مجھے نہیں یاد کہ کسی حکومتی یا نجی ادارے کے منتظمین نے‘ اپنے کارکنوں کے ساتھ جھگڑا پیدا کر کے کچھ حاصل کیا ہو۔ نقصان دونوں طرف ہوتا ہے۔ انتظامیہ جو بھی ہو‘ پیشہ ور ماہرین کی یا مالکان کی‘ باہمی تنازعے میں ادارے کا نقصان بہرحال ہوتا ہے۔ اگر نجی ادارے کا مسئلہ ہو‘ تو اس میں براہ راست مالکان کے مفادات دائو پر لگے ہوتے ہیں۔ اس لئے عموماً وہ اختلاف کو تنازعے کی حد تک نہیں پہنچنے دیتے۔جس کی زندہ مثال موجودہ وزیراعظم کا خاندان ہے۔ کارکنوں اور میاں خاندان کے افراد پر مشتمل انتظامیہ کے مابین‘ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے۔ اس کی بنیادی وجہ مالکان کا مفاد تھا۔ وہ اپنے اداروں میں صرف ایسے افراد کاانتخاب کیا کرتے تھے‘ جن کی فنی استعداد اعلیٰ معیار کی ہو۔ مثلاً میاں برادران کے اداروں میں حسابات اور منصوبہ بندی ‘مشاورت سے کی جاتی تھی اور عملدرآمد پرہارون پاشانظر رکھتے تھے۔ میرا خیال ہے آج بھی وہی اعلیٰ سطح کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ معذرت سے عرض کروں گا کہ میاںنوازشریف‘ خاندان میں بہت لاڈلے اور کاروباری ذمہ داریوں سے آزاد تھے۔ بڑے میاں صاحب کے بعد یہ ذمہ داریاں آہستہ آہستہ میاں شہبازشریف کے سپرد ہونے لگی تھیں۔ انہوں نے بڑی تیزرفتاری سے سب کچھ سیکھ کر ‘ کم و بیش سارے کام سنبھال لئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی عوام نے اپنے تمام اثاثے ‘ن لیگ کے سپرد کر دیئے ہیں اور ن لیگ کے کرتا دھرتا میاں صاحبان ہیں۔ اپنا سب کچھ میاں صاحبان کے سپرد کر کے عوام بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کے معاملات کو بھی اسی طرح چلائیں گے‘ جیسے اپنے اداروں میں چلاتے ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قومی اثاثوں میں وہ خوش انتظامی نظر نہیں آ رہی‘ جس میں میاں فیملی معروف ہے۔
بدنصیبی سے پاکستانی انتظامیہ کو منتخب لوگوں نے کبھی دیانتداری اور خلوص سے کام کرنے پر مجبور نہیں کیا؛ حالانکہ جمہوریت کو اسی لئے کامیاب سمجھا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو حکومت چلانے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے‘ وہ خوب جانچے اور پرکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ عمل پارٹیوں کے اندر ہوتا ہے۔ کارکن نچلی سطح سے ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے‘ اپنی کارکردگی کی بنا پر اوپر جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سطح کی قیادت میں شامل ہو کر‘ قومی انتظامیہ کو اپنے تجربے اور صلاحیتوں سے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ان کی سماجی اور سیاسی تربیت ایسے ماحول میں ہوتی ہے کہ وہ قومی اثاثوں اور ذمہ داریوں کی دیکھ بھال یہ سمجھ کر کرتے ہیں ‘ جیسے نفع و نقصان ان کا ذاتی معاملہ ہو۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ قومی ذمہ داریاں سنبھالنے کے امیدوار‘ انہیں سنبھال لینے کے بعد کوئی بھی وزارت یا عہدہ مل جانے پر‘ اس طرح کام کرتے ہیں‘ جیسے عوامی مفادات کی نگہبانی کرنا ان کے ایمان کا حصہ ہو۔ مذہب اور عقیدے پر یقین رکھنے والا ہر شخص‘ اپنے اختیارات کو عوام کی امانت سمجھتے ہوئے استعمال کرتا ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں یہ ایک روایت بن چکی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں کے سیاستدان غلطی نہیں کرتے۔ وہ ضرور ایسا کرتے ہیں۔ لیکن خود ہی اپنی غلطی کا اعتراف کر کے سزا بھی بھگتتے ہیں۔ کتابیں ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ برطانیہ کے ایک بادشاہ نے جب ایک خوبصورت خاتون سے محبت کی‘ تو یہ ان کا ذاتی فعل تھا۔ اس نے مناسب نہیں سمجھا کہ تاج برطانیہ کے حقدار کی حیثیت میں ‘وہ اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کرے۔ چنانچہ اس نے تاج و تخت کو ٹھکرا کر ایک عام آدمی کی زندگی کو ترجیح دی۔ امریکہ کے دو صدور کو میں نے اپنی غلطی کی سزا پاتے ہوئے دیکھا ہے۔
پہلی مثال صدر نکسن کی ہے۔ انہوں نے مخالف پارٹی کے دفتر میں جاسوسی کے آلات لگوائے اور جب ان کا سراغ لگا لیا گیا‘ تو میڈیا نے ان کے اس ”جرم ‘‘کو عوام کے سامنے رکھ دیا۔ امریکی روایات کے مطابق جرم یہ تھا کہ صدر نکسن نے اپنے سرکاری اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے‘ قانون کا احترام نہیں کیا۔ انہیں صدر کی حیثیت میں یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی سیاسی پارٹی کے فائدے کے لئے‘ مخالف سیاسی پارٹی پر سرکاری اختیارات استعمال کریں۔ بہت دیر عوامی بحث چلی اور آخر کار صدر نکسن کو قبول کرنا پڑا کہ صدر کی حیثیت میں انہوں نے مخالف پارٹی کے رازوں تک پہنچنے کی کوشش کی جو کہ اخلاقی جرم تھا۔ صدر نکسن کو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دینا پڑا۔ اسی طرح صدر کلنٹن اپنے دور اقتدار میں‘ ایک خاتون کی طرف مائل ہو گئے تھے اور ان کی مشکوک نجی ملاقاتوں کا راز کھل گیا تھا۔ انہیں عوام کے سامنے آ کر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگنا پڑی تھی۔
تیسری دنیا کی جمہوریتوں میں وہ بنیادی تربیت حاصل نہیں کی جاتی‘ جو قومی امور چلانے والوں کے لئے ضروری ہو۔ لازم ہے کہ اقتدار ملنے کی صورت میں کوئی بھی منتخب نمائندہ‘ اپنے ضمیر اور عوام کے سامنے ہر وقت جوابدہ رہتا ہو۔ میں نے دونوں میاں برادران کواقتدار کی دنیا میں داخل ہوتے دیکھا ہے۔ جب انہوں نے قومی اثاثوں کی دیکھ بھال کرنے کے ذمہ داروں میں دیانت اور اصولوں کو پامال ہوتے دیکھا‘ تو مجبوراً مقابلے پر اتر آئے۔ صنعتکار سے زیادہ مقابلے کی صلاحیت کس میں ہوتی ہے؟ ہماری بدقسمتی تھی کہ میاں برادران کو ایک ایسے ماحول میں اقتدار ملا‘ جہاں اصول پسندی اور دیانت کا کلچر ہی موجود نہیں تھا۔ جن منتخب نمائندوں کے ووٹوں سے انہیں اقتدار حاصل کرنا پڑا‘ ان کی سیاست کی بنیاد‘ دیانت اور امانت کے اصولوںپر نہیں تھی۔ لیکن آج ان دونوں بھائیوں کو اپنے منتخب نمائندوں کی مفادپرستی پر کڑی نظر رکھنے کی جمہوری ذمہ داریاں‘ دیانت اور امانت کے ساتھ پوری کرنے کی ابتدا کر دینا چاہیے۔ یہ چیز ان کے خمیر میں ہے اور وقت نے انہیں خلق خدا کی نگہداشت کا اختیار دے دیا ہے۔ انہیں جرائم پیشہ سیاستدانوں کی قائم کی ہوئی روایات کو ختم کرتے ہوئے اپنی حقیقی ذمہ داریاں سنبھال لینا چاہئیں۔ وقت اتنا اختیار ہر کسی کو نہیں دیتا اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب اختیارات زیادہ مل جائیں‘ تو ذمہ داریاں بھی زیادہ ہو جاتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ذاتی مفادات اور خواہشات کو خلق خدا کی فلاح پر قربان کر دیں۔ دنیاوی دولت جمع کرنے کی خواہش لامحدود ہوتی ہے۔ یہ جتنی جمع کی جائے‘ اس کی پیاس میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ طاقت بھی مل جائے‘ تو راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بے رحمی سے دور کرنے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ماضی کے طاقتوروں کے حالات زندگی سے سبق لینا چاہیے۔ ماضی بعید میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ پچھلی صدی کے اواخر میں‘ رومانیہ کے طاقتور اور دولت مند سربراہ چائو شسکوکو اس کے اپنے ہی سپاہیوں نے ‘ جو اس کی حفاظت پر مامور تھے‘ بیوی سمیت فرار ہوتے ہوئے گھیرکے ہلاک کر دیا۔ ان میاں بیوی نے اپنی حفاظت کے لئے زمین دوز محلات بنائے ہوئے تھے اور وہاں سونے اور جواہرات کو محفوظ کیا گیا تھا۔ یہ بڑا ڈرامائی شخص تھا۔ انسانی حقوق کی عالمی تحریکوں میں شامل ہوا کرتا‘ لیکن اپنے ملک کے عوام کو انسانی آزادیوں سے محروم رکھتا۔ جب عوام نے اس کے خلاف بغاوت کی‘ تو جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ اس نے اپنی اور اپنی بیوی کی حفاظت کے لئے جو محافظ تیار کئے تھے‘ انہی نے اس جوڑے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سب کچھ دھرا رہ گیا۔ تاریخ کے واقعات قدم قدم پر‘ ہر حکمران کے لئے عبرت کا سامان چھوڑ گئے ہیں۔ اگر برگزیدہ انبیائے کرامؑ پر اتری ہوئی کتابوں کو پڑھا جائے‘ تو ان میں بھی دولت مند اور طاقتور حکمرانوں کے قصے موجود ہیں۔ انہیں پڑھنے کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے‘ جب انسان کے ہاتھوں میں دولت اور طاقت جمع ہونے لگے اور وہ خلق خدا کے سامنے تکبر اور رعونت کا مظاہرہ کرنے لگیں۔ ایسے میںمطلق طاقت حرکت میں آ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف کرے کیونکہ پاکستان کے عوام بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے گریزاں ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حکمران ووٹنگ کے عمل میں‘ عوام کی سچی رائے غصب کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ جب کسی معاشرے میں ظلم اور استبداد حد سے بڑھنے لگتا ہے اور عوام آگے بڑھ کر اسے نہیں روکتے‘ تو اس کی سزا سب کو ملتی ہے۔ کیا حاکم؟ کیا رعایا؟کوئی اجتماعی انجام سے بچ نہیں سکتا۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں‘ چین اس عمل سے گزر چکا ہے۔ عرب ریاستیں گزر رہی ہیں۔ لاطینی امریکہ کے ممالک میں بیشتر حکمران اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔