منتخب کردہ کالم

بات تو اتنی ہے ۔۔۔۔ نازیہ بی بی

علامہ اقبال نے خوبصورتی سے فرمایا:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیان
انسان کا آنسو بہانا بھی ایسا ہی فطری عمل ہے جیسے مسکرانا اور کھکھلانا۔ انسانی شخصیت کے بہت سے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک سخت گیر اور سخت دل انسان بھی اکثر اوقات اپنے جذبات کا اظہار آنسو بہا کر کرتا ہے۔ نریندر مودی جیسے جذبات سے عاری انسان کو بھی جب بی جے پی پارلیمانی پارٹی کا سربراہ چنا گیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ڈیوڈ کیمرون جب پارلیمنٹ سے رخصت ہونے لگے تو آبدیدہ ہوگئے ۔ ہمارے وزیراعظم رحیم یار خان میں غریبوں اور بے سہارا لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے بھی اپنے جذبات کا اظہار کر بیٹھے جس پر میڈیا اور مخالف سیاسی پارٹیوں نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا اور پی ٹی آئی چیرمین نے موقع گنوائے بغیر کہا کہ یہ غریبوں کے لیے نہیں پانامہ میں پکڑے جانے کے آنسو ہیں۔ پچھلے دور حکومت میں ہماری ایک خاتوں وزیر بھی کابینہ میٹنگ کے دوران ہچکیاں لے کر روتے دھوتے دکھائی گئیں کیونکہ انھیں محسوس ہو رہا تھا کہ ان کو وزیر کی حیثیت سے اتھارٹی نہیں دی جا رہی۔
ہمارے وزیراعظم واقعی غریبوں کا درد محسوس کر کے آبدیدہ ہوئے تو یقیناًایک اچھی بات ہے ۔ موقع کی مناسبت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ غریبوں اور بے سہارا لوگوں میں صحت کا رڈ تقسیم کر رہے تھے اور ان کا ذکر کرتے ہوئے آنسو بہا دیئے ۔ یہ صحت کارڈ اس سے پہلے وہ اسلام آباد اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں بھی تقسیم کر چکے ہیں۔ وزیراعظم صحت پروگرام کا بنیادی مقصد ان غرباء اور مسکین لوگوں

کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے جو غربت کے باعث اپنی بیماری کاعلاج کرانے سے قاصر ہیں خاض طورپر دل، گردے جیسی بیماریوں کا علاج جو غریب لوگوں کی پہنچ سے بہت دور ہے اب ان کی دسترس میں ہوگا۔ اس صحت پروگرام کی خاص باتیں یہ ہیں کہ جس شخص کے پاس صحت کارڈ ہوگا وہ با آسانی پرائیوٹ ہسپتال میں اپنا علاج معالجہ کروا سکتا ہے۔اس کارڈ میں عام بیماریوں کے لیے 50000اورمہلک بیماریوں کے لیے 300000روپے کی حد رکھی گئی ہے اور بصورت مزید رقم کے باقی علاج کا خرچہ بیت المال سے کیا جائے گا۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس سہولت کی بدولت سرکاری ہسپتالوں میں پریشر کم ہونے کی وجہ سے وہاں پر بھی سہولیات کو بہتر کرنے کا موقع ملے گااور یہ کارڈ ان تمام لوگوں میں تقسیم کیے جائیں گے جن کی یومیہ آمدنی 200روپے سے بھی کم ہے۔ باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس صحت پروگرام کے بہت سے اور بھی فوائد ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس رقم میں ٹرانسپورٹ الاؤ نس بھی رکھا گیا ہے کیونکہ بہت سے لوگ سواری نہ ہونے کی بدولت بروقت ہسپتال نہیں پہنچ سکتے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صحت سکیم پاکستان میں صحت کی سہولیات کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کرئے گی۔ پاکستان صرف دنیا ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں صحت ، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے اس ملک میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جن کے پاؤں میں جوتا نہیں، بدن پر کپڑا نہیں، کھانے کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ صحت ،تعلیم اور روزگار کی سہولتیں تو بہت دور کی باتیں ہیں۔معاشرتی ،معاشی اور سیاسی اقدار تباہی کے دہانے پر ہیں۔ ان حالات میں ایسے پروگرام جو غریبوں کے لیے شروع کیے جاتے ہیں قابل تحسین ہیں۔ موجودہ حکومت کو سڑکوں ، موٹرویز کی تعمیر اور میٹروبس جیسے منصوبوں پر کڑی تنقید کانشانہ بنایا جاتا ہے لیکن جب ان لوگوں سے حالات معلوم کیے جائیں جو ان سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ کسی بھی ملک کی

ترقی میں ذرائع آمدورفت انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ صرف دیہاتوں میں ہی نہیں شہروں میں بھی اجناس کی منتقلی، روزگار کے لیے نکلنے والے لوگوں اور منڈیوں تک رسائی سب کاموں کے لیے ذرائع آمدورفت کی اہمیت سے انکار نہیں ،دنیا میں جتنے بھی معاشی انقلاف آئے ان میں سب سے اہم کردار زرائع آمدورفت نے ادا کیا ۔ 1760 میں جب برطانیہ میں صنعتی انقلاب آیا جو سہولیات کے بغیر ناممکن تھا۔ آج بھی کسی بھی سطح پر ترقی کرنے کے لیے جب تک ذرائع آمدورفت بہتر نہ ہوں معاشی اور سماجی ترقی ممکن نہیں۔
آج ہمارا ملک تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑا ہے اس وقت ملک کو صرف بیرونی ہی نہیں بلکہ اندرونی دشمنوں کا بھی سامنا ہے۔ حقیقت میں یہ بیرونی دشمن ہی کی چالیں ہیں کہ ہمارے ملک میں اندرونی دشمن کا روپ دھارے ہوئے ہیں ۔ جو پاکستان کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے لے جانا ہی اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں ان ملک دشمن طاقتوں کو پہچاننا انتہائی ناگزیر ہے کیونکہ یہ دشمن ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے اور اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں ایسی ہی ایک تدبیر پی ٹی آئی کی جانب سے بھی کی جارہی ہے۔ کاروبار حکومت کو بند کر انقلاب لانے کے چکر میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہچایا جارہا ہے۔
اختلاف رائے اور تنقید جمہوری عمل کا حصہ ہیں لیکن کاروبار حکومت کو بند کرنا اور عام شہریوں کی زندگی کو مزید مشکلات سے دوچار کرنا انتہائی غیر دانشمندی ہے۔ بات تو اتنی ہے کہ چیرمین پی ٹی آئی یہ بتا دیں کہ وہ خیبر پختونخواہ میں انسانی یا ملکی ترقی کے کتنے منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے آبدیدہ ہوئے۔وزیراعظم کی طرح عوامی تقریب میں آبدیدہ ہونے کے لیے باقی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو بھی عوامی ترقی کے منصوبوں کا آغاز کرنا ہوگا۔