باوقار واپسی…..رؤف طاہر
اور اب کھمبا نوچنے کا عمل جاری ہے‘ ”شہبازشریف نے ائیر پورٹ پہنچنے کی کوشش کیوں نہ کی‘‘،”سعد رفیق کے لوہے کے چنے کیا ہوئے‘‘ ، ”لاہور نوازشریف کے لیے باہر کیوں نہ نکلا‘‘ اور ایسے بھی ہیں‘ جو 13جولائی 2018ء کا موازنہ 10اپریل 1986ء سے کررہے ہیں‘ جب بے نظیر بھٹو خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے لاہور پہنچی تھیں۔
باپ بیٹی ابھی لندن سے روانہ نہیں ہوئے تھے کہ اعصاب جواب دینے لگے اور اعصابی ونفسیاتی جنگ تیز تر ہوگئی ۔روانگی سے چند گھنٹے قبل بیگم صاحبہ کے آنکھیں کھولنے کی خبر آئی‘ تو ایک دوست کا فون آیا‘ طنزیہ لہجے میں وہ پوچھ رہاتھا:”کیا اب بھی باپ بیٹی پاکستان آئیں گے؟‘‘، ”کیوں نہیں آئیں گے ‘‘ہمارا جوابی سوال تھا ۔” پہلے تو بیگم صاحبہ بے ہوش تھیں‘ دنیا ومافیہا سے بے خبر‘ کون آرہا ہے‘ کون جارہاہے‘ انہیںاس کی خبر تھی ‘نہ اس سے غرض‘ لیکن ہوش میں آنے کے بعد خاوند اور بیٹی کی اُن کے سرہانے موجودگی‘ اُن کی نفسیاتی وجذباتی آسودگی کا ذریعہ بنے گی اور یہ چیز صحت یابی کے عمل کو تیز تر کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ممکن ہے‘ ڈاکٹر حضرات بھی انہیں رکنے کے لیے کہہ دیں اورڈاکٹروں کی یہ ایڈوائس واپسی کے التوا کا جواز بن جائے‘‘۔ اس ستم ظریف کا طنز اپنی جگہ‘ لیکن بات معقول تھی‘ ہم بھی سوچ میں پڑ گئے‘ لیکن اگلے ہی لمحے اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ اپنے آپ کو اور اس ستم ظریف کو بھی ہمارا جواب تھا: میاں صاحب اور مریم واپسی کا اعلان کرچکے ہیں تو اب کوئی بڑی سے بڑی جذباتی روکاوٹ بھی راستہ نہ روک سکے گی۔
اور پھر ہیتھر وایئر پورٹ سے اڑان کی خبر آگئی ۔ابوظہبی میں سات گھنٹے کا سٹاپ اوور افواہوں‘ قیاس آرائیوں اور دور کی کوڑیوںسے بھرا ہوا تھا۔ ڈیڑھ گھنے کی تاخیر ان میںاور اضافے کا باعث بنی۔ادھر ہاتھوں کے رہے سہے طوطے بھی اڑ رہے تھے۔ خفیہ رپورٹس باپ بیٹی کے اپنے شہر کے علاوہ صوبے کے دور دراز مقامات سے بھی قافلوں کی روانگی کی خبر دے رہی تھیں۔
رانا ثناء اللہ تو حضرت حق باہو کے ایک شعر پر ”پکڑے‘‘ گئے۔
دوسرے صوبوں سے عشاق کے قافلوں کی روانگی کی خبر یں بھی آرہی تھیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے وزرائے اعلیٰ اپنے رفقاء کے ہمراہ لاہور پہنچ چکے تھے۔اعصابی دبائو آخری نقطے کو پہنچ گیا۔لاہور آنے والی سڑکوں اور شاہراہوں اور ائیر پورٹ جانے والے راستوں پر کنٹینرگزشتہ رات ہی پہنچا دئیے گئے تھے۔ گرفتاریاں بھی جاری تھیں اور اب موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی۔ لاہور ایئر پورٹ پر مسلم لیگ(ن) کی حامی لیبر یونین‘ ایئر لیگ کے ارکان کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا۔ پیمرانے الیکٹرانک میڈیا پر ” سزایافتہ مجرموں ‘‘ کے خیر مقدم کی کوریج کو ضابطۂ اخلاق اور قاعدے‘ قانون کی خلاف ورزی قرار دے دیا تھا۔اگرلاہور سردمہری کا مظاہرہ کررہاتھا اور سڑکیں خالی تھیں‘ تو مجرموں کے اپنے شہر میں ان کی مقبولیت کی حقیقت کو ایکسپوز کرنے کا یہ اچھا موقع تھا۔ کیا پیمرا بھی درونِ خانہ ”مجرموں‘‘سے ملا ہواتھا؟
حقیقت یہ ہے کہ نگرانوں کے ان اقدامات نے مسلم لیگ(ن) کو حقیقی آزمائش سے بچا لیا تھا؛اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس آزمائش پر پورا اترتی۔اصل میں یہ خود نگرانوں کے لیے ”جائے رفتن ‘ نہ پائے ماندن‘‘والی کیفیت تھی (ایک اور محاورہ بھی تو ہے‘اُگلے بنے‘ نہ نِگلے بنے)ایسے میں ہمارے بعض دوستوں کی طرف سے 10اپریل1986ء سے اس کا موازنہ بے معنی تھا۔ تب بے نظیر تین چار سالہ خودساختہ جلا وطنی کے بعد واپس آرہی تھیں؛ اگرچہ ایوانِ صدر میںآٹھویں ترمیم والے اختیارات کے ساتھ باوردی صدر موجودتھا‘ لیکن دسمبر1985ء میں مارشل لاء ختم ہوچکا تھا۔ وزیر اعظم جونیجو بھی اپنے مسلزآزما نے اور دکھانے لگے تھے۔ ایک سندھی وزیر اعظم‘ ایک سندھی لیڈر کو وطن واپسی کی ”اجازت‘‘ دیکر ‘ اپنے صوبے میں اپنے لیے خیر سگالی کی فضا پیدا کرنا چاہتا تھا؛ چنانچہ بے نظیر صاحبہ کو پورے کروفرکے ساتھ واپسی کی اجازت مل گئی۔ انہوں نے لاہور اترنے کا فیصلہ کیا‘ جو‘اب جواں سال نوازشریف کی راج دہانی تھا۔ملک بھر سے قافلے اپنے ”شہید لیڈر‘‘ کی صاحبزادی سے اظہار وفاکے لیے لاہور کی طرف رواں دواں‘ قافلوں کے راستے میں کوئی روکاوٹ نہیں تھی۔ اوراب لاہور میں بھی نوازشریف کی صوبائی حکومت انہیں ہر طرح سہولت فراہم کررہی تھی۔ انہوں نے لاہور پہنچ کر جہاں چاہے‘ خیمہ لگالیے۔ اس پر نوازشریف کو مسلم لیگ میں اپنے مخالف دھڑے کی طرف سے پیپلز پارٹی کے سا تھ سازباز کا الزام بھی سننا پڑا۔
بے نظیر کا خیر مقدم ‘ بلا شبہ لاہور کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ بن گیا تھا۔اب 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم کی آمد کا10اپریل کو بے نظیر کی آمد سے موازنے کا کوئی موقع محل نہ تھا۔ حالات‘ واقعات سب کچھ مختلف تھے۔ 10اپریل 1986ء کا موازنہ اگر کیا جاسکتا ہے تو15مارچ 2009ء سے جب نوازشریف عدلیہ بحالی لانگ مارچ کے لیے ماڈل ٹائون سے نکلے تھے(اس کے لیے انہوں نے رچرڈ ہالبروک کی طرف سے آخری لمحے آنے والی کال کی بھی پرواہ نہ کی تھی۔ امریکی سفارت کار نے انہیں روکنے کے لیے27دسمبر 2007ء کو بے نظیر کے ساتھ پیش آنے والے المیے کی یاد دہانی بھی کرائی تھی) اور پورا لاہور سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ راوی کے اُس پار بھی جذبوں کا یہی طوفان تھا‘یہاں تک کہ گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہی 3نومبروالی عدلیہ کی بحالی کا اعلان ہوگیا۔
13جولائی کی شام ہزاروں لوگ شہبازشریف کے ساتھ سڑکوں پر تھے۔ ائیر پورٹ سے چار کلو میٹر جوڑے پل پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ متوالوں کے تصادم کی خبریں بھی آرہی تھیں۔ اس سے پہلے راوی کے اس پار بھی یہی مناظر تھے۔ کسی بھی قیمت پر ایئر پورٹ پہنچنے کی کوشش بہت ”مہنگی‘‘ پڑسکتی تھی۔ مقصد اپنے قائد (اور اس کی صاحبزادی) سے اظہارِ یک جہتی تھا اور یہ پورا ہوگیا تھا۔
ادھر باپ بیٹی نے لندن سے اڈیالہ جیل تک‘ جینوئن لیڈر کے شایان ِ شان ‘وقار اور حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ ایک موقر اخبارنے ابوظہبی میں ساڑھے آٹھ گھنٹے قیام کے دوران آخری پیش کش کا انکشاف کیا ہے‘ متحدہ عرب امارات کے سربراہ کی طرف سے سہر بمہر پیش کش تھی کہ چاہیں تو پاکستان میں حالات ٹھیک ہونے تک یہیں قیام کرسکتے ہیں‘ لیکن شکریے کے ساتھ معذرت کرلی گئی۔ (واضح رہے کہ اس اخبار کی خاتون ایڈیٹر‘ ان تین چار افراد میں تھیں ‘ جوابو ظہبی ایئر پورٹ کے کلاس ون لائونج میں بھی میاں صاحب اور مریم کے ساتھ تھے) ۔
مریم نے سہالہ ریسٹ ہائوس کی بجائے اڈیالہ جیل میں قیام کا فیصلہ کیااور بی کلاس کے لیے درخواست دینے سے بھی انکار کردیا۔ مرحوم نواب زادہ صاحب سنایا کرتے تھے کہ جیل حکام نے انہیں بی کلاس کے لیے درخواست دینے کا کہا‘تو ان کا جواب تھا‘ یہ تو سی کلاس ہے‘ یہاں اگر کوئی ڈی کلاس ہے‘ تو میں وہاں بھی رہنے کو تیار ہوں۔