بارے مُرغی کا کچھ بیاں ہو جائے…ظفر اقبال
مرغی کھانے کے کام آتی ہے یا پھانسنے کے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کو یہ کھانے کیلئے درکار ہے یا پھانسنے کیلئے۔ ایک مطلع ہے ؎
چارپائی پہ یوں نہ بیٹھا کھانس/اُٹھ کے بوڑھی سی کوئی مُرغی پھانس
لیکن اگر آپ کو کھانے کے لیے مطلوب ہے تو بُوڑھی یا بزرگ مُرغی نہیں چلے گی کیونکہ جس طرح کچھ لوگوں کی دال نہیں گلتی‘ اسی طرح بوڑھی مرغی کے گلنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم‘ دو ملّائوں کے درمیان حرام ہو جانے والی مرغی خریدنے سے بھی پرہیز کریں۔ کیونکہ اس کے حرام ہونے میں دونوں نہیں تو ایک کی شرارت ضرور کارفرما ہو گی۔ حکماء ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے کہ پہلے مُرغی پیدا ہوئی تھی یا انڈہ‘ حالانکہ دونوں کھانے کی چیزیں ہیں‘ اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ آپ پہلے انڈہ کھالیں یا مُرغی‘ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بہر حال‘ مُرغی اور مُرغے کی اپنی اپنی ڈشیں ہیں اور اُن میں کوئی ردّ و بدل نہیں کیا جا سکتا‘ مثلاً مُرغ پُلائو ہوتا ہے‘ مرغی پلائو نہیں۔ اسی طرح آپ کہیں گے کہ آج ہمارے ہاں مُرغی پکی ہے‘ بیشک وہ بیچارہ مرغا ہی کیوں نہ ہو۔ پھر‘ ہوگا تو مرغی خانہ ہوگا۔ مرغ خانہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ بیشک اس میں مُرغیاں بھی پائی جاتی ہوں۔ اسی طرح مُرغ کڑاہی ہوتی ہے۔ مرغی کڑاہی نہیں‘ چاہے اس میں مرغی ہی استعمال کی گئی ہو۔منقول ہے کہ ایک صاحب اونٹ پر سوار دور دراز کے دوستوں سے ملنے کے لیے گئے جہاں ان کی بہت آئو بھگت ہوئی لیکن میزبان اس بات پر بہت پریشان تھے کہ مہمان کو گوشت کھلائے بغیر نہیں رہ سکتے تھے‘ اور بار بار مہمان سے اس کا ذکر بھی کر رہے تھے۔ صحن میں ایک مرغا بھی پھر رہا تھا۔ جب اُن کی یہ گردان انتہا کو پہنچ گئی تو تنگ آ کر مہمان بولا‘”یوں کریں‘ آپ میرا اونٹ ذبح کر لیں!‘‘”وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ واپس کس چیز پر جائیں گے‘‘ ایک میزبان بولا۔” میں آپ کے مرغے پر بیٹھ کر چلا جائوں گا!‘‘ مہمان نے جواب دیا۔
مُرغی‘ مرغابی اور شتر مرغ ‘ سب آپس میں رشتے دار ہوتے ہیں۔ شعرائے کرام نے اپنے اشعار میں جو ”مرغ چمن‘‘ باندھا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ باغ کا کوئی مرغا بھی ہوتا ہے‘ نہ ہی کوئی مرغا دانہ ڈنکا چگنے کی خاطر باغ میں جاتا ہے۔ کیونکہ فارسی میں پرندے کو مُرغ کہا جاتا ہے ورنہ مُرغ چمن کے ساتھ ساتھ مرغی چمن بھی باندھا جاتا۔ گھر میں اگر آپ مرغیاں پالنا چاہتے ہوں اور اگر شادی شدہ ہوں تو یہ کام محض اپنے رسک پر کر سکتے ہیں۔ منقول ہے کہ ایک روز میاں نے بڑے غُصے میں آ کر کہا۔اس گھر میں یا میں رہوں گا یا مرغیاں!‘‘ اس پر بیوی بولی۔”لیکن اِتنی تیز بارش میں آپ کہاں جائیں گے…‘‘
ظاہر ہے کہ مرغی کے گوشت سے متعدد ڈشیں تیار کی جا سکتی ہیں‘ جن میں مرغی کے پکوڑے بھی شامل ہیں۔ ہم نے ایک بار مرغی کے پکوڑے بنانے کا طریقہ بتایا تھا کہ سب سے پہلے خالص بیسن تلاش کریں۔ کیونکہ دکاندار بالعموم مکئی کا آٹا بیسن کہہ کر فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں آپ پیاز‘ ٹماٹر‘ اناردانہ‘ سبز مرچ اور سبز دھنیا ملا کر پانی میں اچھی طرح مکس کر لیں۔ ذائقے کے لیے آلو بھی چھوٹا چھوٹا کاٹ کر شامل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد پکوڑے بنا بنا کر چولہے پر رکھی کڑاہی میں ڈالتے جائیں جس میں تیل یا کوکنگ آئل بھی موجود ہو اور انہیں دھیمی آنچ پر پکنے دیں۔ پک جائیں تو انہیں اتار کر ٹھنڈا کر لیں۔ لیجیے مرغی کے پکوڑے تیار ہیں۔ انہیں آپ مرغی کے آگے ڈال دیں‘ بڑی رغبت سے کھائے گی۔
منقول ہے کہ جنگِ عظیم کے دوران جب لندن پر بے تحاشا بمباری ہو رہی تھی کہ ایک رات دھماکہ سن کر میاں بیوی اٹھ بیٹھے۔ میاں نے گھبرا کر کہا:”کیا ہوا؟‘‘ تو بیوی نے جواب دیا: ساتھ والے محلّے میں بم پھٹا ہے‘ تو میاں بولے:”اوہ‘ شکر ہے خدا کا میں سمجھا مرغیوں کو بِلّا پڑ گیا ہے‘‘۔
بہر حال آپ نے گھر میں مرغیاں پال بھی رکھی ہوں تو پکانے کے لیے بازار سے مرغی خرید کر لائیں کیونکہ گھر کی مرغی تو دال برابر ہی ہوتی ہے۔ مرغیوں کی طرح ہم شاعر لوگ بھی وقفے وقفے سے کُڑک بیٹھتے ہیں اور کئی کئی مہینے شعر ہی نہیں ہوتا۔ انڈہ البتہ ابال کر بھی کھایا جا سکتا ہے اور آملیٹ کی شکل میں بھی۔ گندے انڈے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جنہیں سنبھال کر رکھا جاتا ہے تا کہ آپ انہیں اپنے نا پسندیدہ سیاسی لیڈروں پر پھینک سکیں۔ گندے انڈوں کی طرح اگر آپ نے مُرغا پال رکھا ہو تو اس کا بھی خاص خیا ل رکھیں کہ آپ نے اس بڑھیا کی کہانی تو سن ہی رکھی ہو گی جو ناراض ہو کر اور اپنا مُرغا بغل میں دبا کر یہ کہتے ہوئے چل پڑی تھی کہ نہ میرا مرغا بانگ دے گا اور نہ گائوں میں صبح ہو گی!
منقول ہے کہ ایک صاحب نے ہوٹل میں داخل ہو کر مرغِ مسلم کا آرڈر دیا۔بیرا جب لے کر آیا تو مُرغے کی ایک ٹانگ غائب تھی۔ وہ ناراض ہو کربیرے سے بولے :”اس کی دوسری ٹانگ کدھر ہے؟‘‘ جس پر بیرا بولا:”جناب‘ یہ دو مرغے آپس میں لڑ پڑے تھے تو اس لڑائی میں اس مرغے کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی!‘‘،”میرے لیے وہ مُرغا لائو جو اس لڑائی میں فتحیاب ہوا تھا‘‘، وہ صاحب بولے۔
اس سے یاد آیا کہ صرف مرد ہی آپس میں نہیں لڑتے‘ یعنی وہ خود جب نہ لڑ رہے ہوں تو آپس میں مرغے لڑاتے ہیں۔ نیز مرغی چور کو مرغی چور ہی کہیں گے‘ مرغا چور نہیں۔ خواہ چرایا اس نے مرغا ہی ہو۔ ایک سیمرغ بھی ہوتا ہے جس کی زیارت ہمیں تو آج تک نصیب نہیں ہوئی۔ شروع میں مرغی پھانسنے کا ذکر آیا ہے اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ایک کوڑی کو دھاگے میں پروئیں‘ اور کوڑی پر آٹے کا لیپ کر کے اسے مرغی کے آگے ڈال دیں‘ مرغی کوڑی کو جُوں توں کر کے نگل تو لے گی‘ لیکن یہی اس کی گرفتاری کا سبب بھی ہے یعنی اُسے آسانی سے اپنی طرف کھینچ لیں‘ تاہم دوسری مرغی کوڑی سے نہیں پھنستی‘ یہ آپ کی اپنی اپنی ہمت پر منحصر ہے۔ایک اور مطلع پیش ہے ؎
کوئی زبردستی نہیں/ہنستی تو ہے‘ پھنستی نہیں
لیکن ایک کوڑی اگر آپ کے پاس موجود ہو تو مرغی ہنسے بغیر ہی پھنس جائے گی‘ کیونکہ گلے میں کوڑی پھنسی ہو تو اس کے ہنسنے کا کوئی سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بچّے چُوزے کہلاتے ہیں اور فرش اگر زیادہ گرم ہو اور اس کے پنجے جلنے لگیں تو اس سے بچنے کے لیے چُوزوں کو اپنے پنجوں کے نیچے دبا لیتی ہے‘ اسی لیے کہا جاتا ہے‘ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں!
آج کا مقطع
کیا کہیں، عمر ہی اتنی تھی محبت کی ، ظفر
گزرے اُس میں بھی کئی ایک زمانے خالی