باریں برسیں کھٹن گیوں…خالد مسعود خان
وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے عمران خان نے مسلسل ریاضت، تحقیق، تلاشِ بسیار اور ”پرکھ پڑچول‘‘ کے بعد بالآخر پنجاب کی پگ میں سجانے کے لیے مطلوبہ ہیرا تلاش کر لیا ہے۔ یہ ہیرا عثمان بزدار ہے۔
پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے تین امیدوار تھے۔ ایک اعلانیہ اور دو ”نسبتاً کم اعلانیہ‘‘۔ اعلانیہ شاہ محمود قریشی اور ”نسبتاً کم اعلانیہ‘‘ جہانگیر ترین اور علیم خان ۔ شاہ محمود قریشی کے جوڑوں میں سلمان نعیم بیٹھ گیا۔ جہانگیر ترین کی سپریم کورٹ نے چھٹی کروا دی اور علیم خان کو نیب لے بیٹھا۔ علیم خان نے نیب سے بچنے اور آخری وقت تک کلیئرنس لینے کی بھرپور کوشش کی مگر بے سود۔ شاہ محمود نے بھی ضمنی الیکشن لڑ کر وزیر اعلیٰ بننے کی پوری کوشش کی مگر مخالف لابی نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور با لآخر انہیں وزارتِ خارجہ پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ رہ گئے جہانگیر ترین تو وہ بڑی خاموشی سے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنا ”پیچ‘‘ فٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پیچ کی اصطلاح میرا کزن پرویز نواز استعمال کرتا ہے۔ پیچ لکڑی میں بڑی خاموشی سے اور لکڑی کو پھاڑے بغیر اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور فٹ ہو جاتا ہے۔ جہانگیر ترین بھی اپنا پیچ فٹ کیے جا رہے ہیں۔
عمران خان نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لیے چار خصوصیات کا ذکر کیا۔ پہلی یہ کہ نوجوان ہو گا۔ دوسری یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو گا۔ تیسری یہ کہ پسماندہ علاقے سے ہو گا اور چوتھی یہ کہ ”نیٹ اینڈ کلین‘‘ ہو گا۔ الحمدللہ اپنے عثمان بزدار صاحب دو غیر ضروری خصوصیات کے حامل تو ضرور ہیں اور جو دو نہایت ضروری چیزیں تھیں ان سے کوسوں نہیں بلکہ کئی نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ وہ نوجوان ہیں‘ لیکن بھلا یہ کیا خصوصیت ہوئی؟ کیا وزیر اعلیٰ نے چھبیس میل چار فرلانگ کی میراتھن دوڑ میں حصہ لینا ہے کہ اس کا نوجوان ہونا کوئی ضروری لوازمہ قرار پائے؟ پہلے وزیر اعلیٰ کے لیے سمجھدار، تجربہ کار اور کام کو جاننے والا ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ نئے پاکستان میں ہر چیز ہی تبدیل ہو گئی ہے۔ دوسری خصوصیت یہ کہ وہ پڑھا لکھا ہو گا۔ موصوف ایم اے سیاسیات یعنی پولیٹیکل سائنس ہیں۔ اللہ کے فضل سے پاکستان میں ماسٹرز کی ڈگری میں یہ سب سے فارغ مضمون سمجھا جاتا ہے اور بقول شاہ جی اگر ایم اے پولیٹیکل سائنس کی درجہ بندی کی جائے تو اس میں سب سے آسان کام اس مضمون میں تھرڈ ڈویژن لینا، دوسرے درجے پر سیکنڈ ڈویژن لینا، تیسرے درجے پر مشکل کام فرسٹ ڈویژن لینا ہے اور سب سے مشکل کام اس مضمون میں فیل ہونا ہے۔ اوپر سے موصوف ایل ایل بی ہیں اور اس شعبے میں بھی نام نہیں کمایا۔ وکیل ہیں مگر کبھی کوئی مقدمہ نہیں لڑا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر مقدمہ لڑتے تو فیس بھی لیتے۔ فیس لیتے تو آمدنی ظاہر کرتے۔ آمدنی ظاہر کرتے تو ٹیکس دیتے لیکن موصوف کی سال 2015ء اور 2016ء کی انکم ٹیکس ریٹرنز بتاتی ہیں کہ بھائی صاحب نے ایک ٹیڈی پیسے کا انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ موصوف کا این ٹی این نمبر 3968548-9 ہے۔ ایف بی آر کی ویب سائٹ پر اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
تیسری خوبی یہ کہ عمران خان کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کا تعلق پسماندہ علاقے سے ہو گا۔ موصوف اس خوبی پر پورا اترتے ہیں لیکن بھلا یہ کیا خوبی ہوئی۔ جنوبی پنجاب کے چار کروڑ لوگ اس خوبی پر پورا اترتے ہیں؛ تاہم یہاں دوہری خوبی ہے۔ پہلی یہ کہ موصوف کا تعلق بھی پسماندہ علاقہ سے ہے اور الحمدللہ خود بھی پسماندہ ہی ہیں۔ چوتھی اور آخری خوبی یہ تھی کہ امیدوار ”نیٹ اینڈ کلین‘‘ یعنی مالی معاملات میں صاف و شفاف ہو گا۔ موصوف جب تحصیل ناظم ٹرائیبل ایریا (پہلی بار 2001ء میں اور دوسری بار 2005ء میں) تھے‘ تب کی کہانیاں خیر سے زبان زدِ عام تو تھیں ہی لیکن اسے صدام حسین ولد سیف اللہ خان سکنہ جتوقلات یونین کونسل بارتھی‘ باقاعدہ ریکارڈ پر لے آیا اور موصوف کے خلاف ایک تفصیلی درخواست نیب کو ارسال کی جس میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزامات تھے۔ اس درخواست میں پبلک ہیلتھ اور واٹر سپلائی سکیمز میں بوگس اور کاغذی کاموں کے ذریعے فنڈز کی خورد برد کا الزام تھا اور اس درخواست پر نیب نے درخواست گزار کو ذاتی طور پر شنوائی کے لیے 19 ستمبر 2016ء کو بلایا۔ جعلی اور بوگس تقرریوں کی دھوم بھی پورے تونسہ میں سنائی دیتی رہی۔ اب موصوف مسٹر کلین کے نام سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر متمکن ہونے جا رہے ہیں۔
ایسے عہدے کے لیے، کسی امیدوار میں جو ضروری خصوصیات دیکھی جا سکتی ہیں ان میں پارٹی سے وفاداری، شخصیت کی حرکیاتی قوت (DYNAMICS)، اعلیٰ تعلیم، ایمانداری، تجربہ اور شخصی تاثر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ موصوف الیکشن سے ڈیڑھ ماہ پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ شخصیت کا مجموعی تاثر حرکیاتی قوت اور ایمانداری کی تفصیل اہل تونسہ سے معلوم کی جا سکتی ہے اور اختصار کے لیے صدام حسین کی درخواست پڑھی جا سکتی ہے‘ جس کے ساتھ کافی ساری تفصیل لف ہے۔ موصوف نے 2015ء اور 2016ء میں ایک ٹیڈی پیسہ انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ اور تجربے کا یہ عالم ہے کہ زندگی میں پہلی بار ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔ بقول ایک دوست کے (جس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور برسوں سے اس سے وابستہ ہے) عثمان بزدار زیادہ سے زیادہ یونین کونسل کا چیئرمین بننے کے لائق ہیں اور عمران خان نے ان کے سر پر پنجاب کی وزارتِ علیہ کا ہما بٹھا دیا ہے۔
پنجاب کے ساتھ یہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ میں نے ایک با علم دوست سے پوچھا۔ وہ کہنے لگا: دراصل عمران خان کسی نوجوان کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر اس لیے متمکن کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خیبر پختونخوا میں کسی پرانے تجربہ کار سیاستدان یعنی پرویز خٹک کو وزیر اعلیٰ بنا کر پہلے بھی پانچ سال تنگ و پریشان رہے ہیں‘ اور اب بھی ان کی بلیک میلنگ کے باعث انہوں نے محمود خان کی کڑوی گولی نگلی ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ پرویز خٹک صاحب نے گزشتہ اسمبلی میں بھی اپنا گروپ بنا رکھا تھا اور اب والی میں بھی۔ پرانے پاپیوں سے تنگ عمران خان نے جوڑ توڑ اور سیاسی بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے کسی نوجوان کو لانے کا ارادہ کیا تھا تو کم از کم اس با وقار اور ذمہ دارانہ عہدے پر کسی ایسے نوجوان کو منتخب کرتے جو اس عہدے کے لئے درکار کم از کم لوازمات کو تو پورا کرتا۔ عثمان بزدار کو تو کابینہ میں وزیر بے محکمہ بھی لیا جاتا تو اس سے پہلے چھپن بار سوچنا چاہئے تھا‘ کجا پنجاب کا وزیر اعلیٰ۔
کہانیاں بہت ہیں اور ایسی بھی نہیں کہ لکھی نہ جا سکیں مگر کالم کا دامن بھلا ہوتا ہی کتنا ہے؟ چودہ سو سے پندرہ سو الفاظ۔ اس میں کیا لکھیں اور کیا چھوڑیں۔ سو ایک پورا کالم تو ان کہانیوں پر الفاظ کی اس قید میں رہتے ہوئے لکھا جا سکے تو غنیمت ہے۔ ایک اور بڑی مزیدار بات اخبارات میں آئی ہے کہ عثمان بزدار واحد ایم پی اے ہیں جن کے گھر میں بجلی نہیں ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ کوئی خوبی نہیں۔ ویسے بھی جس علاقے میں موصوف کا آبائی گھر یعنی تمنداری ڈیرہ ہے وہ جگہ تونسہ سے بھی 35/40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ عثمان بزدار کا آبائی گھر ٹرائبل ایریا تونسہ میں بارتھی میں ہے۔ بجلی وہاں سے محض پانچ کلومیٹر پر کوٹ موہی تک ہے۔ شنید ہے کہ کوٹ موہی سے بارتھی تک بجلی پہنچانے کے لیے ان کے پرانے مخالف امجد فاروق کھوسہ نے سکیم بھی منظور کروائی تھی‘ مگر انہیں سامان نہ مل سکا۔ یعنی یہ کام بھی ان کے مخالف نے کروایا۔
اگر عثمان بزدار کے گھر بجلی نہیں تو یہ قابل فخر نہیں‘ نالائقی اور نا اہلی کی روشن مثال ہے کہ ان کے دادا سردار دوست محمد خان بزدار نے 1971ء میں ایم پی اے کا الیکشن لڑا تھا۔ والد سردار فتح محمد خان بزدار تین بار 1985ئ، 2002ء اور 2008ء میں ایم پی اے رہے جبکہ موصوف دس سال تک ٹرائبل ایریا کے تحصیل ناظم رہے اور خود اپنے گھر تک بجلی نہ پہنچوا سکے‘ باقی جنوبی پنجاب کے لیے کیا کریں گے؟
کالم ختم ہو گیا ہے اور دو تین سطریں بچ گئی ہیں۔ اور تو کوئی چیز یاد نہیں آ رہی۔ پنجابی کا ایک ٹپہ یاد آ رہا ہے‘ وہی لکھ رہا ہوں۔ اس ٹپے کا کالم سے کوئی تعلق نہیں۔
”باریں برسیں کھٹن گیوں تے کھٹ کے لیاندا ٹینڈا‘‘
یعنی بارہ برس تک کمائی کرنے کے لیے گیا اور کما کر لایا ٹینڈا۔