ایک متوازی دنیا کی کہانی!…حسنین جمال
اسی طرح کا موسم تھا۔ کبھی بارش ہو جاتی کبھی حبس ہوتا اور کبھی کچھ نہیں بھی ہوتا تھا۔ گرمی ہوتی‘ شدید گرمی‘ چبھنے والی گرمی‘ اور پھر رات ہو جاتی تھی۔ وہ ان دنوں ایک امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ دن بھر نوکری ہوتی‘ ساری رات لیپ ٹاپ اور کتابوں میں سر دئیے رکھتا۔ بیوی بچے بے چارے بھی اگنور ہوتے‘ لیکن اس کے سر پہ یہی دھن سوار تھی کہ بس کسی طریقے سے امتحان پاس کرنا ہے۔ امتحان اصل میں پاسپورٹ تھا‘ اس نوکری سے جمپ مار کے اور کسی بھی اچھی جگہ پہ جانے کے لیے‘ تو امتحان بہرحال ضروری تھا۔ پہلا سمسٹر ہو گیا۔ زندگی میں پہلی بار اسے پتہ لگا تھا کہ پڑھنا کیا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تو وہ بغیر پڑھے بھی پاس ہو جاتا تھا‘ لیکن یہ ٹیکنیکل پڑھائی تھی۔ ادھر جان مارے بغیر چارہ نہیں تھا۔ دوسرا سمسٹر شروع ہوا‘ تو کورسز بھی زیادہ سخت والے آ گئے۔ اب دن میں کبھی دفتر میں ٹائم ہوتا تو وہ ادھر بھی لیپ ٹاپ کھول کے بیٹھا رہتا۔ ایک دن پڑھتے پڑھتے وہ کسی کام سے اٹھا ‘تو اسے گردن میں شدید درد ہوا‘ درد ہوا تو چکر سا آیا اور وہ بیٹھ گیا‘ پھر لیٹ بھی گیا ‘لیکن گردن کا درد ختم نہیں ہونا تھا‘ وہ تنگ آ کے دفتر سے گھر آ گیا۔ گھر پہ بھی دوا دارو کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑا‘ جس طرح اس نے پہلی بار ٹکا کے پڑھنے کی کوشش کی تھی‘ اسی طرح کوئی درد بھی پہلی بار ٹکا کے ہوا تھا۔ ہسپتال جانے سے اس کی جان جاتی تھی۔ درد‘ لیکن کم ہونے کی بجائے جب حد سے زیادہ ہو گیا‘ تو وہ مجبور تھا کہ ڈاکٹر کو چیک کروائے۔ گیا‘ لیکن جب چیک کروانے کی باری آئی ‘تو درد کی شدت سے وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔
زیادہ نہیں بارہ سیکنڈ لگے اور وہ دوبارہ ہوش میں آ گیا‘ لیکن بارہ سیکنڈ پہلے والی دنیا اور بارہ سیکنڈ بعد والی دنیا میں زمین‘ آسمان کا فرق تھا۔ وہ اٹھائیس سال کی عمر میں بے ہوش ہوا تھا اور ٹھیک بارہ سیکنڈ بعد ہوش میں آیا تو وہ چالیس سال کا تھا۔ باون کا بھی ہوتا تو کوئی حیرت نہیں ہونی تھی۔ فرق پڑنا تھا‘ ایسے نہ پڑتا تو کسی اور طرح پڑ جاتا۔ اٹھائیس کے بعد انتیس اور تیس اور اس کے بعد بھی تو چالیس آنا ہی تھا‘ تو بس وہ تھوڑا جلدی چالیس کا ہو گیا۔ دو چار ماہ بعد اس کے بال بھی سفید ہونے شروع ہو گئے‘ پہلے والی فٹنس بھی دوبارہ واپسی کا نام نہیں لیتی تھی۔ خیال بھی ان سب خیالوں کے بالکل الٹ تھے‘ جو پہلے آیا کرتے تھے‘ لیکن یہ اس کا اندرونی معاملہ تھا۔ سامنے کی کہانی یہ تھی کہ اس کی شکل پہ وہ پہلے والا اطمینان نظر نہیں آتا تھا۔ امتحان پورا ہو گیا‘ کامیابی ہو گئی‘ لیکن وہ پہلے والا بندہ واپس لوٹ کے نہیں آیا۔ اب اٹھائیس برس والے چالیس سال کے اس آدمی کو واپسی کا کھرا نکالنا تھا۔
وہ بے مقصد گھومنا پسند کرتا تھا۔ ایک ہی سڑک پہ بغیر بور ہوئے بھی وہ دس بار گھوم سکتا تھا‘ تو وہ گھومنا شروع ہو گیا۔ ایک دن گھومتے گھومتے اسے پودوں کی ایک نرسری دکھائی دی‘ تو وہ ادھر گھس گیا۔ زیادہ تر نرسریوں کی سائنس یہ ہوتی ہے کہ جوتوں یا کپڑوں کی دکان کی طرح آپ کے سر پہ سیلز مین مسلط نہیں ہوتا۔ کوئی آیا بھی تو ایک آدھ بار پوچھ کے چلا جائے گا‘ آپ آدھا پونا گھنٹہ پودے دیکھنے میں گزار لیں‘ تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تو وہ شخص سڑکوں پہ گھومنے کی بجائے ان مصنوعی جنگلوں میں گم ہو جانا زیادہ پسند کرنے لگا۔ آج ایک نرسری‘ کل دوسری نرسری‘ ابھی آپ سڑک پہ ہیں اور ابھی ایک دم گیٹ کے اندر پاؤں رکھتے ہی پرندے‘ درخت‘ پودے‘ پھول سب کچھ ایک دم سامنے‘ نظارہ اور بہت سارا‘ یہ سامنے دھرا ہوا‘ اسے یہ فیلنگ بھی بہت پسند آتی تھی‘پھر ایک نرسری ‘ان میں سے ایسی تھی‘ جہاں ایک دن بابا کیکٹس اسے مل گیا۔ ہوا یوں کہ ایویں گھومتے گھامتے بابے سے اس نے ایک عجیب بے سرے سے پودے کے بارے میں پوچھا۔ وہ پودا ایسا تھا‘ جیسے کارٹون کیریکٹر ہو۔ موٹا سا پیٹ‘ پتلی گردن‘ ہاتھی کے کانوں جیسے جھولتے پتے اور پیلے ایک دو پھول‘ پھر وہ اپنے سائز سے کچھ زیادہ ہی بڑے گملے میں تھا‘ جس دن پوچھا‘ اس دن بابا کیکٹس ادھر ہی اس پودے کے پاس کھڑا اسے پیار سے دیکھ رہا تھا۔ وہ کہنے لگا: اسے پیچی پوڈیم کہتے ہیں‘ لیکن یہ اس کی ایک خاص قسم ہے۔ یہ ویسا نہیں ہے‘ جیسے یہ سامنے والے بہت سارے ہیں! پھر اس نے ایک اور طرح کے پیچی پوڈیم دکھائے‘ جو ہاتھی کی سونڈ جیسے تھے‘ لیکن وہ سونڈ جو زمین سے اگی ہو اور جس پہ کانٹے ہوں اور جو سیدھی چار پانچ فٹ تک اوپر چلی جائے اور جس کے آخر میں تھوڑے سے پتے ہوں۔ وہ سب دکھانے کے بعد کیکٹس بابا دوبارہ اس کارٹون پودے کا رنامے بیان کرنے لگا۔
کیکٹس بابا اس علاقے کی کیکٹس یونین کا ریٹائرڈ صدر تھا۔ ایک زمانے میں اس نے اپنے انوکھے پودوں کی نمائش پہ کئی انعام جیتے تھے۔ اب وہ زمانہ نہیں تھا۔ اب بابا نرسری کا رکھوالا تھا۔ بابا کوئی پانچ فٹ دس انچ کا تھا۔ مونچھیں نہیں تھیں۔ گھنی سفید ڈاڑھی تھی۔ فوجی کٹ بال تھے‘ جو بالکل پیچھے ہوتے تھے‘ مکمل سر پہ تھے‘ لیکن کہیں کہیں سے کھڑے بھی ہوتے تھے۔ بھنویں کالی تھیں۔ کبھی کبھی نظر کا چشمہ بھی لگاتا تھا۔ تھوڑا اوور ویٹ تھا‘ لیکن شلوار قمیص میں لگتا نہیں تھا۔ بابے کا پودوں سے تعلق کمرشل نہیں تھا۔ ویسے تو اس کی زندگی میں کچھ بھی کمرشل نہیں تھا‘ لیکن پودوں کی دیکھ بھال اور انہیں بیچنا بہرحال اس کا روزگار طے پایا تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ بابے کا شوق اس کی نوکری بن گیا تھا‘ تو بابا موج میں تھا۔ وہ جو سڑکوں پہ گھومنا پسند کرتا تھا‘ وہ پھر بابے سے دوستی کر کے ادھر ہی بیٹھ گیا۔ بابا اسی کی طرح اوازار تھا‘ لیکن بابے کو پودے فریش کر دیتے تھے۔ کیکٹس بابا نے پودوں کی اتنی سائنس اسے بتائی کہ اس نے گھومنا بند کر کے پودے پال لیے۔ اب وہ نوکری کرتا تھا‘ پھر بابے کے پاس جا کے اس سے لیکچر لیتا تھا‘ پھر پودے ڈھونڈتا تھا اور رات کو گھر آتا‘ تو کوئی نہ کوئی پودا ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اس کے چہرے کا اطمینان لوٹ چکا تھا۔ بابا اچھا خاصا عقیدے والا آدمی تھا‘ لیکن حرام ہے‘ جو اس نے کبھی ایک بگڑے ہوئے نوجوان کی فلاح کے لیے کوئی کوشش کی ہو۔ وہ دوستوں کو دوست رکھنا جانتا تھا۔
کیکٹس بابا نے اسے بہت سارے گُر دے دئیے۔ وہ گھومنے والا بندہ… اسے لاٹو شاہ کہہ لیتے ہیں‘ تو لاٹو شاہ کو ایک فل ٹائم مصروفیت مل گئی۔ اب وہ ایک چھوٹا موٹا مالی تھا اور باقی ٹائم اپنی نوکری کرتا تھا۔ لاٹو شاہ کو بابے نے بہت سے ایسے لوگوں سے ملوایا‘ جو اسی کی طرح جنونی تھے‘ جنہوں نے دنیا بھر کے پودے پالے ہوئے تھے‘ جن کے گھروں کی چھتیں بوٹینیکل گارڈن لگتی تھیں۔ لاٹو شاہ پھر پودے پالتا اور مٹیوں میں ہاتھ مارتا مارتا ایسا مصروف ہوا کہ بابے سے ملاقات کم ہو گئی‘ پھر لاٹو شاہ نے شہر سے باہر کرائے پہ گھر لیا تو بالکل ہی آنا جانا کم ہو گیا۔ اسے ایک بات معلوم تھی کہ اگر چالیس سے دوبارہ وہ اٹھائیس برس کی عمر تک واپس جانا چاہتا ہے ‘تو راستہ یہی والا ہو گا؛ مٹی والا‘ پودوں والا‘ دھوپوں والا‘ مالیوں والا‘ پسینوں والا‘ لیکن آپ نے کبھی سنا ہے ؟کوئی اپنے وقت سے نکل کر دوبارہ پیچھے گیا ہو؟ لاٹو شاہ بھی نہیں گیا‘ لیکن گزارہ مزارہ چل گیا۔ بابے نے اسے وہاں دھکا دے دیا تھا‘ جہاں اٹھائیس‘ چالیس یا باون کوئی بھی عمر معنی نہیں رکھتی۔ لاٹو شاہ اب پودوں میں رہتا تھا اور مالک کی حمد و ثنا کرتا تھا۔
آخری ملاقات کے چار پانچ سال بعد اس دن لاٹو شاہ کو معلوم ہوا کہ بابے کیکٹس کی طبیعت خراب ہے۔ وہ ہسپتال میں ہے۔ لاٹو پوچھنے چلا گیا۔ بابا‘ بات نہیں کر سکتا تھا‘ وہ پگھل گیا تھا۔ بابا اپنے پرانے سائز سے آدھا ہو چکا تھا۔ جیسے کسی تصویر کو سافٹ وئیر سے شرنک کر دیں اور وہ انہیں خدوخال کے ساتھ سکڑ جائے‘ بابا اب ویسا تھا۔ اسے دیکھ کے بابے کی آنکھوں میں چمک آئی ‘اس نے بولنا چاہا‘ لیکن جسم نے ساتھ نہیں دیا۔ لاٹو شاہ آدھے گھنٹے بعد باہر نکل آیا۔ بابے نے چھ سال پہلے ایک کیکٹس اسے گفٹ دیا تھا۔ آج پودے ادھر ادھر کیے‘ تو اس کا ایک کانٹا چبھ گیا‘ لاٹو شاہ کو یاد آیا کہ بابے کو مرے آج دو ہفتے گزر چکے ہیں۔