبے میں بدلا اور یہاں تعمیر و ترقی کے کافی کام کئے. ڈوگرہ ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے زمانے میں کشمیری پنڈتوں کے دباؤ میں اسلام آباد کو اننت ناگ میں بدل دیا گیا،بچپن میں میں نے اپنے نانا مرحوم کے پاس کئی پرانے خطوط دیکھے ہیں جن پر ڈاکخانے کی مہر پر واضح الفاظ میں اسلام آباد لکھا ہوا تھا۔ تاریخی ماخذ اور حوالوں میں بھی قصبے کو اسلام آباد ہی کہا گیا ہےاگرچہ اس بارے میں مجھے سردست معلومات دستیاب نہیں ہیں مگر اندازہ ہے کہ1931ءکے اواخر میں اسلام آباد کا نام بدل دیا گیا،اس سے پہلے 25 ستمبر1931ء کو ایک کشمیری پنڈت روگناتھ مٹو کی قیادت میں ڈوگرہ فوج نے قصبے میں قتل عام کردیا جسمیں 22 سے زیادہ افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔واضح رہے کہ وادی کشمیر میں مئی 2016ءکے بعد اٹھنے والی عوامی بغاوت کا گڑھ جنوبی کشمیر ہی ہے، یہاں فوج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں لوگوں کا قتل عام آ ئے دن کا معمول بن گیا ہے دس دن قبل اسلام آباد سے متصل کھڈونی گاؤں میں چار طلبہ جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے، اخباری اطلاعات کے مطابق فوج نے ہیلی کاپٹر
گن شپوں سے فائرنگ کرکے سویلین آبادی کو کافی نقصان پہنچایا۔ میری دانست میں یہ پہلی بار ہے کہ فوج نے شہری آبادی پر ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی ہو- تعزیتی تقریب کا انعقاد عبدالغنی شاہ ویری کی تیسری برسی کے موقع پر کیا گیا تھا، مرحوم ویری کشمیر کے قدآور سیاسی لیڈر مرحوم شیخ محمّد عبداللہ کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔ محاذ رائے شماری کی جدوجہد کے دوران آپ نے ساڑھے آٹھ سال تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بعد ازاں جب شیخ عبداللہ نے آزادی کشمیر کیلئے اپنی 22 سالہ جدوجہد کو سیاسی آوارہ گردی قرار دیکر پھر سے حکومت حاصل کی تو مرحوم ویری نیشنل کانفرنس کے ٹکٹ پر انتخابات لڑتے رہے اور کافی عرصہ تک حج اور اوقاف کے وزیر رہے، مرحوم کے ساتھ گھریلو تعلقات کے علاوہ رشتہ داری بھی تھی کیونکہ آپ کے گھر میں نانا مرحوم کا ننیھال تھا۔ ڈاکٹر ویری کی سرکاری رہائش پر تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی اور بڑی مشکل سے تقریب والے حال میں پہنچے جہاں لگ بھگ ڈیڑھ سو کے قریب لوگ فرش پر بیٹھے بڑے انہماک سے تقریر سن رہے تھے جن میں بوڑھے، جوان اور تین عدد خواتین بھی شامل تھیں۔ اسکے علاوہ نزدیکی پہاڑی علاقے سے بکروال برادری سے تعلق رکھنے والے چند افراد بھی نظر آئے۔ حال ہی میں کٹھوعہ ضلع میں ہندو شدت پسندوں کیطرف سے جس آٹھ سالہ آصفہ کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا اسکا تعلق بھی بکروال برادری سے تھا،اسٹیج پر پہنچا تو اسوقت نیشنل کانفرنس کے رکن قانون ساز اسمبلی اور میرے قریبی رشتہ دار الطاف کلو تقریر کر رہے تھے جن کا سارا زور آئندہ انتخابات میں حکومت بنانے کے دعوؤں پر تھا،اس دوران لوگوں نے نعرہ تکبیر اور نعرہ رسالت لگائے کلو صاحب نے اپنے کارکنوں کو بےخوف ہوکر کام کرنیکی صلاح دی تو ایک عہدیدار نے شکایت کی کہ انہیں فوج بہت تنگ کرتی ہےاسطرح کی شکایت کئی اور لوگوں نے کی تو انہیں صلاح دی گئی کہ وہ فوج سے کہیں کہ وہ ’’ملک دشمن‘‘ لوگ نہیں ہیں، میں نے بعد میں پارٹی کے ایک عہدیدار سے پوچھا کہ فوج انہیں کیوں تنگ کرتی ہے تو انہوں نے دھیمے لہجے میں عرض کیا: ’’جناب! فوج کس کو تنگ نہیں کرتی؟ان کیلئے تو سب ہی کشمیری برابر کے گناہگار ہیں۔‘‘ خود ڈاکٹر ویری نے ہندو شدت پسند جماعت بی جے پی کی ساجھے دار محبوبہ مفتی کی پارٹی پر سخت تنقید کی کہ انہوں نے مذہب کے نام پر لوگوں سے ووٹ لئے اور وعدے کئے اور پھر ہندو شدت پسندوں کے ساتھ ملکر اسلامیان کشمیر کی بیخ کنی کرنی شروع کی،خود ڈاکٹر ویری کے بقول موجودہ حالات میں یہاں پر کشمیری مسلمانوں کا ایمان بھی محفوظ نہیں ہے، مجھے اب بھی یاد ہے کہ میرے بچپن میں الیکشن کے زمانے میں محبوبہ مفتی کی والدہ شام ڈھلتے ہی آستین میں قرآن پاک چھپاکر گھر گھر جاکر اپنے آنجہانی شوہر کیلئے ووٹ کی بھیک مانگتی تھیں، گزشتہ الیکشن میں بھی انہوں نے اسلامی نعروں کا بے تحاشہ استعمال کیا اور بظاہر لوگوں کے اسلامی اور کشمیری تشخص بچانے کیلئے ووٹ مانگےبعد میں انہوں نے اقتدار کے حصول کیلئے نہ صرف ہندو شدت پسندوں کیساتھ گھٹ جوڑ کیا بلکہ قتل و غارتگری کا وہ بازار گرم کیا جسکی ہماری تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو،محبوبہ مفتی کے دور اقتدار میں کشمیر میں پہلی بار عید کی نماز پر پاپندی لگا دی گئی اور کرفیو نافذ کیا گیا، 2016 میں خود میں بقر عید کے جلسے میں فوج کی شیلنگ سے بڑی مشکل سے جان بچاکر نکلا جسمیں درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔ تقریب میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی لیڈر غلام محی الدین نے پر مغز خطاب کیا، آپ نے تقریر کا آغاز علامہ اقبال کے اس شعر سے کیا:
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شھنشاہی-
آپ نے کشمیریوں پر تاریخی ظلم و جبر کی بات کیساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس کے بار بار پنتیرے بدلنے کی عادت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا،انہوں نے محبوبہ مفتی حکومت کیطرف سے جاری قتل و غارتگری کے ذکر کے علاوہ نیشنل کانفرنس کی پچھلی حکومتوں کے دوران ہونے والے قتل عام کابھی تذکرہ کیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ ہر دور حکومت میں کشمیری مسلمانوں کو ریاستی قتل و غارتگری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ میری زندگی کا پہلا موقعہ تھا کہ میں کسی بھارت نواز سیاسی جماعت کے سیاسی اجتماع میں نہ صرف شامل ہوا بلکہ اسٹیج پر بھی آیا،اس پر مستزاد یہ کہ مجھے بولنے کی بھی دعوت دی گئی۔میں نے نیشنل کانفرنس سے اپنے اصولی اختلافات کا ذکر بھی کیا اور انکا احاطہ بھی،اسکے بعد کشمیر کی موجودہ صورتحال پر چند ہی الفاظ کہے تھے کہ پیچھے بیٹھے ایک سینئر سیاستدان اور دیرینہ دوست نے میری چٹکیاں لینی شروع کیں،نتیجا مجھے مرحوم ویری صاحب کی فاتحہ خوانی پر ہی اکتفا کرنا پڑا، تقریب ختم ہونے کے بعد جب میں نے اس بارے میں دریافت کیا تو پتہ چلا کہ اسٹیج کے انتہائی دائیں جانب بھارتی انٹیلی جنس آئی بی کے سینئر اہلکار تشریف فرما تھے جو خاکسار کی باتیں کچھ زیادہ ہی انہماک سے سن رہے تھے، کچھ دوستوں نے بتایا کہ انہوں نے میری مختصر تقریر کے دوران ہی میری تصاویر بھی حاصل کیں جو کچھ عجیب سا لگا،مجھے بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ اب کشمیر میں قریب قریب ہر قسم کی سیاسی اور سماجی تقریبات میں سیکورٹی اداروں کے افراد شامل ہوتے ہیں تاکہ کشمیریوں کی سوچ، اپروچ اور الفاظ پر کڑی نظر رکھی جاسکے۔