ایک کہانی جسے بھول جانا بہتر ہے!…..حسنین جمال
مجھے ان غاروں میں جانے کا بہت شوق ہے‘ جہاں عام لوگ جانے سے گھبراتے ہیں۔ غار ہوتا ہی کیا ہے ؛ پہاڑوں میں قدرتی طور پہ بنی ہوئی کوئی ایسی جگہ ‘جہاں انسان چھپ سکتا ہو‘ پناہ لے سکتا ہو۔ عام طور پہ لوگ ان غاروں میں جانا پسند کرتے ہیں‘ جہاں وہ ٹارچ کی روشنی ماریں تو سامنے غار کی دیواریں ہوں۔ وہ جگہ جہاں روشنی ڈالنے پر بھی دور تک اندھیرے ہوں،‘کوئی انت‘کوئی رکاوٹ‘ کوئی دیوار کچھ نظر نہ آئے اور غار کے اور چھور کا اندازہ نہ ہو سکے‘ ادھر پاؤں رکھنے سے نارمل آدمی کتراتے ہیں‘ جس دن میں نے پڑھا کہ فلاں دور دراز صوبے کے پہاڑوں میں ایسے غاروں کی ایک پوری سیریز دریافت ہوئی ہے‘ جہاں ماڈرن دور کے لوگ اب تک نہیں گئے اور جیالوجسٹ (زمینی آثار کے ماہر) بھی اندر جاتے ہیں‘ تو گھبرا کے لوٹ آتے ہیں‘اس دن مجھے اندر سے آواز آئی کہ استاد تمہارا کام شروع ہے۔
وہ غار لاکھوں سال پہلے بنائے گئے تھے ۔ وہ ان غاروں میں سے نہیں تھے ‘جو قدرتی طور پہ بن جاتے ہیں‘ وہ باقاعدہ ترشے ہوئے تھے اور پہاڑوں کے اندر بنائے گئے تھے۔ یہ تو اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ غار پرانے کتنے ہیں‘ لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان غاروں کو بنانے کا مقصد کیا ہو گا۔ ان کے اندر دیواروں پہ کوئی تحریر نہیں تھی‘ کوئی ایسے آثار نہیں تھے‘ جن سے لگتا کہ انسان کبھی یہاں رہے ہیں۔ کوئی دھات‘ کوئی مٹی‘ کوئی معدنیات ٹائپ قیمتی پتھر‘ اندر کچھ بھی نہیں تھا۔ صرف غاروں کی دیوار اگر قریب سے دیکھی جاتی ‘تو اندازہ ہوتا تھا کہ وہ لوگ کیسے عظیم کاریگر تھے ۔ شروع میں کچھ ایسی بات سننے کو آئی تھی کہ چند نوجوان اندر جانے اور غار کے آخری سرے کا سراغ لگانے آئے تھے ۔ وہ چھ لوگوں کا گروپ تھا۔ جتنے دن وہ لمبے رسوں کی مدد سے اندر جاتے رہے ‘ شام تک بڑے آرام سے باہر آ جاتے تھے ۔ ایک دن ان میں سے چار بغیر کسی رسے کے اندر چلے گئے ‘ جو باہر تھے‘ وہ دونوں اس لیے رک گئے کہ جنگلی جانوروں یا مزید چمگادڑوں کو اندر جانے سے باز رکھ سکیں۔ باہر کی دنیا کو پھر یہ بات بتانے کے لیے وہی دو باقی رہے ۔ گمنام اور اچانک موت مجھے بھی پسند ہے۔
میں سردیوں کے ختم ہوتے ہی وہاں موجود تھا۔ غار کے اندر جیسا کہ ہو سکتا ہے ‘ گھپ اندھیرا تھا۔ اس وقت چمگادڑوں وغیرہ پہ میں زیادہ غور نہیں کر سکا‘ بس وہی سنک سوار تھی کہ غار کے آخری سرے کا کھرا نکالنا ہے ۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھتا جا رہا تھا‘ بیٹری کے سیل کمزور ہو رہے تھے ۔ بیٹری کے ایکسٹرا سیل یا فالتو کوئی بھی سامان اس لیے نہیں رکھا تھا کہ زیادہ وزن کا ڈائریکٹ مطلب یہ ہے کہ آپ کم چل سکیں گے ۔ جہاں منزل تک پہنچنے کے وقت کا آئیڈیا ہی نہ ہو‘ وہاں جتنا بھی سامان لاد لیں ‘فائدہ کوئی نہیں ہوتا‘ تو چونکہ غار کے اندر کا سفر جلدی ختم ہونے کی امید نہیں تھی‘ اس لیے میرے پاس کھانے پینے (چنے اور پانی) کے علاوہ کچھ بھی خاص سامان نہیں تھا۔ جب وہ روشنی مکمل بند ہوئی‘ تو مجھے احساس ہوا کہ میں اب بھی دیکھ سکتا ہوں اور یہ حیران کن بات تھی۔ راستہ سیدھا ہرگز نہیں تھا ‘لیکن ہموار تھا۔ گھپ اندھیرے میں دیکھ سکنے کے علاوہ بھی مجھے اپنے اندر ایک عجیب سی توانائی کا احساس ہو رہا تھا۔ جیسے چار گھنٹے (یا شاید چار دن) مسلسل آگے جاتے رہنے کے باوجود مجھے بھوک پیاس نہیں لگ رہی تھی‘ تھکن کا بھی دور دور تک کوئی امکان نہیں لگ رہا تھا۔ ہاں میری گھڑی شروع والے دو گھنٹوں (یا دو دن؟) بعد ہی شاید بند ہو گئی تھی۔ بھوک پیاس نہ لگے ‘ تھکن نہ ہو‘ وقت دیکھنے کے لیے گھڑی نہ ہو‘ پھر بھی مسلسل آپ کتنا چل سکتے ہیں؟ میں سوچ رہا تھا کہ تھوڑی دیر اسی راستے پہ بیٹھ جاؤں‘ لیکن اچانک مجھے لگا کہ سامنے کچھ روشنی ہے ۔
وہ دھوپ تھی‘ جو اینٹرنس والے راستے جیسے بنے ایک اور سوراخ سے آ رہی تھی‘ یعنی میں غار کا معمہ حل کر چکا تھا! میں اس ایگزٹ کے پاس پہنچا اور باہر نکل کر بیٹھ گیا۔ مجھے دور دور تک کوئی آبادی نظر نہیں آ رہی تھی۔ مٹی کا رنگ تبدیل ہو چکا تھا۔ خاکی مٹی (جو اس طرف تھی) اب کچھ راکھ نما لگتی تھی۔ درخت کہیں دور پار نظر آتے تھے‘ لیکن وہ بھی کچھ عجیب سی جسامت کے تھے ۔ میں نے اوپر دیکھا‘ سورج میں بھی وہ تازگی اور توانائی نہیں تھی۔ ایسے لگ رہا تھا‘ جیسے آسمان میں بس ایک نارنجی گولا ٹکا ہوا ہے ۔ نہ وہ قہر بھری روشنی‘ نہ گرمی، کچھ بھی نہیں۔ ہوا … ہوا کی خوشبو‘ ہوا کا رنگ‘ہوا کا سب کچھ بدل گیا تھا۔ ”اگلے ایک لاکھ تیس ہزار سال بعد سورج ٹھنڈا ہو جائے گا‘‘ایک آواز نے سرگوشی کی ”اور یہ کوئی اتنی دور بھی نہیں ہیں‘ ابھی گزر جائیں گے ‘ تم تو جانتے ہو‘‘۔
یہ ہوا کی آواز تھی؟ ”پریشان مت ہو‘ میں صرف ہوا ہوں‘ اصلی والی ہوا‘ تم مجھے صبا کہہ سکتے ہو‘ یہ زیادہ شاعرانہ لگے گا‘ ویسے میرے نزدیک لفظوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘‘۔ ”لیکن تم تو باقاعدہ بات چیت کر رہی ہو‘‘۔ میں نے تھوڑی بے چینی محسوس کرتے ہوئے کہا۔ نہیں یہ صرف لفظ ہیں جو تمہیں محسوس ہو رہے ہیں‘ میں تو بس تمہارے دماغ تک سگنل بھیج رہی ہوں‘ دیٹس اٹ!
ٹھیک ہے (میں نے کھسماں نوں کھا والے لہجے میں کہا) لیکن یہ مٹی کا رنگ کیوں تبدیل ہو گیا ہے ؟ اور یہ درخت عجیب و غریب سے کیوں نظر آتے ہیں‘اور سورج… یہ تو بالکل بے جان سنہری تھالی لگ رہا ہے ‘ یہ سب کیا ہے؟ ”وقت بہت گزر چکا ہے ‘ سورج بوڑھا ہو گیا ہے ‘ یہ سب تبدیلیاں اسی وجہ سے نظر آ رہی ہیں‘‘ ہوا نے جواب دیا۔ اب میں باقاعدہ کھسکا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ ایک تو ہوا باتیں کرتی تھی اور دوسرے یہ سب کچھ بالکل عجیب نقشہ تھا۔ میں نے پوچھا: لیکن صبا! یہ سب کچھ اتنا اچانک کیسے ہو گیا؟ ”اچانک؟ تم پاگل ہو گئے ہو؟ تمہیں غار کے اس سفر میں پورے ایک لاکھ دس ہزار سال گزر چکے ہیں۔ وہ جو تم لوگ کہتے ہو نا وقت پر لگا کے اڑتا ہے ‘ اب دیکھ لو‘ اڑ گیا! جس غار سے تم آئے ہو‘ یہ اس زمانے میں ہم لوگوں نے بلیک ہول میں سے گزرنے کے لیے بنایا تھا۔ اس وقت آئن سٹائن کا نظریہ نہیں آیا تھا ‘مگر کائنات کے اصول وہی تھے ۔ یہ راستہ ہمیں مستقبل اور ماضی کے سارے راز جاننے میں مدد دیتا تھا۔ دنیا کب بنی‘کب ختم ہو گی‘ ہم اس بارے میں آسانی سے حساب کتاب کر سکتے تھے ۔ ہم یہاں آ کر زندگی اور موت کی کشمکش سے وقتی فرار حاصل کر لیتے تھے ۔ ہم‘جو اب ہوا ہیں‘‘۔
اب میری پریشانی دور ہو چکی تھی۔ اس نے جو بھی کہا اور جو کچھ بھی مزید کہنا تھا‘ میں اسے ماننے کے لیے تیار تھا۔ جب آپ نے خود ایک پنگا لیا ہے‘ تو اس کا نتیجہ بھگتنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا: کیا میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ ”ہاں! ضرور‘ ویسے بھی اب تک بغیر پوچھے تم کافی سوال کر چکے ہو‘‘۔ یہ بتاؤ بھٹو زندہ ہے؟ اس نے کہا :ہاں۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تبدیلی آ رہی ہے ؟ اس نے پھر کہا :ہاں۔ تو پھر وہ مجھے کیوں نکالا والا معمہ تو حل ہو چکا ہو گا؟ اس بار ہوا نے ”نہیں‘‘ کہہ کر رخ پھیر لیا۔ اچھا آخری بات یہ بتاؤ کہ حکومت کن لوگوں کی ہے؟ انہی لوگوں کی جو سیاست دان ہیں۔ تو کیا ان پر کوئی مقدمے وغیرہ بھی چل رہے ہیں؟ ہاں، کچھ پہ کرپشن کے مقدمے ہیں‘ جن پر نہیں ہیں‘ وہ اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ تو وہ مقدمے کون چلا رہا ہے؟ یہ مٹی دیکھ رہے ہو نا؟ جیسے پہلے بارودی سرنگیں ہوتی تھیں ‘اب اس کے اندر قدم قدم پہ سیٹیلائٹ ریسیور بھرے پڑے ہیں! گمنام اور اچانک موت کسے پسند ہوتی ہے ؟ ہوا بن کے بھی ہمیں چین نہیں لینے دو گے کیا؟
میں نے گھڑی کی طرف (عادتاً) دیکھا‘ جو اب بھی نہیں چل رہی تھی۔ غار سے آگے جانے کا فائدہ ہی کیا تھا؟ سر جھکائے میں دوبارہ غار کے اندر داخل ہو گیا۔
(اس کالم کا مرکزی خیال ایک فرضی مصنف کی کہانی سے لیا گیا ہے ‘جس کا نام ڈیرک ہارٹ فیلڈ تھا اور جو ہیمینگوے کا ہم عصر تھا اور جو اب بالکل بھلایا جا چکا ہے)