منتخب کردہ کالم

بات کرنی مجھے مشکل کبھی … ظفر محمود

بات کرنی مجھے مشکل کبھی … ظفر محمود

کالم کا عنوان مغلیہ سلطنت کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر کی غزل کے مطلع سے لیا گیا ہے۔ یہ غزل اظہارِ رائے میں مشکل اور بدلے ہوئے حالات کا شاعرانہ نوحہ ہے۔ اِسے مہدی حسن نے اپنی خوبصورت آواز دی۔ شعروموسیقی کے چاہنے والے اس لاجواب غزل کو یو ٹیوب پر سن سکتے ہیں۔
ایک اچھے سماج میں برداشت اور رواداری کا فروغ، معاشرتی ترقی کا معیار ہوتا ہے۔ ہمارے رویوں میں عدم برداشت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ لڑکپن کا زمانہ تھا جب 1970ء کی الیکشن مہم شروع ہوئی۔ بھٹو صاحب نے اسلام اور سوشلزم کو یکجا کرکے ایک نئی ترکیب اسلامک سوشلزم ایجاد کی۔ اُن کے مطابق سوشلزم کا نظامِ معیشت اسلامی مساوات کے نظریئے کا عکاس تھا۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے ہم اِس نئی ترکیب پر غور کرتے ہوئے ساتھی طالب علموں کے ساتھ مباحثے کرتے۔ اُن دنوں اخبار میں ایک جید عالمِ دین کا بیان پڑھا کہ پاکستان میں جو سوشلزم کا نام لے گا اس کی زبان گُدی سے کھینچ لی جائے گی۔ ہم دین سمجھنے کے لئے اُن کی آسان فہم اور دل میں اُتر جانے والی تحریروں سے استفادہ کرتے تھے۔ یہ بیان اُن کی شخصیت اور افکار سے میل نہیں کھاتا تھا۔ پہلی دفعہ یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ سیاست کے کارزار اور پانی پت کے میدان میں کوئی خاص فرق نہیں۔
سرکاری ملازمت کا سفر شروع ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے۔ اکتالیس سال کے دوران بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اُن دنوں گنتی کے اخبار آزاد اور باقی سرکاری ٹرسٹ کے زیرِ سایہ تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن مکمل طور پر حکومت کی نمائندگی کرتا تھا۔ نہ موبائل فون تھا اور نہ انٹرنیٹ۔ اخبارات کو ایڈوائس جاری ہوتی تھی، اشتہارات بند کر دیئے جاتے تھے۔ آزاد منش صحافی اپنے قلم سے بمشکل جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھتے۔ عام شہری کو معلومات تک رسائی مشکل سے ملتی تھی۔
اکتالیس سال حکومت کا کارندہ رہنے کے دوران سیاست اور صحافت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ مارشل لا کے ادوار بھی دیکھے اور مذہب کے نام پر ریاکاری کی پرورش بھی۔ تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے دورِ حکومت میں ریشہ دوانیاں نظر آئیں۔ دو مارشل لا ادوار میں ارباب اقتدار کی سیاسی انجینئرنگ اور طرز حکمرانی کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ سرکاری پابندیوں کے احترام میں ہمیشہ کوشش کی کہ میرے کسی عمل سے حکومت کو شرمندگی نہ ہو۔ اُس کی بنائی ہوئی پالیسیوں پر نیک نیتی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے ضمیر زندہ رہا اور کبھی عہدوں کا اسیر نہ بنا۔ جب کبھی محسوس ہوا کہ آئینے میں اپنی شکل دیکھ نہ پائوں گا تو نہایت ادب سے معذرت کر لی۔
صرف ایک دفعہ پابندیوں کی زنجیر کو ازخود ڈھیلا کرتے ہوئے کالا باغ ڈیم کے بارے میں چھبیس اقساط پر مشتمل مضامین لکھے جو بیشتر قومی اخبارات میں شائع ہوئے۔ اِس جرأت رندانہ کے بعد ذاتی وجوہات کی بنا پر واپڈا کی تعیناتی سے مستعفی ہو گیا۔ اہلِ صحافت نے ذاتی وجوہات کو ہمیشہ دوسرے معنی پہنائے۔ نوائے وقت نے 24 جولائی، 2017ء کے اداریئے میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا:
”سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے گزشتہ سال کے آغاز میں کالا ڈیم کی افادیت اجاگر کرنے کے لئے قومی اخبارات میں اپنے مضامین کی سیریز شروع کی تو قومی اسمبلی کے قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ اُنہیں اور حکومت کو دھمکیاں دیتے نظر آئے؛ چنانچہ بلیک میلنگ کی سیاست میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے ظفر محمود کو قربانی کا بکرا بنا کر اُنہیں چیئرمین واپڈا کے منصب سے فارغ کر دیا۔‘‘
واپڈا کو خیر باد کہا تو کچھ صحافی دوستوں نے مشورہ دیا کہ مجھے اخبارات میں کالم لکھنے چاہئیں۔ اُن کا جواز تھا کہ وسیع تجربے سے میں سرکاری اسرارورموز کا بھید پا چکا ہوں۔ اِس علم کی روشنی میں سیاست دانوں کی طرزِ حکمرانی کا تجزیہ عوام کے سامنے لانا چاہئے۔ چونکہ میں ایک ناول اور افسانوں کے مجموعے کے علاوہ کالا باغ ڈیم بارے مضامین لکھ چکا تھا، اِس لئے حوصلہ دیا گیا کہ کالم لکھنا مشکل نہ ہو گا۔
قصہ مختصر مجھے کالم لکھتے چار ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران میڈیا میں ہونے والی تبدیلیاں زیادہ قریب سے نظر آئیں۔ سیاست میں گروہ بندی تو قدرتی عمل ہے۔ مگر حیرت اس بات پر ہے کہ ٹیلی وژن چینلز اور کچھ اخبارات بھی گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ کچھ ایک طرف ہیں اور کچھ دوسری طرف۔ اُن میں غیرجانبداری کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور جو غیر جانبداری کا بھرم رکھے ہوئے ہیں اُن کے اینکرز اور لکھاری گروہ بندی کا شکار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ بوجوہ، قلم کی سیاسی بالیدگی کا عمل پروان نہیں چڑھا۔ بحیثیت قوم ہمارے رویے جمہوری نہ بن سکے۔ لیڈروں میں جمہوری سوچ ہو تو اچھی حکمرانی کا مقابلہ جاری رہتا ہے۔ بدقسمتی سے کارکردگی کا تقابلی جائزہ بددیانتی کے الزامات کی دُھول کے پیچھے چھپ گیا ہے۔ الزامات کی نہ ختم ہونے والی بوچھاڑ میں رواداری اور برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ شعلے اگلتی زبانوں میں بدزبانی کا مقابلہ جاری ہے۔ قیادت کو وہی حواری عزیز ہے جو سیاسی مخالف کو سر بازار رُسوا کرے۔ جو ماضی میں اپنی بدزبانی کی بنا پر کسی لیڈر کو عزیز تھے، آج دوسرے کیمپ میں شامل ہو کر پرانے بہی خواہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دُشنام طرازی کا فن اپنی معراج پر اور اس کے حامل ٹیلی وژن سکرین پر اپنا اجارہ بنائے ہوئے ہیں۔ ایوانِ انصاف کے بیرونی میدان میں تہمتوں کا بازار سجا رہتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے نئے نواب مرغے لڑانے کے فن میں طاق ہو چکے ہیں۔
مجھے خوش گمانی ہے کہ وقت کے ساتھ پاکستان مسائل کی دلدل سے باہر نکلے گا۔ ادارے باہمی تصادم سے بالاتر ہو کر اپنے دائرہ اختیار میں مطمئن رہیں گے۔ میڈیا بھی فہم و فراست کی مزید منازل طے کرتے ہوئے رائے عامہ کی تشکیل میں مثبت کردار ادا کرے گا۔ تجزیہ کار اور اینکر پرسنز سیاست دانوں کی کارکردگی کو اچھی حکمرانی کے معیار پر پرکھیں گے۔ اس پیشے سے وابستہ افراد نے اپنی ذمہ داریاں اعلیٰ و ارفع روایات کے مطابق سرانجام دینا ہیں تو صحافت کے بنیادی اصولوں کو اپنانا ہو گا۔ صحافی اچھائی اور برائی کے فیصلے نہیں کرتا ۔ وہ کسی گروہ کا ترجمان نہیں ہوتا۔ حقائق کی ایماندارانہ کھوج کے ساتھ اس انداز میں بے لاگ تبصرہ کرتا ہے کہ نہ صرف قاری کی معلومات میں اضافہ ہو بلکہ اُسے اختلافی نقطۂ نظر دیکھ کر خود فیصلہ کرنے کے قابل بنایا جائے۔
ایک جمہوری ملک میں آئین کی تقدیس ضروری ہے۔ جمہوریت کی روح ہے کہ اچھی حکمرانی کا مقابلہ جاری رہے۔ الیکشن کے وقت عوام فیصلہ دیں کہ موجودہ حکومت کو دوبارہ حقِ حکمرانی ملنا چاہئے یا تبدیلی ضروری ہے۔ مگر پاکستان ایک عام ملک نہیں۔ ایک طبقہ مذہبی بنیادوں پر آئین کو تقدیس دینے پر تیار نہیں۔ بڑی نیک نیتی سے خلافت قائم کرنے کا خواب اُن کے ذہن پر حاوی رہتا ہے۔ دوسری مشکل ہمارے قومی مزاج میں شامل، بے صبری کا عنصر ہے۔ چند آنکھیں اُفق پر لگی رہتی ہیں کہ شاید گھوڑے پہ سوار صلاح الدین ایوبی اس ملک کا مسیحا بن کر آئے۔
آئین کے سماجی سمجھوتے میں تمام اداروں کے فرائض اور دائرہ کار متعین ہیں۔ حقِ حکمرانی چنائو میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت کو حاصل ہے۔ آئین کی روح کے مطابق یہ حق اور عوام کا حقِ احتساب، اُن کے پاس ہی رہنا چاہئے۔ آدھا ملک گنوانے کے بعد یہ ادراک ہونا چاہئے کہ ہم سب پاکستان کی کشتی میں سوار ہیں۔ نیک نیتی بھی آئین کی روح سے بغاوت کی اجازت نہیں دیتی۔ خود راستی کا جذبہ بے لگام ہو جائے تو سفینے ڈول جاتے ہیں۔ اس بارے میں ہر پاکستانی کو ایک حساس رویہ اپنانا چاہئے۔ صحافتی ادارے ایک آزاد اور صحت مند معاشرے میں عوام کی آنکھ اور زبان ہیں۔ خوف کی فضا میں صرف مصلحت کوشی فروغ پاتی ہے۔ ان حالات میں یہ شعر بار بار یاد آتا ہے:
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

اگلا کالم روف کلاسرا