ایک صائب فیصلہ…خورشید ندیم
نظمِ اجتماعی کی اقامت، ضروریاتِ زندگی میں سے ہے۔ جس طرح پانی کے بغیر فرد کی بقا ممکن نہیں، اسی طرح کسی حکومت کے بغیر سماجی بقا ممکن نہیں۔ اسی لیے نظمِ اجتماعی کے قیام کو ہر بات پر مقدم رکھا گیا ہے۔
اہلِ اسلام پر وہ حادثہ بیت گیا جس کا خیال ہی ان کے لیے سوہانِ روح تھا۔ رسالت مآبﷺ زمینی رفقا کو چھوڑ کر، اپنے رفیقِ اعلیٰ کی جانب روانہ ہوئے تو صحابہ کو یوں لگا کہ زندگی تھم گئی ہے۔ عمر ابن خطاب جیسے بلند حوصلہ کا دل بیٹھنے لگا۔ جن کو مگر اللہ کے آخری رسولﷺ کا نائب بننا تھا، انہیں اللہ نے ہمت دی۔ انہوں نے اپنے آپ کو تھاما۔ ان کی آواز بلند ہوئی تو بے چین دلوں کو جیسے قرار آنے لگا: ”تم میں سے جو محمدﷺ کی عبادت کرتے تھے، وہ جان لیں کہ آپ دنیا سے رخصت ہوئے‘ جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ جان لے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا…‘‘۔
معلوم ہوا کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں نئی حکومت کا سوال اٹھ گیا ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ جیسا صاحبِ بصیرت جانتا تھا کہ اگر یہ مسئلہ بگڑ گیا تو امتِ محمدﷺ میں وہ انتشار پیدا ہو جائے گا کہ سب کچھ بکھر جائے گا۔ ابھی رسالت مآبﷺ کی تدفین نہیں ہوئی تھی۔ اللہ کی امانت، ام المومنین سیدہ عائشہؓ اور سیدنا علی ؓ کے سپرد ہوئی اور صدیقِ اکبرؓ، فاروقِ اعظمؓ کے ساتھ رسول اللہ کی امانت کے تحفظ کے لیے دوڑ پڑے۔ یہ امانت امتِ مسلمہ تھی۔ اس کی بقا اتنی اہم تھی کہ اسے تدفینِ پیغمبر پر مقدم رکھا گیا۔ یہ ابو بکر صدیقؓ جیسی جلیل القدر شخصیات کی دور بینی تھی جس نے اس امت کو مجتمع رکھا۔
اللہ کا دین فطرتِ سلیم پر کھڑا ہے۔ اب صدیوں کا تہذیبی تجربہ بطور دلیل اس کی پشت پر کھڑا ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ نظمِ اجتماعی ایک سماج کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ دیگر سماجی ضروریات پر مقدم ہے۔ لازم ہے کہ سب سے پہلے اس کا اہتمام ہو۔ تجربے نے یہ بھی بتا دیا کہ محض نظمِ اجتماعی کافی نہیں ہے۔ اس نظم کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے۔ مضبوط نظم وہی ہوتا ہے جسے وسیع پیمانے پر عوامی اعتماد حاصل ہو۔ نظمِ اجتماعی کی مضبوطی اس پر منحصر نہیں کہ حکمران نیک ہے یا برا۔ اس کی مضبوطی کا انحصار اس پر ہے کہ اسے عوامی اعتماد حاصل ہے یا نہیں۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں جب حقِ حکمرانی کا سوال اٹھا تو قریش کے حق میں فیصلہ ہوا۔ اس کی دلیل یہ نہیں دی گئی کہ وہ انصار سے زیادہ نیک یا متقی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ لوگ ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ گویا ان کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس دلیل کو سب نے تسلیم کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ صدیق کے حق میں اور بہت سے دلائل موجود تھے‘ لیکن جسے اصول کی حیثیت حاصل ہوئی، وہ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کا یہ فرمان تھا کہ ‘الائمہ من القریش‘… لیڈر قریش میں سے ہوں گے۔
اسلام اور انسانی تجربات پر مبنی افکار، دونوں اس پر متفق ہیں کہ نظمِ اجتماعی کا قیام لازم ہے اور یہ کہ حکمرانی کا اصل حق دار وہ ہے جسے عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ سیدنا عمرؓ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں ہونے والے فیصلے کو مزید موکد کرتے ہوئے، اس بات کے بارے میں ہر ابہام کا خاتمہ کر دیا۔ آخری حج کے موقع پر، آپ تک کسی کی یہ بات پہنچی کہ اگر حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تو میں فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ آخر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیعت بھی ایسے ہی ہوئی تھی اور وہ کامیاب ہو گئی تھی۔ سیدنا عمر ؓ نے سنا تو اسے ایک غلط فہمی قرار دیا اور یہ کہا کہ میں مدینہ پہنچ کر اس کا ازالہ کروں گا۔
حضرت عمرؓ نے مدینہ پہنچ کر ایک تقریر کی۔ یہ بخاری میں نقل ہوئی ہے۔ مولانا مودودی نے اس کا ترجمہ کیا ہے: ”اگر میں ایسا نہ کرتا اور خلافت کا تصفیہ کیے بغیر ہم لوگ مجلس سے اٹھ جاتے تو اندیشہ تھا کہ راتوں رات لوگ کہیں کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں اور ہمارے لیے اس پر راضی ہونا بھی مشکل ہو اور بدلنا بھی مشکل۔ یہ فعل اگر کامیاب ہوا تو آئندہ کے لیے نظیر نہیں بنایا جا سکتا۔ تم میں ابو بکرؓ جیسی بلند و بالا اور مقبول شخصیت کا آدمی اور کون ہے؟ اب اگر کوئی شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرے گا تو وہ اور جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی‘ دونوں اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے۔‘‘ اسی لیے مولانا خلافتِ راشدہ کو ‘انتخابی خلافت‘ قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کا کہنا بھی یہی تھا کہ قرآن مجید سے ہمیں نظمِ اجتماعی کا جو اصول ملتا ہے وہ الیکشن ہے۔
اسلام سمیت دنیا کے ہر نظامِ فکر میں حکمرانوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ یہ اوصاف نظامِ اجتماعی کے قیام کی نہیں، اس کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کی ضرورت ہیں۔ قیام کی ضرورت اور کامیابی کی ضرورت دونوں میں فرق ہے۔ قیام کی ضرورت سے مراد یہ ہے کہ اس کے بغیر نظمِ اجتماعی کا وجود جائز نہیں۔ کامیابی کی ضرورت یہ ہے کہ اس کے بغیر مطلوب نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
اس بات کو اقامتِ صلوٰۃ کی مثال سے مزید واضح کیا جا سکتا ہے۔ بدن کی طہارت اور وضو ضروریاتِ نماز میں سے ہیں۔ اگر بدن ناپاک ہے یا وضو نہیں ہے تو نماز نہیں ہو گی۔ خشوع و خضوع نماز کے معیاری ہونے کے لیے ضروری ہے۔ اس میں کمی رہ گئی تو نماز ہو جائے گی مگر ظاہر ہے کہ مطلوبہ معیار حاصل نہیں ہو گا۔ اب اگر خشوع و خضوع تو ہو لیکن وضو نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی۔ بالکل ایسے ہی حکمران نیک ہو لیکن اسے لوگوں کا اعتماد حاصل نہ ہو تو اس کا اقتدار جائز نہیں ہو گا۔
ہمارے سیاسی و صحافی حلقوں میں جب حکمرانوں کے انتخاب کی بات ہوتی ہے تو اس فرق کو سامنے نہیں رکھا جاتا کہ کس بات کا تعلق ضروریات سے ہے اور کس کا مطالبات سے۔ اس فرق کو نظر انداز کرنے سے وہ بحث پیدا ہوئی جس کا تعلق آئین کی دفعہ 62 اور 63 سے ہے یا لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے ہے جس میں ان انتخابی اصلاحات کو کالعدم قرار دیا گیا جن میں امیدوار کی اہلیت کو بیان کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اب ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا ہے۔
اس فیصلے کی حکمت واضح ہے۔ عوام کی رائے سے نظمِ اجتماعی کا قیام، اجتماعی زندگی کو مستحکم رکھنے کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے قیام کو اس بنیاد پر مؤخر نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے پاس مطلوبہ اوصاف کے لوگ موجود نہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ نماز کا وقت ہو چلا ہو اور ہمارے پاس مطلوبہ اوصاف کا امام موجود نہ ہو۔ اب جس طرح امام کے انتظار میں قیامِ صلوٰۃ کو موخر نہیں کیا جا سکتا اسی طرح مطلوبہ اوصاف کے حامل افراد کے نہ ہونے سے امامتِ کبریٰ کے قیام کو بھی موخر نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی یہ جائز ہے کہ چند افراد جسے نیک اور صالح کہیں اسے حکمران بنا دیں اور اس کو نظر انداز کر دیں کہ اسے عوام کا اعتماد حاصل ہے یا نہیں۔ہمارے اہلِ دانش بنیادی ضرورت کو غیر ضروری بلکہ خلافِ اسلام سمجھتے ہیں اور اضافی ضرورت کو بنیادی۔
ایک مستحکم سیاسی نظام ہماری اجتماعی سلامتی اور بقا کے لیے ضروری ہے۔ یہ نظام اسی وقت میسر آ سکتا جب بروقت اور شفاف انتخابات ہوں اور اقتدار اسے ملے جسے عوام کی اکثریت اس منصب پر دیکھنا چاہتی ہے۔ ہمیں یہ کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ جو لوگ اقتدار تک پہنچیں، ان میں وہ اوصاف موجود ہوں جو ایک کامیاب حکومت کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے لیے قانون بنایا جا سکتا لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ عوام کی شعوری تربیت کی جائے تاکہ وہ بہتر لوگوں کا انتخاب کریں۔