ایک چھوٹے سے گائوں کی معمولی کہانی….حسنین جمال
چھوٹے سے اس گاؤں میں سیدھے سادے غریب لوگ رہتے تھے۔ ان کے جھگڑے اور ان کے اختلاف بھی ایویں ہلکے پھلکے سے ہوا کرتے۔ جو بھی مسئلہ ہوتا تو وہ لوگ اکٹھے ہو کے معاملے کا حل نکلوانے پنچ کبیر کے پاس جایا کرتے تھے۔ پنچ کبیر عبادت گزار تھا، سادہ طبیعت کا آدمی تھا لیکن معاملہ فہمی کی حس بہت اچھی رکھتا تھا۔ کبیر جب بھی ان کے جھگڑے نمٹاتا تو کسی کو کسی سے کوئی شکایت باقی نہیں رہتی تھی۔ سب لوگ سمجھ جاتے تھے کہ جو کچھ کبیر نے کہا ہے وہی درست ہے۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے بھی کبیر سے اختلاف نہیں کرتے تھے۔ ان کی محدود عقل کے مطابق کبیر سے بہتر کوئی انسان ایسا نہ تھا جو ان کے آپسی جھگڑے سلجھا سکے۔
ایک دن صبح کا وقت تھا، کبیر عبادت سے فارغ ہو کے گھر آیا اور ناشتے کا بندوبست کرنے لگا۔ دروازے پہ دستک ہوئی باہر جا کے دیکھا تو سامنے پانچ چھ سفید پوش کھڑے تھے۔ انہوں نے کبیر سے کہا کہ ہم نے آپ کی بہت زیادہ شہرت سنی ہے اور لوگوں نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا نے آپ کو جو فہم بخشا ہے اس کا ثانی کوئی نہیں۔ کبیر اندر ہی اندر بہت خوش ہوا، اس نے سوچا کہ یار میں اب اتنا مشہور ہو گیا ہوں کہ انجان لوگ بھی مجھ سے ملنے کے لیے آنے لگے ہیں۔ اس نے انہیں گھر کے اندر بلایا لیکن وہ لوگ جلدی میں تھے۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کے پنچ کبیر سے درخواست کی کہ ہم آپ کے زہد اور آپ کی فراست کے بہت قائل ہیں، ادھر ہمارے گاؤں میں چوہدری صاحب کے گھر بہت مسئلہ ہو چکا ہے، ان کی بیگم طلاق لینا چاہتی ہیں، یہ جھگڑا دو تین برس سے چل رہا تھا لیکن اب بات باہر نکل چکی ہے۔ چونکہ ان کی عزت کا معاملہ ہے اور خبر شریکوں تک پھیل جانے کے آثار ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہہ جلد از جلد آپ تشریف لے چلیں اور ان دونوں کے درمیان کوئی صلح صفائی اگر ہو سکتی ہے تو بس وہ کروا دیں۔ بجائے ادھر خاطر داری میں وقت ضائع کرنے کے، ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ اسی وقت ہمارے ساتھ چلیں اور ہماری مدد کریں۔
کبیر نے سوچا کہ یار یہ میرے فین بے چارے پتہ نہیں کتنی دور سے آئے ہیں اور خدا جانے کتنی آس ان کے دلوں میں ہے تو اس نے فوراً جوتے پاؤں میں اٹکائے اور ان کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ چونکہ ابھی بہت صبح تھی تو گلیوں میں رش نہیں تھا۔ کبیر ان کے گھوڑوں پہ سوار ان کے ساتھ بہت جلد گاؤں کی حدود سے نکل گیا۔ اسے راستے کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ سفر کرتے کرتے رات ہو گئی لیکن منزل تھی کہ قریب نہیں آتی تھی۔ جب انہوں نے رات میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو کبیر نے ان سے مزید سفر کی بابت پوچھنا مناسب سمجھا۔ انہوں نے بتایا کہ صبح روانگی کے بعد پانچ کوس کا فاصلہ باقی ہے۔ الغرض دوسرے دن سورج نوے کے زاویے پہ آنے سے پہلے وہ لوگ چوہدری کے گھر پہنچ چکے تھے۔ وہ معمولی سا گھر تھا۔ کہیں سے بھی اس گھر میں امیری کی جھلک دکھائی نہیں دیتی تھی۔ خیر، چوہدری اس کی بیوی اور خاندان کے دوسرے بزرگ پنچ کبیر کے سامنے پیش ہوئے۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ صرف آدھے گھنٹے دونوں طرف کی گفتگو سننے کے بعد کبیر نے مسئلے کا جو حل نکالا اس سے دونوں میاں بیوی کا اتفاق تھا؟ کبیر ہی کے کہنے پہ چوہدری، اس کی بیوی اور دو تین بڑے بزرگ ساتھ والے کمرے میں گئے، انہوں نے مزید مشورہ کیا اور پانچ منٹ بعد جب وہ باہر آئے تو ان کے چہروں سے ظاہر تھا کہ وہ خوش اور مطمئن ہیں۔ چوہدری کے ملازموں نے پنچ کبیر کے ہاتھوں کو بوسے دینا شروع کر دئیے۔ خود چوہدری بے حد خوش تھا۔ بیوی گھر کے اندر واپس چلی گئی تو چوہدری کبیر سے ہاتھ جوڑ کے عرض گزار ہوا کہ اے میری عزت بچانے والے محسن، میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گھر سات دن تک رکے اور مجھے اپنی خدمت کا بھرپور موقع دے۔ بے شک تو ایک فہیم، دانا اور نیک طینت انسان ہے۔ کبیر کو اعتراض ہی کیا ہو سکتا تھا۔ سات دن اس نے ٹکا کے خدمتیں کروائیں اور جب ساتویں دن روانہ ہونے لگا تو ساتھ کے گاؤں سے چند اور لوگ آ گئے۔ اب انہوں نے کبیر کی منت سماجت کرنا شروع کر دی۔
وہ کہتے تھے کہ ہمارے چند جانور جو رات کو ڈیرے کے اندر بندھے تھے صبح اٹھنے کے بعد غائب ہو چکے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ فلاں فلاں شخص نے انہیں چوری کیا ہے لیکن ان میں سے کوئی یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ ہمیں یقین ہے آپ تشریف لائے تو معاملہ چند منٹ میں نمٹ جائے گا، ہم نے آپ کی بہت شہرت سنی ہے۔ کبیر گاؤں گاؤں اپنی شہرت بڑھتے دیکھ کے سرشار تھا۔ وہ ہنسی خوشی روانہ ہو گیا۔ ابھی دوسرے گاؤں جا کر متاثرہ لوگوں کے ڈیرے پہ قدم رکھا ہی تھا کہ تین لوگ اور چند جانور دوسری طرف بہت دور سے آتے دکھائی دئیے۔ وہ قریب آئے تو سب نے دیکھا کہ تینوں لوگ شدید خوفزدہ تھے اور زاروقطار روتے جاتے تھے۔ کبیر کے سامنے آنے پہ وہ تینوں اس کے پیروں میں گر گئے۔ لیٹے لیٹے معافیاں مانگیں اور کہنے لگے کہ ہمارے خواب میں فلاں بزرگ آئے تھے اور انہوں نے ہمیں سخت سزا اور عذاب کی خبر دی ہے۔ وہ بہت ناخوش ہیں کہ ہم نے یہ جانور چرائے اور انہوں نے ہی بتایا تھا کہ صرف ایک شخص ہے جو تمہیں اس عذاب سے بچا سکتا ہے۔ وہ کبیر پنچ ہے، اسے میں ڈیرے پہ بھیج رہا ہوں، تم جاؤ اور اس سے کہو کہ تمیں معاف کر دے اور جن کے جانور ہیں انہیں فوراً لوٹا دو۔ کبیر دل ہی دل میں حیران تھا کہ یہ سین چل کیا رہا ہے؟ لیکن سب لوگوں کی آنکھوں میں عقیدت اور اپنے لیے شدید عزت دیکھتے ہوئے اس نے لہجہ بھاری کرتے ہوئے ان چوروں کو اپنے پاؤں سے اٹھ جانے کے لیے کہا۔ چوروں نے جانور واپس کیے اور الٹے پیر چلتے ہوئے واپس چلے گئے۔ اب تو سارے گاؤں والے پنچ کبیر کی زیارت کے لیے آنے لگے۔
وہ جب بھی واپسی کا ارادہ کرتا تو غیب سے لوگوں کو ایک نیا مسئلہ درپیش ہوتا۔ اس مسئلے کا حل بھی ظاہری بات ہے کبیر ہی کے پاس ہوتا تھا۔ وہ جب بھی اپنے گاؤں جانا چاہتا تو ایسا ہی کچھ ہو جاتا۔ آخر پندرہ دن کے بعد کبیر نے واپسی کا پکا ارادہ کیا۔ اسے یاد آیا کہ وہ گھر سے نکلتے ہوئے بیوی کو بھی بتا کے نہیں آیا تھا۔ جب اس نے گاؤں والوں سے اجازت چاہی تو جن کے جانور چوری ہوئے تھے ان غریبوں نے عقیدت کے طور پہ چندہ کیا اور پندرہ ہزار روپے پنچ کبیر کو نذرانہ کیے۔ پھر اپنا ایک آدمی ساتھ کر دیا کہ یہ آپ کی حفاظت کرے گا اور آپ کو گاؤں تک چھوڑ آئے گا۔ پنچ کبیر نے ان لوگوں سے دوبارہ آنے کے وعدے کیے اور خوش خوش بھری جیب کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ واپسی پہ بھی اسے راستوں کی خاص سمجھ نہ آئی۔ جو بندہ ساتھ تھا وہی اسے راستہ بتاتا رہا۔ جب کبیر گاؤں کی سرحد پہ پہنچا تو اس آدمی نے جلدی کا عذر کیا اور اس سے اجازت لے کر واپس روانہ ہو گیا۔
جیسے ہی پنچ کبیر گاؤں میں داخل ہوا اور اپنے گھر پہنچا تو سارے رشتے دار وہاں پہلے سے موجود تھے اور ایک رونا پیٹنا مچا تھا۔ اس نے دروازے سے سلام کیا تو سب دوڑ کر اس کے پاس آ گئے اور اسے گلے لگا لیا۔ اس کے بیٹے نے بتایا کہ آپ جب سے اغوا ہوئے ہیں ہم لوگ بہت پریشان تھے۔ ان لوگوں نے ہم سے دس لاکھ تاوان مانگا تھا لیکن ہم نے بہت منتیں کیں تو دو لاکھ تاوان دینے کے بعد انہوں نے آپ کو چھوڑا ہے۔ وہ دو لاکھ بھی ماں کا زیور بیچ کے پورے کیے ہیں۔ پنچ کبیر ایک سناٹے میں آ گیا۔ جو کرامتیں اس نے کی تھیں، وہ جو بزرگ خوابوں میں آ کے اس کا پتہ بتاتے تھے، وہ جو اس کی شہرتیں دور دور تک پھیلی تھیں، ساری کہانی اب اس کی سمجھ میں آئی تھی۔ اب وہ جان چکا تھا کہ وہ شدید بے وقوف انسان ہے لیکن اپنی جعلی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے پنچ کبیر یہ سارا قصہ چپ کرکے پی گیا۔ آج تک لوگ نہیں جانتے کہ پنچ کبیر واقعی عقلمند تھا یا خوشامد پرست بدھو آدمی تھا۔ صرف ٹھگوں کا وہ ٹولہ جانتا ہے کہ پنچ کبیر ان کا شکار کیسے ہوا تھا۔