منتخب کردہ کالم

ایک وزیر خوشی کے لیے! (حرف ناز) نازیہ مصطفیٰ

خوشی اور پیسہ دو ایسے موضوعات ہیں، جن پر دنیا میں سب سے زیادہ بحث کی جاتی ہے اور ہر روز کی جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اِن دو موضوعات پر روزانہ دس ارب سے زائد مرتبہ بات ہوتی ہے ۔ دنیا کے فلسفی صدیوں سے خوشی کی حقیقی تعریف کی تلاش میں ہیں کہ آخر خوشی ہے کیا چیز؟ خوشی کی پیمائش کرنا اگرچہ ایک پیچیدہ کام ہے، لیکن ناممکن ہر گز نہیں ہے۔خوشی کو دو مختلف طرح کے سوالات کی مدد سے ماپا جاسکتا ہے۔ ایک قسم کے سوال کا تعلق روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہوتا ہے، جبکہ دوسرا سوال یہ ہوتا کہ ایک شخص کی زندگی کہاں جارہی ہے؟خوشی اور پیسے کا آپس میں تعلق بھی بہت گہرا ہے، اسی لیے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پیسہ ہے تو خوشی ہے۔اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ عموماً روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا تعلق پیسے سے ہوتا ہے، پیسے کی قلت آپ کی روز مرہ کی زندگی کو خاصی اذیت ناک بنا دیتی ہے،اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایک انسان کی ماہانہ یا سالانہ آمدن بہت اچھی ہے تو اس کی مدد سے وہ اپنی روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں خرید سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص ہر وقت اپنی آمدن کی فکر میں رہے گا تو ظاہر ہے کہ پھر وہ وہ خوش کیسے ہوسکتا ہے؟عام طور پر لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خوشی کو خریدا نہیں جاسکتا، لیکن اس کے باوجود جب لوگوں سے پوچھاجائے کہ وہ اپنی زندگی سے کتنے مطمئن (یعنی خوش) ہیں تو اُن کا جواب براہ راست ان کی آمدنی سے متعلق ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خوشی سے اِس بات کا کوئی زیادہ تعلق نہیں ہوتا کہ انسان کی آمدن کیا ہے؟ اس کے لیے وہ دنیا کے سب سے امیر ترین شخص کی مثال دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو بِل گیٹس دنیا کا سب سے زیادہ خوش و خرم شخص ہوتا۔
یوں تو خوشی ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں لیکن اقوام متحدہ کے پائیدار حل نیٹ ورک(ایس ایس این) اور دی ارتھ انسٹی ٹیوٹ کولمبیا یونیورسٹی کی جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے کہ دنیا کے کون سے ممالک ایسے ہیں جن کے عوام خوش ہیں اور اُن کی خوشی کی وجہ کیا ہے؟عالمی یوم مسرت پر جاری ”دی ورلڈ ہیپینیس رپورٹ‘‘ کے مطابق سب سے زیادہ خوش و خرم ممالک میں اس مرتبہ ناروے پہلے نمبر پر آگیا ہے۔گزشتہ برس ڈنمارک کے لوگوں کو دنیا کی سب سے زیادہ خوش و خرم قوم کہا گیا تھا اور اس سے بھی پہلے سوئس شہری دنیا میں سب سے زیادہ لوگ خوش و خرم قرار دیے گئے تھے۔اس برس ناروے کے بعد ڈنمارک، آئس لینڈ، سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ بالترتیب دنیا کے پانچ سب سے خوش و خرم ملک ہیں۔ خوشی اور مسرت کی اس درجہ بندی میں مغربی یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک سب سے آگے ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر ہمارے لوگ جن ممالک میں جانے کیلئے مرے جاتے ہیں وہ اس درجہ بندی میں سرفہرست نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے پسندیدہ ترین ممالک میں سے امریکہ اس درجہ بندی میں14ویں نمبر اور برطانیہ 19 ویں مقام پر ہے۔
”دی ورلڈ ہیپینیس رپورٹ‘‘ میںخوشی ماپنے کے پیمانے میں ناروے کو سب سے اوپر سات اعشاریہ 54 پوائنٹس جبکہ افریقی جمہوریہ کو سب سے کم دو اعشاریہ 69 پوائنٹس ملے۔اس رپورٹ کے لیے لوگوں کی بہبود، وہ کتنے خوش ہیں اور آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ جیسے عوامل کا تجزیہ کیا گیا۔ معاشی ترقی، سوشل سپورٹ، اختیارات استعمال کرنے کی آزادی، زندگی کی اوسطاً عمر، سخاوت اور کرپشن جیسے کئی عوامل کو بھی کو مد نظر رکھا گیا۔ اس بار ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ آخر امریکہ میں مستقل معاشی ترقی کے باوجود بھی خوشیوں کی سطح کم کیوں ہوتی جا رہی ہے؟اس رپورٹ کو تیار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں صرف اقتصادی ترقی پر توجہ دی جاتی ہے ، حالانکہ امریکہ کو مختلف طرح کے سماجی مسائل جیسے عدم مساوات، بدعنوانی، تنہائی اور بداعتمادی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکہ کا بحران معاشی نہیں بلکہ سماجی ہے، جو امریکہ کے لیے ایک سخت پیغام ہے کہ امریکی شہری گزشتہ نصف صدی سے مسلسل امیر سے امیر تر تو ہوئے چلے جارہے ہیں لیکن خوش نہیں ہورہے۔ یہ ایک ایسے معاشرے کے لیے پیغام ہے جو صرف دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے، لیکن اس کا معاشرتی نظام، معاشرتی اعتماد اور شہریوں کا اپنی حکومت پر بھروسہ زوال پذیر ہورہا ہے۔
پاکستان اس فہرست میں اگرچہ بہت اوپر نہیں بلکہ تقریباً وسط میں ہے، لیکن پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے خوشی اور مسرت کی اِس سے بڑھ کر بات اور کیا ہوگی کہ خوش و خرم ممالک کی اس فہرست میں پاکستان کا نمبر اگرچہ 80 واں ہے، لیکن خطے کے باقی تمام ممالک پاکستان سے پیچھے ہیں۔ بم دھماکوں، خود کش حملوں، دہشت گردی کے عفریت، امن و امان کے مسائل، مہنگائی اور اقربا پروری کے باوجود پاکستان علاقے کے تمام ممالک کے مقابلے میں کہیں بہتر پوزیشن پر ہے۔ پاکستان کے لیے ایک اور مثبت نکتہ یہ ہے کہ اس حوالے سے پاکستان نے گزشتہ برس کے مقابلے میں 12 درجے بہتری حاصل کرلی ہے۔ گزشتہ برس 157 ممالک کی اسی فہرست میں پاکستان کا 92واں نمبر ہے۔ بھارت گزشتہ برس اس فہرست میں 118ویں نمبر پر تھا مگر اس برس وہ مزید نیچے چلا گیا ہے اور اب اس سال بھارت اس درجہ بندی فہرست میں 122 ویں نمبر پر ہے۔دنیا کے سب سے ناخوش ترین ممالک میں چار دہائیوں سے جنگوں اور خلفشار کا شکار افغانستان 141 ویں پر اور جنگ زدہ ملک شام 152 ویں نمبر پر ہے۔ یمن اور سوڈان، جہاں قحط جیسی صورت حال کا سامنا ہے، بالترتیب 146 اور 147 ویں مقام پر ہیں۔
قارئین کرام!! زندگی بھر ہم خود خوش رہنے اور دوسروں کو خوش کرنے کیلئے طرح طرح کے جتن کرتے ہیں۔ کبھی اس کوشش میں کامیابی ملتی ہے اورکبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خوشی اور ناخوشی کا اپنا اپنا معیار ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ سوال ہم سب کی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے کہ آخر خوشی ہے کیا؟ جس کے لیے انسان دن کے چوبیس گھنٹے، ہفتے کے سات دن ، مہینے کے تیس اور سال کے تین سو پینسٹھ دن کسی نہ کسی طرح خوشی کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے۔صوفیاء کے نزدیک خوشی بنیادی طور پر سکون کا نام ہے، ایسا سکون جس سے روح سرشار ہوجائے، لیکن حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ایسی سرشاری ہمیشہ حلال راستوں سے ملتی ہے، حرام راستے انسان کو سرشار نہیں کرتے بلکہ ذہنی طور پر مزید خلفشار کا شکار کردیتے ہیں۔آپ خوشی کے لیے حلال راستے اختیار کرکے دیکھیں، سرشاری آپ کا مقدر بن جائے گی اور عالمی درجہ بندی میں پاکستان 80 سے کہیں اوپر چلے جائے گا!خوشی انسان اور ریاستوں کے لیے کتنی ضروری ہے، اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے پانچ ممالک بھوٹان، ایکواڈور، اسکاٹ لینڈ، متحدہ عرب امارات اور وینزویلا میں خوشی کے وزیر بھی تعینات کیے ہیں جن کا مقصد معاشرے میں خوشی اور مسرت کا فروغ ہے۔کیا وقت نہیں آگیا کہ پاکستان میں ایک ”وزیرِ خوشی‘‘ تعینات کیا جائے؟
وہ ریاست کا ایک پس ماندہ شہر تھا۔