منتخب کردہ کالم

بارہ سوالات … منیر احمد بلوچ

بارہ سوالات … منیر احمد بلوچ

ایوان اقبال لاہور میں ملک بھر سے آئے ہوئے وکلاء سے اپنے خصوصی خطاب میں میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر وہ اسی وقت اپنے عہدے سے ہٹ گئے۔وہ شائد یہ کہنا بھول گئے کہ یوسف رضا گیلانی اپنے خلاف کرپشن پر نہیں بلکہ توہینِ عدالت کے مقدمے کا فیصلہ آنے پر لمحے بھر میں گھر چلے گئے تھے۔ اپنے اس خطاب میںسابق وزیر اعظم نے سپریم کورٹ سے بارہ سوالات کیے ۔ اگر وہ اجا زت دیں توہم بھی کچھ پوچھ لیں؟ پہلا سوال یہ ہے کہ 1991 ء میں رائے ونڈ میں خریدی گئی ہزاروں کنال زمین کا انکم ٹیکس کے گواشواروں میں ذکر ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ اسی زمین ،جوبقول آپ کے ایک کروڑ تیس لاکھ روپے میں خریدی گئی تھی ،کی خریداری کے ذرائع آمدنی کا کہیں پر حوالہ تو ہو گا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اس چار سو ایک کنال زمین پر مشتمل تین گھروں اور ایک گیسٹ ہائوس کی تعمیر کا کسی نقشے یا انکم ٹیکس کے حوالے سے اندراج تو ہو گا ؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ ان میں سے ایک گھر کا تعمیر کردہ کل رقبہ57741 مربع فٹ ہے‘ جس پر اوسطاً لاگت فی مربع فٹ 2125 روپے کے حساب سے129 ملین کے قریب ادا کی گئی ۔کیا اس کا کہیں حوالہ موجود ہے؟۔ پانچواں سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جس نے اس ستاون ہزار مربع فٹ گھر کی تعمیر کی؟
چھٹا سوال یہ ہے کہ رائے ونڈ میںہی تعمیر کئے گئے دوسرے گھر کا کل رقبہ29100 مربع فٹ ہے‘ اس گھر کی تعمیر پر1700 روپے فی مربع فٹ کی لاگت آئی جو تقریباََ49 ملین روپے تھی۔ اس کا کہیں ،کسی بھی سرکاری کھاتے میں اندراج ہے؟۔ ساتواںسوال ہے کہ اس گھر کی تعمیر کس نے کی اور اس دوسری شخصیت کے گھر کے کچھ حصوں کی جو تکمیل1999ء میں کی گئی، اس کیلئے171 ملین روپے کی ادائیگیاں اسی مشہور شخصیت کو کیوںکی گئیں؟
آٹھواں سوال ہے کہ 401 کنال پر مشتمل چار دیواری کے اندر دو گھر اور ایک گیسٹ ہائوس اوسطاََ دس ہزار مربع فٹ رقبے پر 1997ء میں مکمل کئے گئے‘ سوائے ایک کے جس کی تکمیل دوسال بعد ہوئی‘ ان پر کل پندرہ ملین روپے لاگت آئی ان کا اندراج یا ذکر کسی جگہ موجود ہے؟۔ نواں سوال ہے کہ اس بائونڈری وال کے اندر سوئمنگ پول اور آبشاروں کے علا وہ ایک کلو میٹر پر ڈیری فارم اور اس ڈیری فارم کے گرد ایک کلو میٹر طویل دیوار اور پھر ایک کلو میٹر لمبی پختہ نہر تعمیر کی گئی جس پر ایک محتاط اندازے کے مطا بق اس وقت کے 56 ملین روپے خرچ ہوئے۔ان سب تعمیرات کی کل لاگت کا تخمینہ لگانے کیلئے ملک کی اس انتہائی اہم ترین شخصیت نے1999ء کے اوائل میں NESPAKکے تعمیرات کے شعبے سے منسلک افراد کی ایک ٹیم تشکیل دیتے ہوئے انہیں ہدایت کی ایک ماہ کے اندر اندر ان محلات پر کئے جانے والے تعمیراتی کاموں کے ٹھیک ٹھیک اخراجات کا اندازہ لگا کر بتایا جائے…ماہرین کی ٹیم نے رپورٹ دی کہ مذکورہ تعمیرات پر اس وقت کی مارکیٹ کرنسی کے مطا بق 247 ملین روپے اخراجات آئے…کیا اس کا کہیں پر حوالہ دکھایاجا سکتا ہے؟
دسواں سوال ہے کہ جب ملک کی اہم ترین شخصیت کا محل 1992ء میں تعمیر ہونا شروع ہوا، اس وقت انہوں نے اپنے اخراجات اور آمدنی کے گوشوارے دیتے ہوئے بتایا تھا کہ 1992تا42000 ان کی کل آمدنی2.42 ملین روپے یعنی کوئی پچیس لاکھ کے قریب تھی اور یہ وہ تفصیل تھی جو انہوں نے حکومت پاکستان کو انکم ٹیکس کی ادائیگی کے وقت سرکاری طور پر بتائی تھی اور رائے ونڈ کے ان تینوں محلات کے مالکان کی اس عرصے میں ظاہر کی گئی کل آمدنی41 ملین روپے تھی لیکن حکومت کو انکم ٹیکس میں پیش کیے جانیوالے آمدن کے گوشواروں اور اخراجات میں زمین و آسمان کا فرق ہے،بتایا گیا کہ ان اخراجات کیلئے اپنے دو بہت بڑے صنعتی یونٹوں سے قرض لیا گیا …گیارہواں سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر واقعی کسی بھی صنعتی یونٹ سے قرض لیا گیا تو پھر ان دونوں صنعتی یونٹوں کے حسابات میں اس قرض کا ذکر تو ضرور ہو نا چاہئے تھا؟ ان کی ایک ایک کرتے ہوئے سب بیلنس شیٹس چیک کی گئیں لیکن بتائے جانے والے قرضوں کا کہیں بھی اندراج نہ ملا تو کیا بہتر نہ تھا کہا س کا جواب ہی دے دیا جاتا‘ ممکن ہے کہ ہم سے غلطی ہو رہی ہو؟
سب سے اہم ،آخری اور بارہواںسوال ہے کہ 1992-2000 کے ان آٹھ سال میں جب ان کی کل آمدنی2.42 ملین روپے تھی اور اسی عرصے کے دوران ان کے محترم والدین کی کل آمدنی کے جو گوشوارے داخل کئے گئے‘ ان کے مطا بق ان کی بالترتیب آمدنی21.6 ملین اور16.8 ملین روپے تھی‘ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیاہے آپ سمیت سب کی اس عرصے کے دوران کل ظاہر کی جانے والی آمدنی 41 ملین روپے تھی تو سوال ہے کہ جب کل آمدنی 41 ملین روپے تھی تو صرف ان تین محلات کے تعمیراتی اخراجات کیلئے247 ملین روپے کے اخراجات کہاں سے ادا کئے گئے؟یہ بات سب کو اپنے ذہن میں رکھنا ہو گی کہ یہ صرف ان تین محلات اور گیسٹ ہائوس کے تعمیراتی اخراجات کی بات ہے‘ ان کی تزئین و آرائش کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں، اس سے بھی آگے ایک ایک کمرے‘ راہداریوں اور ڈرائنگ رومز سجانے کیلئے دنیا بھر سے اکٹھے کئے گئے نوادرات ہیں اور بڑے کمرے کی چھت پر لگایا جانے والا دھوپ روکنے اور روشنی دینے والا رنگین شیشہ ‘ جو فرانس سے آیااس وقت سوا کروڑ روپے کے قریب تھا ۔
یہ ہر گز نہ سمجھا جائے کہ یہ پیسے ناجائز طریقے سے کمائے ۔اغلب ہے کہ یہ اخراجات ان کی صنعتی ایمپائر نے اٹھائے ہوں یا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کاروباری دوستوں میں سے کسی ایک نے یہ اخراجات بخوشی ادا کیے ہوں لیکن ا س کیلئے ان ذرائع کا حوالہ دینا ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ مخالفین تو ایک طرف حکومتی اداروں میں سے بھی کوئی اس طرف انگلی نہ اٹھا سکے ۔ سوال تو اور بھی ہیں کہ وہ ایک کلو میٹر طویل فارم ہائوس کے گردا گرد پختہ دیوار کے اندر پختہ نہر اور فارم ہائوس میں لائی جانے والی انتہائی قیمتی گائیں بھینسیں اور ان کیلئے تعمیر کی جانے والی عمارات اور تکنیکی سامان ،جن پر اس وقت کروڑوں کے اخراجات ہوئے ، ان کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا؟
سردست معاملہ یہ ہے کہ آپ کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل آپ کا آئینی اور قانونی حق تھا‘ جس پر کوئی معترض نہیں اور نہ ہی کسی کو معترض ہونا چاہیے۔ آپ اپنا یہ حق نظرثانی کی اپیل دائر کرکے حاصل کر چکے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ کیا بہتر نہیں کہ اپنے تحفظات کا اظہار اسی عدالت کے روبرو کریں جس نے آپ کے خلاف فیصلہ دیا۔ یوں برسرعام عدالتی فیصلے پر رائے زنی کرنا بلکہ عدلیہ کو ہی نشانے پر رکھ لینا اداروں کی بے توقیری کی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے‘ کیوں مزید آزمائشوں سے دوچار ہونے میں کوشاں ہیں۔ واضح رہے کہ آپ سوال اٹھائیں گے تو پھر آپ پر بھی سوالات اٹھیں گے۔بار بار ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کے بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تمام اثاثوں کے اصل معاملات اور ثبوت سامنے لے آئیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور کسی کو بھی کوئی سوال اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

…………..
اگلا کالم………
……….