برسوں پرانی بات ہے جب حبیب جالب نے ایک فریاد بلند کی تھی۔بھٹو صاحب مرحوم کو یا اُن کے پیش روایوب خان کو مخاطب کر کے۔ نظم تو مجھے بھول گئی۔ پہلا مصرع (جو نظم کا عنوان بھی تھا) ناقابل فراموش ہے اور وہ ہے ع
اے صدر امریکہ نہ جا:
اب یہ کالم نگار اس مصرع میں ضروری ترمیم کر کے یوں لکھنا چاہتاہے ع
اے میاں امریکہ نہ جا!
میاں سے مُراد ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب ہیں۔ شائستگی کا تقاضا یہ تھا کہ میں اے میاں کی بجائے جناب میاں صاحب لکھتا مگر مجبوری یہ تھی کہ اس طرح مذکورہ بالا مصرع بے وزن ہو جاتا جو شعری قواعد کی خلاف ورزی ہوتی (اور خود میاں صاحب بھی بدمزہ ہوتے)۔ میرے قارئین پوچھیں گے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب خود بڑے سمجھدار اور تیسری بار وزیراعظم بننے کی وجہ سے اتنے تجربہ کار ہیں اور اُنہیں اتنے سیانوں کی مشاورت بھی حاصل ہے‘ اگر اُنہوں نے امریکہ جانے اور ایٹمی کانفرنس میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو ضرور سوچ سمجھ کر کیا ہوگا؟
یہ مسکین کالم نگار نصف صدی سے وطن عزیز سے جسمانی طور پر (ذہنی طور پر ہر گز نہیں) چھ ہزار میل کے فاصلہ پر رہتا ہے۔ کسی سیاسی یا سرکاری عہدہ پر فائز نہیں۔ ساری عمر پڑھتے پڑھاتے یا قانون کی پریکٹس کرتے گزری۔ اُس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ دُنیا کی دوسری بڑی اسلامی مملکت کے وزیراعظم صاحب کو مشورہ دے کہ وہاں جائیں یا وہاں نہ جائیں۔ سنا ہے کہ ہمارے وزیراعظم خوش لباس‘ خوش اخلاق اورخوش شکل ہی نہیں خوش خوراک بھی ہیں۔ اُنہوں نے عمر بھر خوش خوراکی کے مظاہروں کے درمیان کئی قسموں کے شوربے پئے ہوں گے۔ اگر یہ سطور اُن کی نظروں سے گزریں (جس کا بظاہر امکان صفر ہے) تو وہ میرا بن مانگے مشورہ پڑھ کر زیر لب یہ ضرور کہیں گے ” کیا پدّی اور کیا پدّی کا شوربہ‘ ‘ ،جس کا سلیس زبان میں مطلب یہ ہے کہ ایک بے بس لاچار کالم نگار اور ایک عام شہری (اور وہ بھی جلا وطن) کی یہ مجال کہ وہ وزیراعظم کو امریکہ نہ جانے کا مشورہ دے اور وہ بھی خفیہ ذرائع سے نہیں بلکہ پاکستان کے ایک بڑے اُردو روزنامہ میں چھپنے اور دُنیا بھر میں پڑھے جانے والے کالم کے توسط سے۔ رہا سوال پدّی کا شوربہ پینے کے مشورے کا تو اُس کا پینا بھی خوش خوراکی کے آداب کی اتنی ہی بڑی خلاف ورزی ہوگی‘ جتنی امریکہ کے حکم پر امریکہ میں ہونے والی ایٹمی کانفرنس میں شریک ہونے سے انکار کر دینا۔
مجھے اُس کی کچھ پروا نہیں کہ ہمارے وزیراعظم صاحب اس کالم نگار کے بارے میں کتنی حقارت آمیز رائے رکھتے ہیں (یا رکھنے میں حق بجانب ہوں گے) مجھے اس کی بھی کچھ پروا نہیں کہ ان کے مشیران (کاش کہ میں اُنہیں باتدبیر لکھ سکتا) ‘ اس کالم کو پڑھ کر میری فریاد اُن تک پہنچائیں گے یا نہیں؟ میں اس کالم کے ذریعہ اپنے لاکھوں ہموطنوں سے مخاطب ہوں کہ صاحبو! اگر آپ کو اپنا قومی مفاد عزیز ہے اور آپ کبوتروں کی نسل سے تعلق نہیں رکھتے ‘ جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ بلی (جو انہیں نظر آنا بند ہو گئی ہے) غائب ہو چکی ہے‘ تو آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آنکھیں بند کرنے کے چند لمحات کے بعد اس نادان کبوتر کا کیا حشر ہونا ہے۔ جان لیں اور مان لیں کہ امریکہ بلی ہے اور ہم کبوتر۔ وہ ہمارے دانت نکال کر ہمیں Toothless بنانا چاہتا ہے۔ وہ ہمارے پنجے کاٹ کر ہمیں بے دست و پا بنانے پر تلا ہوا ہے۔ وہ مصمم ارادہ رکھتا ہے کہ ہمارے میدانِ جنگ میں استعمال ہونے والے Tactical ایٹمی ہتھیار ہم سے چھین لے یا ہم پر اتنا دبائو ڈالے (جیسے اُس نے ایران کے معاملہ میں کیا ) کہ ہم اپنے اُس متاع غرور کا سودا کرنے پر تیار ہو جائیں جو ہمارا واحد سرمایہ ہے۔ ہم نہ صرف محاورتاً بلکہ لفظی معنوں میں وہ ہتھیار ڈال دیں جو ہمارے دفاع کی بہترین اور سب سے موثر ضمانت ہیں۔ خدانخواستہ اگر ہم نے وہ روز بد دیکھا (یا ہماری قیادت نے ہمیں دکھایا) تو یہ نہ صرف بدترین
بے حمیتی اور بے غیرتی ہوگی بلکہ آئین پاکستان کی رُو سے غداری بھی۔
اگر آپ ڈاکٹر کو اپنا قائد بنائیں تو اُس کا تجزیہ طبی ہوگا۔ وہ کہے گا قوم کو چند بیماریاں لاحق ہیں اور میں اُن کی پہلے تشخیص کروں گا اور پھر علاج تجویز کروں گا۔ آپ مدرس یا معلم کو قائد بنائیں گے تو وہ ساری قوم کو زانوئے تلمذتہہ کرائے گا۔ اُنہیں زیر تعلیم طلباء اور طالبات سمجھے گا اور اُنہیں اس طرح اچھے اچھے سبق پڑھائے گا‘ جیسے کہ وہ طفلان مکتب ہوں۔ اگر آپ وکیل کو اپنا قائد بنائیں گے (جس طرح ہم نے جناب قائداعظم کو بنایا) تو وہ تاریخ کی عدالت میں ہمارا مقدمہ پیش کرے گا اور قوم کو اپنا Client سمجھ کر اُس کی خاطر جان لڑائے گا۔ جیسے کہ وہ کمرئہ عدالت میں کرتا ہے۔ اگر آپ جرنیل کو اپنا قائد بنائیں گے تو وہ ہیر پھیر اور دائو پیچ کی بجائے غیر منافقانہ کردار اور سپاہیانہ سادگی کا نمونہ ہوگا‘ سیاسی دُور اندیشی سے عاری ہوگا۔ صرف دو اور دو کو جمع کر سکے گا۔ اور جونہی حریف نظر آئے گا اُس پر بے دھڑک گولی چلا دے گا۔ چاہے بعد میں پتہ چلے کہ دُشمن کے ہاتھ میں سفید پرچم تھا اور وہ صلح کی نیت سے خندق سے باہر نکلا تھا۔ اگر آپ کسی کاروباری شخص کو اپنا قائد بنائیں گے تو اُس کا ذہن دکاندار کا ہوگا۔ خرید و فروخت کے عمل کے اندر جکڑا ہوا۔ وہ آپ کو خریدنے کی کوشش کرے گا اور اگر مناسب دام مل جائیں تو اپنے آپ کو فروخت کر دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ حساب کتاب یعنی (Calculation) اُسکی ذہنیت پر اس طرح حاوی ہوگی کہ مالی نفع نقصان اس کے ہر فیصلہ کا تعین کرے گا۔ اگر ہم نے انتخابات کے ذریعہ اور ایک جمہوری عمل کے ذریعہ کاروباری لوگوں کو اپنا قائد بنا ہی لیا ہے تو ہم اُن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے مشیروں اور قریبی ساتھیوں میں بہادر جرنیلوں (مثلاً جنرل علی قلی خان‘ سابق سپہ سالار آصف جنجوعہ‘ اکھنور کے فاتح جنرل اختر ملک‘ چونڈہ ٹینک جنگ کے ہیرو بریگیڈیئر امجد چوہدری اور جنرل ابرار حسین‘ لاہور کے محافظ جنرل سرفراز ‘ ایئر مارشل محمد نور خان‘ ایئر مارشل اصغر خان اور نشان حیدر پانے والے شہداء (میجر عزیز بھٹی اور شبیر شریف) جیسے بے خوف‘ صاحب کردار‘ عزم و ہمت کے پیکروں اور فولادی اعصاب رکھنے والوں کو شامل کریں۔
جناب سرتاج عزیز اور سابق سفارت کار طارق فاطمی کو کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسم شاہبازی۔ اس کی وجہ اقبال نے شعر کے پہلے مصرع میں خود بتا دی۔ ؎
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
ہم جناب عرفان صدیقی‘ سرتاج عزیز اور فاطمی صاحبان اور وزیراعظم کے دُوسرے قریبی رُفقا کی خوبیوں کا زیادہ نہیں تھوڑا سا ادراک تو رکھتے ہیں اور ماضی میں اس قبیل کے لوگوں کا بے داغ اور کامیاب زندگی گزارنے کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ آپ چاہے جو کچھ کہہ لیں مگر آپ ان میں کسی ایک پر بھی شاہین ہونے کا الزام نہیں لگا سکتے۔ مانا کہ وہ کرگسوں کے ساتھ پلے بڑھے مگر کوئی بھی کرگس اُنہیں فریب نہ دے سکا۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کرگسوں کو اپنے اصل رُوپ اور شناخت اور ذہنی ساخت کے بارے میں چکمہ دے گئے ہوں۔
مندرجہ بالا شاہی مصاحب صحیح معنوں میں کنجشک فرومایہ ہیں۔ یہ ہماری حماقت ہوگی کہ ہم اُن منقارزیر پر‘ خمیدہ کمر اور عمر رسیدہ پنشن یافتہ افرادسے یہ توقع رکھیں کہ وہ شاہین پرٹوٹ پڑیں گے اور اُس کے پرخچے اُڑا دیں گے (جس طرح کہ نشان حیدرحاصل کرنے والے شہداء نے کیا) ۔اقبالؔ نے کہا تھا کہ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی صرف وہ کر سکتا ہے جو بندئہ صحرائی ہو یا مرد کہستانی ہو۔ میری نظر میں پاکستان کے قومی مقاصد کی حفاظت کرنے کے لئے کسی شہری بابو کی نہیں بندئہ صحرائی یا مرد کہستانی کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم خود اس معیار پر (ہماری بدقسمتی سے) پورے نہیں اُترتے تو مندرجہ بالا خوبیوں کے مالکوں کو اپنا رفیق‘ مشیر‘ ہم دم اور راز داں تو بنا سکتے ہیں اور اگر نہیں بنا سکتے تو پھر میری فریاد سُن لیں۔ ع
اے میاں امریکہ نہ جا