ایک کہانی …نئی یا پرانی؟ (پہلاحصہ)…وقار خان
جانے کیوں سات سمندرپارسے صحافی دوست فیاض ولانہ نے راکھ میں دبی چنگاریوں کو ہوادی ہے ‘کن حالات نے انہیں سوشل میڈیاپرماضی کا ایک ناخوشگوارقصہ یادکرانے کی تحریک دی اورہمارادل اسے دہرانے کوکیوں چاہاہے؟بیتے دنوں کی یہ داستان ہم نے یوںدرازکی تھی :
فیلڈ مارشل ایوب خان چکوال کے نواحی قصبہ خان پور کی شکار گاہ کوپسندفرماتے تھے ۔آپ نے دوران اقتدار دلجبہ کی خوبصورت پہاڑیوں کو چودہ مرتبہ شکار کے لیے عزت بخشی۔چکوال اس وقت ضلع جہلم کی پسماندہ سی تحصیل تھی۔جونہی صدر کے شکار کا بگل بجتا‘ڈپٹی کمشنر جہلم نوابزادہ یعقوب خان ہوتی محکمہ مال چکوال کو انتظامات کا حکم صادر کرتے اور چکوال کے پٹواری اور تحصیلدار اس مملکت خداداد کی اعلیٰ ترین روایات کے عین مطابق سرکاری فرائض چھوڑ کراپنی جیب سے وی وی آئی پی شکار اور کھانے کے انتظاما ت میں جُت جاتے ‘کیونکہ ماضی ہویا حال ‘یہی وطن عزیز کے آئین اور قانون کا اصل چہرہ بھی ہے اور سرکاری ملازمین کی نوکریوں کی ضمانت بھی۔ کئی دن تک انتظامات کا سلسلہ جاری رہتا‘کراچی کے فائیوسٹار ہوٹل سے کھانے کا انتظام کیا جاتا اور دیگر دور دراز کے شہروں سے وی آئی پی فرنیچر ‘کراکری اور قالین وغیرہ کرائے پر حاصل کئے جاتے۔صدر ایوب خان لشکر ِرفقاء کے جلومیں صبح سویرے پہنچ جاتے‘ ڈوہمن ریسٹ ہائوس میں ناشتہ کرتے‘دن بھر شکار سے لطف اندوز ہوتے‘کھانا تناول کرتے اور واپس چلے جاتے ۔یہ 1963ء کی بات ہے۔ تب گھنی اور نوک دار مونچھوں والا چوہدری شاہ نواز خان نامی ایک تنومند نوجوان موضع خان پور میں پٹواری تعینات تھا۔
ہمارے دیگر حکمرانوں کی طرح ایوب خان کو بھی ملک سے کرپشن کے خاتمے کا شوق چرایا ۔اس مقصد کے لیے ان کی قائم کردہ انسپکشن ٹیم کی بڑی دھومیں تھیں۔یہ ٹیم اعلیٰ فوجی وسول افسران اور آڈیٹر جنرل پر مشتمل تھی ۔چند غیر ملکی صحافی بھی ان کے ساتھ ہوتے ۔اس ادارے نے قائم ہوتے ہی اپنی تیز دھاردرانتی سیدھی کرپشن کی جڑوں میں رکھ دی اور ملک سے بدعنوانی اور رشو ت کو بالکل اسی طرح ختم کر دیا جیسے ہماری ہر حکومت ان خرافات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔ یہ سخت مزاج لوگ سرکاری دفاترمیں گھس جاتے اور اپنی چھڑیاں میزوں پر مار مار کر افسران اور اہلکاروں سے سخت باز پرس کرتے اوران کو بے عزت بھی کرتے۔اس انسپکشن ٹیم نے ملک کے طول و عرض میں کھلی کچہریاں منعقد کیں‘موقع پر لوگوں کی شکایات سنیں اور بدعنوانیوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کے علاوہ سرکاری ملازمین کو برموقع ذلیل بھی کیا۔کرنا خدا کا کیا ہواکہ اسی صدارتی شکار گاہ موضع خان پور میں اس کرپشن دشمن ٹیم نے کھلی کچہری کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔مقامی انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔حسب ِ روایت پٹواریوں نے مروجہ طریقہ (از گرہ خود) سے کھلی کچہری اور ٹیم کے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔کھلی کچہری نے جلسۂ عام کی شکل اختیار کر لی۔پولیس‘محکمہ مال اور دیگر سرکاری اداروں کے خلاف لوگوں نے شکایات کیں۔ بریگیڈیئر مظفر صاحب نے سرکاری افسروںو اہلکاروں کے خوب لتے لیے اور برملا اعلان کیا کہ ہم سب کو سیدھا کر دیں گے۔
یہ کچہری علاقہ کوکرپشن سے پاک کرکے بخیر و عافیت اختتام پذیر ہو جاتی ‘اگر آخر میں غلام رسول نامی شخص اپنی شکایت نہ کرتا ۔اس نے مطالبہ کیا کہ گائوں میں ہندئوو ں کی متروکہ اراضی کو قبرستان کے لیے وقف کیا جائے۔اس نے مزید کہا کہ مذکورہ جائیدادکے بارے میں پٹواری حلقہ صحیح نہیں بتائے گا۔سو‘ اس کو ذرا رگڑا دے کر پوچھیں۔اب جیساکہ قلیل سے عاقبت نااندیش خاندانوں کاوتیرہ ہے‘سفیدپوش گھرانے کے معمولی پٹواری نے خودداری اور بغاوت شعارطبیعت ورثے میں پائی تھی۔وہ کم تردرجے کا سرکاری ملازم ہونے کے باوجودکلمہ حق کہنے سے قبل جابرکاقدکاٹھ ماپنے کاقائل نہ تھا۔ وہ انسپکشن ٹیم کے طلب کرنے سے قبل خود ہی کھڑاہوگیااور اپنا تعارف کرایا کہ میں شاہ نواز خان حلقہ پٹواری خانپور ہوں۔فاضل اراکین انسپکشن ٹیم نے کورس کی صورت پٹواریوں کی شان میں دلگدازقوالی کی ‘انہیں چور اور رشوت خور قرار دیااور حکم دیاکہ غلام رسول کی بات کا جواب دو ۔پٹواری نے پہلے تو عرض کی کہ یہ زمین صوبائی حکومت کے فلاں حکم کے تحت ‘فلاں مہاجر کو الاٹ ہو چکی ہے ‘پھردفعتاًغیرمتوقع طورپراس نے پینترابدلااورٹیم سے گستاخانہ ساسوال کردیا کہ اب مجھے بتایا جائے کہ مجھے رگڑا کیوں دیاجائے گا؟ ارباب ِکچہری میں بے چینی کی لہردوڑگئی اوراس ناقابل یقین صورتحال میں انچارج ٹیم اور پٹواری سرکل کے درمیان تلخ کلامی شروع ہو گئی ۔ بریگیڈیئر صاحب نے حکم دیا ”بیٹھ جائو‘‘ پٹواری نے کہا ”نہیں بیٹھتا ‘‘ انچارج ٹیم نے پوچھا ”کیا کر و گے؟‘‘ اس نے جواب دیا ”شکایت کروں گا…آپ بدعنوانی کے خلاف میری ایک شکایت نوٹ کریں ‘‘ بریگیڈیئر مظفر نے پوچھا کہ تم نے کس کے خلاف شکایت کرنی ہے ؟ پٹواری سرکل نے بم پھوڑا ”صدر ایوب خان کے خلاف‘‘ محفل میں سناٹا چھا گیا۔ کرخت لہجے میں پوچھاگیا”کیاپریذیڈنٹ کرپٹ ہیں؟‘‘ پٹواری نے اپنے پائوں پرکلہاڑی مارنے کاسلسلہ جاری رکھتے ہوئے کڑک دارلہجے میں کہا ”جی ہاں! وہ بدعنوان ہیں‘وہ بل نہیں دیتے ‘ وہ اب تک بارہ مرتبہ یہاں شکار کے لیے آچکے ہیں‘ایک دفعہ ان کو کھانا سردار خضر حیات خان نے دیااور بقول ان کے (اس زمانے میں ) آٹھ ہزار روپے (صرف کھانے کا) خرچ آیا ‘مجھے بتایا جائے کہ باقی گیارہ دفعہ آٹھ ‘آٹھ ہزار روپے کہاں سے آئے ؟ کیا صدر مملکت ساتھ لائے تھے یا کسی سرکاری ادارے نے دیے تھے؟ اگر آپ کو نہیں معلوم تو میں بتاتا ہوں کہ کھانے کے یہ پیسے اور دیگر اخراجات ان بدعنوان پٹواریوں نے برداشت کیے تھے‘‘ ۔شاہ نواز خان نے مزید کہا کہ ہمیں یہ اخراجات کرنے کا حکم اوپر اوپرسے آتا ہے ‘آپ کب سے رشوت ‘رشوت کی رٹ لگا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں‘صاف بات یہ ہے کہ پٹواری چھوٹے چور ہیں اورصدربڑاچور ہے۔اس نے کہا سو سنار کی ‘ایک لوہار کی کے مصداق پٹواری تھوڑی تھوڑی رشوت اکھٹی کرتے ہیںاور صدر ایک ہی جست میں آ کر ساری چٹ کر جاتا ہے ۔لوگ جو پہلے ہی حکومت کے خلاف بھرے بیٹھے تھے ‘انہیں اس بات سے حوصلہ ہوا اور انہوں نے حکومت کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ایس پی جہلم نے اپنی فورس کے ہمراہ آگے بڑھ کر پٹواری کو قابو کر لیا‘ مگر بریگیڈیئر صاحب نے حکم دیا کہ اس کو سٹیج پر آنے دیا جائے۔سٹیج پر انہوں نے پٹواری سے کہا کہ یا تو تم پاگل ہو یا تمہارے گھر دانے زیادہ ہیں۔ادنیٰ سرکاری ملازم نے جواب دیا کہ دونوں باتیں غلط ہیں‘ نہ میں پاگل ہوں اور نہ ہی امیر آدمی ہوں ۔آپ کب سے کرپشن پر لعنتیں بھیج رہے ہیں ‘اسی بارے ایک سچ بات تھی‘ جو میں نے بھی کہہ دی ۔بریگیڈیئر صاحب نے پوچھا کہ تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے ؟ اس نے کہا کہ ہوٹل اور دیگر اشیاء کے بلز میرے نام پر ہیں ‘ جو میں کسی بھی فورم پر پیش کرنے کو تیار ہوں ۔اس دوران غیر ملکی جو ”پریذیڈنٹ‘‘ اور ”کرپٹ ‘‘ جیسے الفاظ بار بار سن کر کا فی کچھ سمجھ چکے تھے ‘پوچھتے رہے کہ یہ کیا کہتا ہے ؟ ان کو اراکین ٹیم اور انتظامیہ ٹالتے رہے‘ تاہم ایک بوڑھے گورے نے اٹھ کر پٹواری کا کندھا تھپتھپایا اور اپنی ڈائری پرطویل نوٹ لکھا ۔المختصر ! کھلی کچہری ہذٰا نہایت بدمزگی کے عالم میں اختتام پذیر ہوئی اور انسپکشن ٹیم بغیر کچھ کھائے پیئے اٹھ کر چلی گئی‘ کیونکہ وہ بدعنوانی کا قلع قمع کرنے آئے تھے ‘آئینہ دیکھنے نہیں۔
اگرچہ گھنی مونچھوں والے پٹواری نے حالات خراب کرنے میں کوئی کسرنہیںچھوڑی تھی‘ تاہم انہیں مزیدسنگین بنانے میںگھنی اورخوبصورت ڈاڑھی والے امیرجماعت اسلامی مولانا مودودی کے کردارکوبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا‘ جنہوں نے بغیروقت ضائع کیے پٹواری کوخراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے اسے خط لکھ دیا۔خط خفیہ والوں نے پکڑلیا…(جاری ہے)