منتخب کردہ کالم

باعزت بری (زبان خلق) امجد بخاری

ایک تو خانہ خدا پھر الفاظ کا زبردست چناؤ ایسی پُراثر دعا تھی کہ سب اس کے سحر میں بندھ گئے۔ جیسے ہی دعا ختم ہوئی صدر آصف علی زرداری نے دعا منگوانے والے سید حامد سعید کاظمی کو عقیدت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ حامد سعید کاظمی منشا زبان پر لے آئے اور صدر آصف علی زرداری سے خدا کے گھر میں وعدہ لے لیا کہ انہیں وزیرِ مذہبی امور بنا دیا جائے گا۔ تقریباً ایک دہائی ادھر کی بات ہے آصف زرداری اپنے ساتھیوں کے ساتھ سعودی عرب کے دورے کی روانگی سے قبل سید خورشید شاہ کو وزیرِ مذہبی امور بنانے کا عندیہ دے چکے تھے لیکن سید حامد سعید کاظمی نے ایسی جگہ وعدہ لیا کہ اسے نبھانا پڑا اور حامد سعید کاظمی مذہبی امور کے وزیر بن گئے۔ منصب مل گیا، کروفر آ گئی، انتہائی مذہبی خاندان سے تعلق رکھنے والے حامد سعید کاظمی کی شخصیت پیپلز پارٹی کے نظریے اور اس میں موجود شخصیات سے میل تو نہیں کھاتی تھی لیکن وہ سیاسی طور پر بہت لچکدار ہونے کے باعث یہاں بھی فٹ ہو گئے اور دائیں بائیں بازو کے فرق کو مٹانا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ٹھہرا۔ جنوبی پنجاب بھر میں یہی سمجھا گیا کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے حامد سعید کاظمی کو وزیر مذہبی امور بنوایا اور اسے گیلانی خاندان کی مقامی سطح پر نوازشات کی فہرست میں نمایاں جگہ پر شامل کر لیا گیا۔
حامد سعید کاظمی نجی محفلوں میں اس کی تردید کرتے رہے اور دوستوں کو بتاتے رہے کہ یہ ان کی اپنی کاوش، ہنرمندی اور آصف علی زرداری صاحب کی براہ راست شفقت کا نتیجہ ہے لیکن یہ تاثر نہ تب زائل ہو سکا‘ نہ اب ہوا ہے‘ حتیٰ کہ ثبوت کے طور پر حامد سعید کاظمی نے اپنے دوستوں کو وہ بلٹ پروف گاڑی بھی دکھائی جو بعدازاں آصف علی زرداری نے حامد سعید کاظمی کو خود عنایت کی اور یہ بتایا کہ دراصل یہ گاڑی انہوں نے اپنے لئے منگوائی تھی لیکن دشمنوں کے شاہ صاحب پر حملے ہو چکے ہیں‘ وہ اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ یہ گاڑی آج بھی سہولت اور ثبوت کے طور پر موجود ہے لیکن وہ تاثر بدستور موجود ہے حتیٰ کہ سابق وزیر موصوف نے پیپلز پارٹی کو خیرباد کہنے پر بھی سنجیدہ غور شروع کر دیا‘ لیکن بڑا مسئلہ درپیش ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں؟
حامد سعید کاظمی نے وزارت مذہبی امور کا منصب سنبھالا تو انہیں شائبہ تک نہیں تھا کہ یہ عہدہ ان کیلئے کانٹوں کی سیج ثابت ہو گا۔ پیپلز پارٹی میں آنے اور وزارت سنبھالنے کی اتنی بڑی سزا اگر ان کے گمان میں بھی ہوتی تو وہ بصد خوشی و احترام یہ منصب طشتری میں سجا کر سید خورشید شاہ کے حضور پیش کر دیتے۔ وزارت کے دور میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچے لیکن شدید زخمی ہوئے۔ ایک ٹانگ متعدد جگہوں سے ایسی ٹوٹی کہ سرکاری خرچ پر علاج کیلئے چین جانا پڑا۔ واپسی ہوئی تو لاٹھی کے سہارے چلنا مجبوری بن گیا۔ ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ حاجیوں کے پیسوں میں غبن جیسے بڑے الزام میں دھر لئے گئے۔ ملتان میں ڈپٹی کمشنر رہنے والے راؤ شکیل‘ بعدازاں ڈائریکٹر حج‘ بھی ساتھی ملزموں میں تھے اور پھر چوری کا کھرا گیلانی خاندان کے گھر تک پہنچا دیا گیا۔ اس طرح کرپشن کی ایک تکون بنائی گئی جس کے ایک سرے پر راؤ شکیل، دوسرے پر حامد سعید کاظمی اور تیسرے پر عبدالقادر گیلانی کو بٹھا کر کہانی مکمل کر لی گئی۔ اب حج کرپشن کیس کے تمام ملزموں کو باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ واقعی اگر یہ تمام افراد اس معاملے میں بے گناہ تھے تو بریت فبہا‘ عزت تو مٹی میں ملا دی گئی۔ حامد سعید کاظمی کا خاندان‘ جو غزالی زماں کا خاندان کہلاتا ہے‘ اس سکینڈل کے باعث شدید شرمندگی کے عمل سے گزرا اور خاندان کے لوگوں کو اس معاملے میں عوام کے سخت اور تلخ جذبات کا سامنا کرنا پڑا۔ حامد سعید کاظمی کی سیاسی جماعت پر لگنے والے تمام الزامات ایک طرف‘ حج کرپشن کے اس ایک الزام نے
ایک سمت کا پلڑا اتنا جھکایا کہ وہ پھر تمام کوششوں سے نہ اٹھ سکا۔ حامد سعید کاظمی کیلئے گزشتہ دہائی میں شاید رہائی اور وہ بھی باعزت ہونے کی واحد خوشی ملی ہو گی لیکن جو کچھ ہوا وہ ہمیشہ ان کے ساتھ نتھی رہے گا۔
حامد سعید کاظمی اہم مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کی طویل فہرست ہے لیکن خود حامد سعید کاظمی اس مکتبہ فکر کے باعث کئی ممالک میں بطور وزیر مذہبی امور پاکستان قابل قبول نہ تھے اور انہوں نے اپنی وزارت کے دور میں اگر اہم اسلامی تقریبات میں شرکت کی خواہش ظاہر کی تو انہیں مدعو نہیں کیا گیا حتیٰ کہ وہ وزیر مذہبی امور کے طور پر کسی عزیز کوعمرہ ویزہ لگوا دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے تھے۔ اس حساب سے انہوں نے وزارت مذہبی امور حاصل کرنے کا بڑا مہنگا سودا کیا اور اپنی استطاعت سے کہیں بڑھ کر اس کی قیمت چکائی‘ تاہم کمال صبر اور استقامت سے ابتلا کے دور کا سامنا کیا اور ایک روایتی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر رہی‘ لیکن ان کی سیاست داغدار ہو گئی۔ ایک عدالت سے سزا اور دوسری سے باعزت بریت کے درمیان کتنا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا۔ یہ سچ ہے کہ ایک فیصلہ عدالت کرتی ہے اور دوسرا اس عدالتی ٹرائل کے دوران عام لوگ اپنے ذہنوں میں کر لیتے ہیں۔ عدالتی فیصلے عموماً لوگوں کے ذہنوں میں ہونے والے
فیصلوں کو نہیں دھو پاتے۔ خصوصاً سیاسی معاملات میں عوامی ذہنوں کے فیصلے بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح پاناما کیس کا فیصلہ عدالت کرے گی‘ لیکن اس ٹرائل کے دوران ایک فیصلہ عوام نے اپنے ذہنوں میں کر لیا ہے۔ عدالتی فیصلہ کچھ بھی ہو‘ لیکن عوامی ذہنوں کا فیصلہ اپنی جگہ طاقتور ہوتا ہے۔ حامد سعید کاظمی بری تو ہو گئے ہیں لیکن جیل کی زندگی انسان کو نئی کٹھالی سے گزارتی ہے خصوصاً فرصت اور تنہائی کے لمحات خود شناسی اور زمانہ شناسی کی نئی پرتوں کو آشکار کرتے ہیں۔ حامد سعید کاظمی پیپلز پارٹی سے نالاں تو تھے ہی اب سیاست سے بھی قدرے بیزار نظر آتے ہیں۔ جنہوں نے برسہا برس کی ریاضت سے نیک نامی کمائی تھی‘ وہ عزیز اور اہل خانہ بھی قدرے شکوہ گو ہیں اور خود حامد سعید کاظمی کو بھی شاید عدالت سے باعزت بریت حاصل کرنے کے بعد عام آدمی کے ذہن سے بھی باعزت بریت حاصل کرنا ہو گی۔ تبھی وہ سیاست اور سیاسی راہگزر کے توانا مسافر بن سکیں گے۔ حامد سعید کاظمی اپنی سیاسی زندگی میں ملتان اور پھر رحیم یار خان کو اپنا حلقہ انتخاب بنا کر کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ اب بھی ان کا گھر ملتان کے جس حلقہ میں موجود ہے وہاں سے پیپلز پارٹی کو سنجیدہ امیدوار دستیاب نہیں اور حامد سعید کاظمی اس خلا کو پُر کر سکتے ہیں‘ لیکن اس کے لئے ان کو پھر بڑی جدوجہد کی ضرورت ہو گی اور ان کے پورے خاندان کو ایک بڑی آزمائش سے گزرنا ہو گا۔