منتخب کردہ کالم

بادشاہ ننگا ہے .. کالم بریگیڈئیر صولت رضا

بادشاہ ننگا ہے .. کالم بریگیڈئیر صولت رضا

یاد نہیں یہ کہانی کب اور کہاں پڑھی تھی۔کہانی ایک تھا بادشاہ سے شروع ہوتی ہے۔ بادشاہ کو سیر و تفریح اور نت نئے لباس پہنے کا بہت شوق تھا۔ اُ س کے قریبی مشیر دلآویز لباس تیار کرنے والوں کی تلاش میں سرگرم رہتے تھے۔ ایک روز چند مشیروں نے طے کیا کہ آج بادشاہ کو لباس پہنائے بغیرــ”زیب تن ‘‘ کیا جائے۔ وہ تمام ایسی حرکات کرتے رہے جس سے بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ اُسے لباس پہنا دیا گیاہے۔ مشیر تیز طرار تھے۔ اُنہوں نے عریاں بادشاہ کو یقین دلایا کہ اُس نے آج دنیا کا سب سے عجیب و غریب لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔ عریاں بادشاہ رعایا کے سامنے سے گزرا تو لوگ خوف سے نگاہیں نیچے کئے کھڑے تھے۔ البتہ ایک بچہ جو کسی شخص کے کندھے پر سوار تھا زور سے چلایا”بادشاہ ننگا ہے‘‘۔ ”بادشاہ ننگا ہے‘‘ ۔ یہ آواز سنتے ہی ننگ دھڑنگ بادشاہ کے اوسان بحال ہوئے او ر وہ اپنے مشیروں کو بُرابھلا کہتا ہوا شاہی محل کی جانب بھاگ نکلا۔
یہ کہانی مجھے سپریم کورٹ کی مقرر کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) کی رپورٹ افشا ہونے کے بعد یاد آئی ۔ وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے قریبی رشتہ داروں کے کاروباری معاملات سے متعلق جو حقائق منظر ِ عام پر آئے ہیں ۔ وہ ہر لحاظ سے قابل ِ تشویش اور مایوس کن ہیں ۔ شریف خاندان کے بیک وقت سیاسی اور کاروباری عروج کا عینی شاہد ہونے کے باعث مجھے ذاتی طور پر بھی دکھ ہے۔ مزید یہ کہ جے آئی ٹی رپورٹ سے منسوب کہانیاں اور خبریں پرنٹ، الیکڑانک اور سوشل میڈیا پر نمایاں ہو رہی ہیں ‘ وہ ہر لحاظ سے پریشان کن ، تکالیف دہ اور ”پڑھتا جا شرماتا جا ‘‘ ٹائپ کی دستاویزات پر مبنی ہیں ۔ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کی ”مبینہ کرپشن ‘‘ کے حوالے سے دن رات ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ یہ منظر نامہ کسی لحاظ سے خوش کن نہیں ہے۔ وزیر اعظم اور اُن کے ہمنوا محض سازش کہہ کر اُسے نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں ۔ ن لیگ کے ترجمان غیر سیاسی سازش کو پاناما کیس کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ کئی وزراء متعدد بار اعلان کر چکے ہیں کہ وزیر اعظم کے خلاف پراپیگنڈا بند نہ کیا گیا تو وہ راز سے پردہ اُٹھا دیں گے۔ میاں نواز شریف صاحب نے بھی انتباہ کیا ہے کہ وہ اپنے سینے میں پوشیدہ راز اُگل دیں گے۔ سیاست میں سازش ، رازاور خفیہ معاملات پر عوام کو بہلانے کی کوشش ماضی کا حصہ بھی رہی ہے۔ خاص طور سے اپنے زمانے کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹونے جب صدر ایوب خان کی حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو اُنہوں نے 1966ء میں معاہدہ تاشقند کے خفیہ راز کو حکومت مخالف مہم کا حصہ بنایا۔
بھٹو صاحب کے دور ِ حکومت میں بھی حزب مخالف پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے پر سازش کے الزامات لگائے۔ قصہ مختصر ! یہ کوئی نئی بات نہیں کہ حکومت وقت پر جونہی جواب طلبی کے لیے دبائو بڑھتا ہے تو وہ جمہوریت کا علم بلند کر کے سازش کا واویلا شروع کر دیتی ہے۔ بدقسمتی سے نواز شریف نے اپنے دور میں ہمیشہ جماعتی سیاست اور وفاق کی اہمیت کو نظر انداز کیا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے تناظر میں کثیر الجماعتی سیاست اور جمہوری وفاق کو اپنے غیر سیاسی اقدامات کے باعث شدیدنقصان پہنچایا۔ موصوف نے ہمیشہ پارلیمنٹ اور برسرِاقتدار سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کو فاصلے پر رکھا۔ وزیر اعظم مہینوں قومی اسمبلی میں تشریف نہیں لاتے رہے۔ ایوان بالا کے ارکان آہ و بکا کرکے تھک گئے۔ نواز شریف نے پاکستان کے ”مہاصوبے‘‘ پنجاب کی بے رحم عددی اکثریت پر انحصار کرتے ہوئے دیگر تین صوبے سیاسی لحاظ سے ”آئوٹ سورس‘‘ کر دیئے ہیں ۔ بد قسمتی سے ان صوبوں سے تعلق رکھنے والے بعض ایسے سیاستدان وزیر اعظم کے بے حد قریب ہیں ۔ جن کے آبائو اجداد تحریک ِ پاکستان کے بدترین مخالف تھے۔ آج بھی اُن کا انداز سیاست ” وفاقی ‘‘ نہیں ہے۔ وہ لسانی ،
علاقائی اور فقہی سیاست کے علمبردار ہیں ۔ علاقائی سوچ کے حامل یہ سیاست کار نواز شریف کے ایک قومی قائد کی حیثیت سے پیش قدمی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ نواز شریف نے اپنی جماعت مسلم لیگ نواز کو چھوٹے صوبوں میں پنجاب کی مانند فعال نہیں رکھا۔ سیاسی لحاظ سے یہ غیر اخلاقی سوچ وفاق کے لیے تشویشناک مسائل پیدا کر رہی ہے۔ بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختون خوا میں پاک فوج ، رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے ‘ امن و امان بحال کرنے میں دن رات مصروف ہیں ۔ لیکن سیاسی کاوش خال خال دکھائی دیتی ہے۔ وفاق کی فورسز قربانیاں دے رہی ہیں لیکن وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت کا سربراہ کسی قسم کے ٹھوس اقدامات کرنے سے عاجز دکھائی دیتے ہیں ۔ کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں چند گھنٹے قیام کرنے سے معاملات درست نہیں ہوسکتے ہیں ۔
معلوم نہیں عام انتخابات سے دو برس قبل نواز شریف نے ٹھوس اقدامات کے لئے کیا منصوبہ بندی کی تھی کہ پاناما لیکس بلائے ناگہانی کی صورت میں نازل ہو گئیں ۔ ایک وزیر اعظم کیا سارا خاندان ہی لپیٹ میں آگیاہے۔ میڈیا نے اس قدر شور مچایا ہے کہ پورا ملک ہی بے یقینی کی کیفیت میں ہے۔ شریف خاندان اور ان کے حمایتی وزراء کے بدلتے بیانات اور نوکدار گفتگو نے پاناما کے شعلے پر پانی پھینکنے کے بجائے بھڑکانے کی جستجو کی ہے۔ اپوزیشن کاکام الائو بڑھکانا ہے۔ میاں نواز شریف بھی حزب ِ اختلاف کے قائد کی حیثیت سے اکثر خوب گرجتے برستے تھے اور اپنے حامیوں کا خون گرمایا کرتے تھے۔ پاناما لیکس میں ن لیگ کو گیم سلو رکھنی چاہیے تھی۔ شاید یہ کسی پلاننگ کے بغیر بے خطر پاناما جھیل میں کود گئے۔ جو ہر لحاظ سے آلودہ اور غلاظت سے بھرپور ہے۔
بات بادشاہ سلامت کے لباس سے شروع ہوئی تھی ۔ میرا خیال ہے کہ صدیوں پرانی کہاوت میں سب کے لیے اسباق پوشیدہ ہیں ۔ میاں نواز شریف ماشااللہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہیں ۔ اُنہیں مدبر سیاستدانوں کے طور پر بلند ہونا چاہیے ۔ یہ مرتبہ کرسی سے چمٹ کر حاصل نہیں ہو سکتا۔ الزامات صیحح ہیں یا غلط ، مفروضے ہیں یا حقائق ، سچ کے لیے عوام وزیر اعظم کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اُن کے رفقاء ، وزراء اور دیگر گردشی چہرے جن کا سیاسی حال اور مستقبل آپ سے وابستہ ہے آپ کو ڈٹ جانے کے ”ہولناک‘‘ مشورے دے رہے ہیں ۔ یہ تماشہ اب وزیر اعظم ہی ختم کر سکتے ہیں ۔ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ” اوپن ہائوس‘‘ اجتماع کی صورت میں ہونا چاہیے جس میں ممبران کو دل کی بات کہنے کی اجازت دی جائے ۔ یہ مسلسل تالیاں پیٹنے کے مناظر وزیر اعظم کے حق میں نہیں ہیں ۔ کیونکہ تالیاں بجانے اور نعرہ لگانے والے ممبران کے چہرے ، الفاظ اور حرکات مختلف سمتوں میں دکھائی دے رہے ہیں ۔ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔ انہیں نیا قائد ایوان منتخب کر کے جمہوریت کوتوانائی عطا کرنی چاہیے ۔ جمہوریت میں بلند و بالا سیاسی عہدوں پر فائز قائدین ہی ممتاز نہیں ہوتے ، عہدے چھوڑنے والے بھی جمہوری تاریخ کے روشن باب بن جاتے ہیں ۔ زمانہ اُ نہیں صدیوں یاد رکھتا ہے۔ نواز شریف صاحب کے پاس فیصلے کی گھڑی ہے ۔ یہ ترک حکمرانوں کی کاپی کرتے ہوئے بالواسطہ ”سازش‘‘ کا سین ٹیک اور ری ٹیک کرنے کی کوشش سے احتراز کریں ۔ انجام تاریخی رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
سیاسی ترجیحات اور خاندان کی کاروباری مصلحتیں نظر انداز کریں ۔ اخلاق کا زرق برق لبادہ زیب تن کریں ۔ دست بستہ رعایا آپ کی منتظر ہے ۔ وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور اپنے کسی وفادار کو یہ عہدہ سونپ کر عدالتوں کا سامنا کریں ۔ بصورتِ دیگر ” ایک تھا بادشاہ ‘‘ والی کہانی مسلسل دہرائی جائے گی۔

شام کی سرحد سے .. کالم جاوید چوہدری