وہ بہت بیمار تھیں اور اپنی تکلیف و اذیت کو دوسروں سے چھپاتی تھیں۔ جب تک ان کے بس میں رہا وہ شہر والوں کی دلداری کی خاطر تقریبات میں شرکت کرتی رہیں لیکن اب وہ بہت دنوں سے صاحب فراش تھیں۔ ان کے گھر والوں کا دل پتے کی طرح لرزتا تھا۔ بھائی، بہن، خاندان، ان کے چاہنے والے اور سب سے بڑھ کر وہ بدحال لوگ جن کی حاجت روائی وہ اس طور کرتی تھیں کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی۔ سب ہی جانتے تھے کہ ان کی صحت ان سے بے وفائی کر چکی اور اب ان کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گئیں یا شام گئیں۔ اس کے باوجود جب یہ خبر آئی تو یقین نہ آیا۔
دو دن پہلے زہرہ نگاہ صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو وہ ملول و رنجور تھیں۔ انھیں، انور مقصود ، عمرانہ مقصود کو اور مجھے دلی کا سفر ساتھ کرنا تھا لیکن یہی ذکر ہو رہا تھا کہ سفر کیسے کریں بجیا کی اب تب کی حالت ہے۔ زہرہ نگاہ اور انور مقصود دونوں اب اس فکر سے آزاد ہوئے۔ اب غم کا کوہ گراں ان کے شانوں پر آ گیا ہے جسے اٹھا کر چلنا ان کا مقدر ہے۔
ان کے خاندانی پس منظر پر نگاہ کیجیے تو فاطمہ ثریا بجیا کے بزرگ برصغیر کی اشرافیہ میں شمار کیے جاتے تھے۔ یہ خاندان ایران سے ہندوستان آیا اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوا، اس خاندان کی علمی اور معاشرتی حیثیت مثالی تھی۔ ان کا گھر انہ ثقافت کے حوالے سے معروف تھا۔ قاضی مقصود حسین کے فرزند قمر مقصود حمیدی کی شادی آگرہ کی افسر خاتون سے انجام پائی۔
دونوں خاندان شرف اور اعزاز کے حامل تھے۔ قمر مقصود حمیدی کے گھر میں ایک ننھی پری کا اضافہ ہوا۔ نانا نے بچی کا نام فاطمہ رکھا۔ نانی نے اس وقت کی افغان ملکہ ثریا کے نام پر ثریا خاتون نام رکھا۔ یوں اس بچی کو فاطمہ ثریا کہا جانے لگا۔ 1948ء میں سقوط حیدرآباد دکن کے بعد قمر مقصود حمیدی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آئے اور اپنے ساتھ ہزاروں کتابیں لائے کہ اس زمانے میں کتابیں سب سے بڑی دولت سمجھی جاتی تھیں۔
وہ ایک جمے جمائے خاندان کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ چند برس کی ایک تلخ شادی شدہ زندگی گزار کر گھر واپس آئیں تو کبھی بھولے سے بھی اس رنج و الم کا ذکر نہ کیا جسے انھوں نے صبر و ضبط سے جھیلا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی ’بجیا‘ بنیں اور پھر پورے شہر اور ملک کی ’بجیا‘ بن گئیں۔ حالات کے سبب رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکی تھیں لیکن اپنے ہنرمند ہاتھوں سے انھوں نے تعلیم کی کمی کو شکست دے دی۔
آرٹ اینڈ کرافٹ کا شعبہ ایسا تھا جس میں ان کا ثانی مشکل سے ملتا۔ آمنہ باجی (بیگم آمنہ مجید ملک) نے ان کے اندر چھپے ہوئے فنکار کو پہچانا اور انھوں نے آرٹ اینڈ کرافٹ کا شعبہ سنبھال لیا۔ لڑکیوں کے لیے وہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھیں۔ کیسی محنت اور دیدہ ریزی سے انھوں نے سیکڑوں لڑکیوں کو گڑیاں بنانی سکھائیں۔
لہریا دوپٹے رنگنا، انھیں چننا، کترنوں سے رنگ برنگ کے نظر فریب بٹوے بنانا سکھایا۔ کھانے پکانے کی، اچار، چٹنی اور مربے بنانے کی ترکیبیں انھیں اپنی ماں اور نانی سے ورثے میں ملی تھیں۔ ٹیلی وژن کے حوالے سے انھوں نے بہت نام کمایا اور نہایت کامیاب سیریلز لکھیں۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ انھوں نے اس سفر کا آغاز ایک لکھنے والی کی بجائے ایک اداکارہ کے طور پر کیا۔ اسی بات کا ذکر ٹیلی وژن کے آغا ناصر صاحب نے اپنی یاد داشتوں میں اس طرح کیا ہے کہ:
’’بجیا کا ٹیلی ویژن سے پہلا تعلق لکھنے والی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک اداکارہ کی حیثیت سے قایم ہوا۔ بجیا لاہور کے پائلٹ ٹیلی ویژن اسٹیشن کا اسٹوڈیو دیکھنے آئی تھیں۔ ان دنوں لاہور کے فن کاروں نے معاوضے میں اضافے کے لیے ہڑتال کی ہوئی تھی لیکن ٹی وی ملازم کی حیثیت سے ہم پر یہ ذمے داری تھی کہ اس ہڑتال سے پروگراموں پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔
میں اس ہفتے ایک ڈرامہ پیش کرنے والا تھا جس میں تین کردار تھے ایک شوہر ایک بیوی اور ایک ساس کا۔ شوہر اور بیوی کے کردار ادا کرنے کے لیے میں نے دو نئے افراد کا انتخاب کر لیا تھا لیکن ساس کا کردار ادا کرنے کے لیے ایک بزرگ اداکارہ کی تلاش بہت مشکل کا م تھا پھر اچانک بجیا نمودار ہوئیں۔ میں ٹی وی اسٹیشن کے ڈیوٹی روم میں بیٹھا ڈرامے کی ریکارڈنگ کروا رہا تھا کہ کسی نے آ کر کہا ’’ایک خاتون آئی ہیں اور آپ سے ملنا چاہتی ہیں‘‘ میں نے کہا بھیج دو۔ ذرا دیر بعد سفید ساڑھی میں ملبوس ایک نہایت مہربان صورت، تہذیب و تمدن کی منہ بولتی تصویر اور انتہائی باوقار خاتون کمرے میں داخل ہوئیں۔
یہ فاطمہ ثریا بجیا تھیں۔ انھوں نے آتے ہی بہت شیریں آواز اور مہذب لہجے میں کہا ’’بھیا ہم معافی چاہتے ہیں کہ بلا کسی تعین وقت اور بغیر کسی تعارف کے آپ کے کام میں حارج ہوئے دراصل ہم لاہور آئے ہوئے تھے اور آپ کا اسٹوڈیو دیکھنا چاہتے تھے۔ ’’میں نے کہا جی ضرور آپ تشریف تو رکھیں‘‘۔ وہ بیٹھ گئیں اور میں ٹکٹکی باندھے انھیں دیکھتا رہا۔ مجھے اپنے ڈرامے کے لیے ساس مل گئی تھی۔ پھر جب بجیا سے تعارف مکمل ہو گیا اور وہ آرام سے کرسی پر بیٹھ گئیں تو اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ہو گئیں وہ بے حد اچھی گفتگو کرنے والی خاتون تھیں۔
جلد ہی بے تکلفی ہو گئی تو میں حرف مدعا زبان پر لایا ’’آپ ہمارے ڈرامے میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کریں گی؟‘‘ جواب ملا نہ بھیا ہم نے یہ کام کبھی نہیں کیا ہم تو یوں ہی ٹی وی اسٹوڈیو دیکھنے آئے تھے۔ میں نے کہا ’’بیگم صاحبہ یہ کام تو ہم میں سے کسی نے بھی اس سے پہلے نہیں کیا، ہر شخص پہلی بار کر رہا ہے لہٰذا آپ بھی پہلی بار کریں‘‘۔
پھر میں نے ان سے اپنی مجبوری بیان کی، بے حد اصرار کیا کہ یہ چھوٹا سا رول ہے اور آپ کی صورت شکل اور وضع قطع کے لحاظ سے آپ کے لیے نہایت مناسب ہے آپ راضی ہو جائیں تو ہماری بڑی مشکل حل ہو جائے۔
آپ ایک بار اسکرپٹ پڑھ لیں پھر فیصلہ کیجیے گا۔ خدا جانے بجیا کو اسکرپٹ پسند آ گیا تھا یا میری مجبوری پر ترس آ گیا تھا کہ انھوں نے اسکرپٹ پڑھنے کے بعد ڈرامے میں شرکت کے لیے اپنی آمادگی کا اظہار کر دیا اور یوں آج کی اتنی بڑی ڈرامہ نگار پاکستان میں ان گنت ایوارڈ حاصل کرنے والی خاتون، جاپان کے سب سے بڑے ثقافتی شاہی اعزاز کی حقدار فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی ٹیلی ویژن کی زندگی کا آغاز اداکاری سے کیا‘‘۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان ٹیلی وژن پر حسینہ معین کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ان کے سیریل چلتے تو سڑکیں سنسان ہو جاتیں، شادی بیاہ کی تاریخیں اور وقت کا تعین کرتے ہوئے یہ خیال رکھا جاتا کہ حسینہ کے کسی ڈرامے سے ٹکراؤ نہ ہو جائے۔ ایسے زمانے میں بجیا نے بھی قلم اٹھایا اور مرحومہ اے آر خاتون کے ناولوں ’افشاں، شمع اور ’عروسہ‘ کے علاوہ وہ بعض دوسری خواتین کے ناولوں کی بھی ڈرامائی تشکیل کی۔
شادی بیاہ اور مہندی مایوں کی تقریبات کو ٹیلی وژن اسکرین پر پیش کرنے کے حوالے سے بجیا نے وہ نت نئے انداز پیش کیے کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے اور پھر خواتین میں ان تقریبات کو نقل کرنے کی ایک دوڑ شروع ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان دونوں کے درمیان چپقلش اور چشمک کا روایتی سلسلہ ہوتا لیکن ان کے درمیان جس قدر قربت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے حسینہ نے کہا کہ:
’’1973ء میں میری ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی تھی، جو میں تاحیات نہیں بھول سکتی۔ یہ پی ٹی وی ایوارڈ کی تقریب سے چند دن پہلے کی بات ہے، تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ہم ایک کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے، اس وقت بجیا نے مجھے اپنی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے اسکول کالج میں نہیں پڑھا، کتابوں سے پڑھا ہے۔
میرے پاس کوئی ڈگری، کوئی سر ٹیفکیٹ نہیں ہے، البتہ اپنے بہن بھائیوں کو پڑھایا۔ ہم چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے، مگر مل جل کر، محبتوں کے ساتھ۔ ان کی باتیں سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علم کا ایک دریا ہے، جو رواں دواں ہے۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا اور رات بیت گئی۔ اس دن میں نے بجیا کو بہت قریب سے جانا۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ بیمار تھیں تب بھی ان سے مل کر، باتیں کر کے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ بجیا تکلیف میں ہیں۔
اتنی تکلیف دہ بیماری میں بھی جہاں تقریب ہوتی، وہاں پانچ منٹ کے لیے ضرور آتیں، ہمت ہوتی تو دیر تک بیٹھی رہتیں۔ میں ان سے گاہے بگاہے ملنے جاتی لیکن جب ایک دن زبیدہ آپا نے بتایا کہ اب بجیا کسی کو پہچانتی نہیں، تو پھر میں نہیں گئی، میں انھیں اس حالت میں دیکھ نہیں سکتی تھی‘‘۔
بجیا اس عہد کی پیداوار تھیں جہاں رواداری اور دل داری کا رواج تھا۔ اس گنگا جمنی تہذیب نے فاطمہ ثریا جیسے جواہر پیدا کیے۔ وہ شائستگی اور وضع داری کا زندہ نمونہ تھیں۔ ان کی رخصت ہمارا ذاتی نقصان ہے۔