بادشاہ کا انجام!….رؤف کلاسرا
نواز شریف کا دور آخرکار ختم ہوا۔
سب نے ایک دن ختم ہو جانا ہے‘ صرف خدا کی ذات باقی رہے گی۔
صدیوں پرانی دلی کی کہانی پڑھیں تو انسان دنیا سے اتنا بے نیاز ہو جائے کہ انسانی آبادی چھوڑ کر جنگل میں جا بسے۔ کتنے بادشاہوں نے دلی پر گردن اکڑا کر حکومت کی‘ آج ان کی قبروں کے نشان تک نہیں ملتے۔ جب ابراہم ارلی کی تختِ دہلی کے سلطانوں پر شاندار کتاب The Age of Wrath پڑھی تو علم ہوا کہ کسی بادشاہ میں یہ احساس نہیں تھا کہ وہ ایک دن نہیں رہے گا‘ چاہے وہ چند برس ہی اقتدار پر کیوں نہ قابض رہا ہو۔ کل 33 مسلمان بادشاہوں نے سلطنتِ دلی پر حکومت کی‘ جن میں خاندان غلاماں سے لے کر تغلق، خلجی، سید اور لودھی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بادشاہ بھی شامل تھے۔ ابراہیم لودھی کو بابر نے پانی پت میں شکست دے کر دلی پر قبضہ کیا۔ ان تینتیس بادشاہوں میں سے صرف تین بادشاہ ایسے تھے جن کے دل میں خدا کا خوف تھا۔ جو انسانوں کو لہولہان کرنے سے زیادہ انسانوں سے محبت کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ باقی نے انسانوں کا لہو ایسے بہایا کہ جیسے ان کی سلطنت کا سورج کبھی غروب نہیں ہو گا۔
اپنے جیسے انسانوں پر حکومت کرنے کا نشہ دنیا کے کسی بھی نشہ سے بڑا ہوتا ہے۔ اس نشہ کو پورا کرنے کے لیے انسان ایک دوسرے کا لہو بہاتے آئے ہیں۔ علائو الدین خلجی نے اپنے چچا اور سسر جلال الدین خلجی کو قتل کر دیا تو اورنگزیب نے اپنے باپ شاہ جہاں کو قید کرنے کے بعد اپنے بھائی‘ شجاع ، مراد اور دارا شکوہ قتل کرائے اور بھتیجوں کو بھی مروا ڈالا۔ خوشونت سنگھ اپنے ناول ”دلی‘‘ میں لکھتا ہے کہ اس رات دلی کے کسی گھر میں چولہا نہیں جلا تھا جب دارا شکوہ کے خوبصورت بیٹے کو زنجیروں میں باندھ کر شہر لایا گیا۔ پورا شہر اس خوبصورت نوجوان کی ایک جھلک دیکھنے نکل آیا تھا۔ سب نے منتیں کیں لیکن اورنگزیب نہ مانا۔ بولا: میرے بھتیجے کی ظاہری خوبصورتی پر نہ جائیں اس کا وہی حال ہے جیسے ایک سانپ کی خوبصورت جلد کے اندر انتہائی مہلک زہر ہوتا ہے۔ مغل اس معاملے میں بہت ظالم تھے۔ اکبر بادشاہ کا لاڈلا اور اکلوتا بیٹا شہزادہ سلیم یا جہانگیر یاد آتا ہے‘ جس نے اپنے بیٹے کو بغاوت پر قتل کرا دیا تھا۔ بیٹے نے قدموں میں گر کر کہا تھا: ابا حضور! آپ نے بھی تو دادا حضور‘ اکبر بادشاہ کے خلاف بغاوت کی تھی، دادا حضور نے تو آپ کو معاف کردیا تھا ۔ آپ مجھے معاف کر دیں۔ جہانگیر بولا: برخوردار! آج اس تخت پر بیٹھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ تمہارے دادا نے مجھے معاف کر کے غلط کیا تھا۔ باغی کو سزائے موت دی جاتی ہے‘ چاہے بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ پھر اس نے جلاد کو اشارہ کیا کہ میرے بیٹے کی گردن اڑا دو۔
ان مغلوں کا جو حشر ہوا سب کے سامنے ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے آخری دنوں کی کہانی پڑھیں تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ مغلوں میں اگر کوئی خوبصورت انسانی دل لے کر پیدا ہوا تھا تو وہ بہادر شاہ ظفر تھا۔ ایک رحم دل، خوبصورت دل کا مالک اور شاعر آدمی‘ کہاں پھنس گیا تھا۔ ایک عوامی بادشاہ۔ ایک دن شہر میں فرنگی نے حکم دیا کہ شہر سے تمام گوالے اپنی بھینسیں اور جانور لے کر دلی سے باہر چلیں جائیں اور باہر اپنا ٹھکانہ بنائیں۔ انگریز اپنے تئیں شہر کا ماحول صاف رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن ہندوستانیوںکے نزدیک صفائی اتنا اہم ایشو نہیں تھا جس کے لیے جانور شہر سے باہر شفٹ کر دیئے جائیں۔ کچھ دن بعد سب گوالے بادشاہ کے محل کے سامنے احتجاج کرنے آ گئے۔ بہادر شاہ ظفر کو بتایا گیا کہ گوالے ہیں‘ سب کو شہر سے باہر نکلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بادشاہ نے کہا: جہاں عوام ہو گی‘ وہیں ان کا بادشاہ رہے گا۔ بہادر شاہ ظفر نے تیاری باندھ لی کہ وہ بھی ان گوالوں کے ساتھ شہر سے باہر جا کر رہیں گے۔ جونہی انگریز بہادر کو اطلاع ملی تو وہ دوڑے دوڑے گئے اور کہا: حضور یہ کیا ظلم کر رہے ہیں۔ بادشاہ نے کہا: جب تک گوالوں کی بھینسیں واپس نہیں جائیں گی‘ وہ شہر کے اندر نہیں جائیں گے۔ فوراً عمل ہوا اور گوالوں کو بھینسوں سمیت واپس شہر میں بلایا گیا، پھر ہی بہادر شاہ ظفر آرام سے بیٹھے۔
کبھی سوچتا ہوں کہ آج کا دور اچھا ہے یا وہ دور اچھا تھا کہ جب بادشاہ حکومت کرتے تھے۔ کیا جمہوریت اور قانون نے ہمیں بہتر اور مہذب انسان بنایا ہے یا پھر ہم پہلے سے زیادہ خراب ہوئے ہیں؟ پرانے زمانوں میں صرف ایک بادشاہ تھا اور اب جدید جمہوریت نے سینکڑوں بادشاہ پیدا کر دیئے ہیں۔ بادشاہ جب اقتدار سے رخصت ہوتے تو درباریوں کے سر بھی کاٹ کر شہر کی فصیلوں پر لٹکا دیئے جاتے تھے۔ علائو الدین خلجی کے بارے میں تو مشہور تھا کہ وہ ملزمان کو سزا دے کر بس نہیں کرتا بلکہ ان کے بچوں اور بیوی کو بھی قتل کرا دیتا تھا۔
اگر ہمارے آج کے حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہیں‘ جن سے کوئی جواب طلبی نہیں ہو سکتی تو پھر وہ ذرا ہندوستان کی تاریخ پڑھ لیں کہ جب اقتدار ڈوبنے کا وقت آتا تھا تو بادشاہوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا۔ یورپ میں بھی بادشاہ ظلم کرتے۔ جب بغاوت ہوتی تھی تو ان کے اپنے خاندان بھی قتل کر دیئے جاتے‘ یہی کچھ ہندوستان میں ہوتا رہا۔ بادشاہ سے زیادہ ان کی اولادوں نے بھگتا۔
اللہ بھلا کرے‘ یورپ میں جبRenaissance شروع ہوئی اور انسانوں نے ایک مہذب دنیا کی طرف سفر شروع کیا تو بادشاہوں سے سوال کرنا شروع کر دیا۔ پوپ کی اتھارٹی بھی چیلنج ہو گئی۔ انسان نے بادشاہ کا وہ اعزاز ماننے سے انکار کر دیا کہ بادشاہ غلطی نہیں کر سکتا لہٰذا ا س کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔ جوں جوں انسانی ذہن اور تہذیب نے ترقی کی، انسان اپنے جیسے انسانوں کی حکمرانی سے بیزار ہوتا گیا اور آخرکار جمہوریت نے جنم لیا۔ اس جمہوریت کے تحت قانون کے سامنے سب برابر تھے۔ جو جتنے بڑے عہدے پر تھا‘ وہ زیادہ ذمہ دار قرار پایا۔ بادشاہ کا ایماندار ہونا لازم پایا۔ شیکسپیئر نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ بادشاہ تو چھوڑیں‘ ملکہ پر بھی شک نہیںہونا چاہیے کہ وہ کوئی غلط کام کر سکتی ہے۔ اب حکمرانوں کی غلطیوں اور کرپشن پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا تھا۔ یورپ نے اپنے حکمرانوں کی اخلاقیات کا ایک اعلیٰ معیار قائم کر دیا۔ یہ جمہوریت دھیرے دھیرے انگریز دنیا کے دیگر حصوں میں بھی لے کر گئے‘ جہاں انہوں نے ان علاقوں اور قوموں کو کالونی بنایا اور یوں ایک دن ہم سب نے دیکھا کہ یورپ میں لیڈروں کے لیے اہم ٹھہرا کہ وہ ایک عام شہری کی نسب بہتر اخلاقیات کا مظاہرہ کریں۔ وہ جھوٹ نہیں بولیں گے، وہ کرپشن نہیں کریں گے، وہ وائٹ ہائوس میں بھی رہتے ہوئے‘ اوباما کی طرح کچن کا سامان اور ٹوٹھ پیسٹ تک خود خریدیں گے یا اگر بل کلنٹن نے چھوٹا سا جھوٹ بھی بولا تو ان کا ٹرائل ہو گا۔
نواز شریف کے پاس بہت مواقع تھے جو انہوں نے ضائع کیے کہ وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ اور سب سے بڑھ کر وزیراعظم کے عہدے کو طاقتور کرتے۔ عدالتوں سے لے کر جے آئی ٹی کے افسران تک کے سامنے ذلیل نہ ہوتے۔ انہیں ایک فیصلہ کرنا تھا‘ جو وہ نہ کر سکے کیونکہ وہ اصلی جمہوریت پسند کبھی نہ تھے۔ ورنہ وہ بھی وہی روٹ لیتے جو ہر آنر ایبل‘ دنیا کے دیگر جمہوریت پسند اور مہذب ملکوں میں لیتا ہے۔ جب پاناما سکینڈل آیا تھا اور ان کے بچوں کے نام اس میں تھے‘ تو وہ مستعفی ہو کر تاریخ بنا سکتے تھے۔ جب سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی تو بھی وہ اپنے ماتحت افسران کے سامنے پیش ہونے کی بجائے مستعفی ہو سکتے تھے۔ جب پارلیمنٹ میں یہ معاملہ اٹھایا گیا تو وہ عدالت کی بجائے پارلیمنٹ کے آگے جھک جاتے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے لیکن نواز شریف بھی ہر حکمران کی طرح یہ سمجھتے رہے کہ وہ ناگزیر ہیں۔ وہ بادشاہ ہیں جن سے غلطی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی سزا مل سکتی ہے۔ قدرت نے بھلا کب بادشاہوں کو معاف کیا کہ وہ نواز شریف کو معاف کرتی؟ تاریخ بے چاری کو کیا الزام دیں‘ انسان ہی کب سیکھتے ہیں؟
نواز شریف کے اندر قدیم زمانوں کے کسی بادشاہ کی روح قید تھی۔ ایک ایسا بادشاہ جو غلطی کرتا ہے اور نہ ہی اسے سزا دی جا سکتی ہے۔ قانون، انصاف اور سزائیں صرف رعایا کے لیے ہوتی ہیں، بادشاہ کے لیے نہیں۔ نواز شریف سب فائدے بیسویں صدی کی جمہوریت سے اٹھا رہے تھے لیکن ذہنی طور پر‘ مزاجاً پانچ سو برس قبل کے زمانوں میں زندہ تھے کہ جب بادشاہ کا ٹرائل نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی اسے سزا مل سکتی تھی۔
پانچ سو سال قبل کے بادشاہوں کا مزاج لے کر پیدا ہونے والے حکمران کا بیسویں صدی میں یہی انجام ہونا تھا ،جو ہوا۔پھر یہ… ہنگامہ ہے کیوں برپا؟