منتخب کردہ کالم

باجوہ ڈاکٹرائن…نذیر ناجی

عدم فراہمی کا بل

باجوہ ڈاکٹرائن…نذیر ناجی

پاک فوج کے سربراہ‘ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز سعودی ولی عہد‘ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ موجودہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد آرمی چیف دوسری مرتبہ سعودی عرب گئے۔ جمعرات کو سعودی ولی عہد‘ محمد بن سلما ن نے آرمی چیف ‘ جنرل باجوہ کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاملات پر تفصیلی بات چیت کی۔ ملاقات میں سعودی کونسل آف منسٹرزبھی شامل تھے۔ پاک فوج کی کمانڈ سنبھالنے کے بعد‘ آرمی چیف کے سامنے ایک مشکل صورت حال تھی۔ ان کے پیش رو کو بے پناہ عوامی مقبولیت حاصل تھی کیونکہ انہوں نے شہریوں پر انتہاپسندوں کے حملوں کے علاوہ‘ سیاسی بدعنوانی اور بھتہ خوری کے خلاف کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ ایک خدشہ موجود تھا کہ نئے آرمی چیف کو ایسی فعالیت دکھانے اور حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت کوشش کرنا پڑے گی، لیکن آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد‘ جنرل قمر جاوید باجوہ نے‘ تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ کردیا۔ پاکستان میں آرمی چیف کا عہدہ سب سے طاقتور منصب سمجھا جاتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو کمان سنبھالے ابھی ایک سال ہوا ہے اور ملک میں ”باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں نئے آرمی چیف کے تصور کی جھلک نمایاں دکھائی دے رہی ہے۔ جنرل باجوہ کا عہد درحقیقت سیاسی بھونچال کا زمانہ ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سیاسی افراتفری کوئی نئی بات نہیں لیکن موجودہ وقت انتہائی غیر معمولی ہے۔ جنرل باجوہ کو نواز شریف نے آرمی چیف منتخب کیا تھا۔ اس چنائو کی وجہ‘ جنرل صاحب کی جمہوری نظام کی حمایت اور عوام کے ساتھ دوستانہ روابط ہیں۔امریکی انتظامیہ نے پاکستان کو ملنے والی سکیورٹی امداد معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے واشنگٹن کی گہری ہوتی ہوئی مایوسی اور بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والی 1.3 بلین ڈالر کی سالانہ امداد معطل ہو گئی۔ اس سے تین روز پہلے صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ”پاکستان نے ہمیں دھوکے اورجھوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا‘‘۔ امریکی صدر نے الزام لگایا کہ پاکستانی سرزمین پر ٹھکانے رکھنے والے انتہا پسند‘ افغانستان میں تخریب کاری کرتے ہیں۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق‘ جنرل باجوہ کی امریکی جنرلز اور حکومتی افسران سے گفتگو ہوئی۔ امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ‘ جنرل جوزف ووٹیل کے ساتھ بات چیت کے دوران‘ جنرل باجوہ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کو ملک میں ”دھوکے کا احساس‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ”اتحادی تعلقات تاریخ میں عروج و زوال کا شکار رہے ہیں‘‘۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلان کے بعد‘ جنرل باجوہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان‘ امریکہ سے امداد‘ دوبارہ جاری کرنے کا مطالبہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اس امداد کا محتاج ہے۔ گزشتہ سال انہوں نے چین‘ ایران‘ قطر‘ روس اور سعودی عرب کے دورے کیے اور ان ممالک کے ساتھ روابط بڑھانے کی کوشش کی ہے تاکہ پاکستان کا امریکہ پر انحصار کم ہو سکے۔
سابق وزیرا عظم نواز شریف اپنی گاڑی سے ہاتھ ہلا کر سپورٹر ز کے نعروں کا جواب دے رہے تھے۔ اپنا آفس چھوڑ دینے کے بعد وہ عوامی ریلیوں میں ہجوم کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ کبھی ڈھکے چھپے اور کبھی تھوڑے عیاں‘ حوالہ جات کی مدد سے وہ‘ عدلیہ اور فوج کو انہیں گھر بھیجنے کی سازش ترتیب دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ پاکستانی فوج کے تناظر میں‘ جنرل باجوہ اور ان کے پیش رو جنرل راحیل شریف‘ دہشت گردوں کے خلاف کی گئی ان کامیابیوں کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں جنہوں نے ملک کی سول آبادی کو نشانہ بنایا اور فوج کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ جنرل آصف غفور کے مطابق ‘جنرل راحیل شریف نے اپنے دور میں ”شمال مغربی پاکستان سے دہشت گردوں کے مضبوط قدم اکھاڑ ڈالے اور ”جنرل باجوہ اسے آگے بڑھاتے ہوئے امن اور استحکام کو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ جنرل باجوہ پاک افغان بارڈر پر 1685میل لمبی باڑ لگوانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ سرحد پار سے دہشت گردوں کی کارروائیاں روکی جا سکیں۔ جنرل باجوہ اس کے علاوہ‘ افغان مہاجرین کے روپ میں پناہ لیے ہو ئے دہشت گردوں کو‘ پکڑنے کے لیے افغانوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ ”پاکستان‘ افغانستان میں امن کے قیام کا عزم کئے ہوئے ہے اور امریکہ کے تحفظات کو سمجھتا ہے‘‘۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ انہی پالیسیوں پر قدم بڑھا رہے ہیں‘ جن کے ذریعے ملک میں فوج کا اثر ورسوخ حد سے بڑھ چکا ہے۔ اپنے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد ‘ میاں نواز شریف سیاسی محاذ پر جارحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے عوامی ریلیوں میں خاصا ہجوم اکٹھا کرکے‘ عدلیہ اور فوج پر اپنے خلاف سازش کا جال بننے کے ڈھکے چھپے اور بعض واضح الزامات لگائے ہیں۔
فوج نے سابق وزیر اعظم‘ نوازشریف کو ہٹائے جانے کے الزامات کی تردید کی ہے مگر سیاست میں ملٹری ایجنسیوں کی دخل اندازی کے الزام ابھی تک جاری ہیں۔حال ہی میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے‘ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کو عہدہ چھوڑنے پر مجبور کرنے والے مخالفین کی پشت پناہی کا الزام‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں پر لگایا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے اند ر یہ شبہات پائے جاتے ہیں کہ پاک فوج آئندہ الیکشن میں شفاف ماحول فراہم نہیں کرے گی جو محض چند ماہ کی دوری پر ہیں۔ جنرل آصف غفور نے الیکشن میںکسی تاخیر کے خدشات کو دور کرتے ہوئے کہا کہ ”جمہوریت ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ الیکشن اپنے وقت پر ہونے چاہئیں‘‘۔ اپوزیشن رہنما اور نواز شریف کے سب سے بڑے مخالف ‘عمران خان نے جنرل باجوہ کے اقدامات کی کھل کر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ”میں جنرل راحیل سے بھی زیادہ جنرل باجوہ کے اقدامات کی قد ر کرتا ہوں۔ کسی آرمی چیف نے اس قدر کھل کر کبھی جمہوریت کی حمایت نہیں کی‘‘۔