منتخب کردہ کالم

بدلتے نظریاتی چولے!! (فیض عام) سہیل وڑائچ

ریاست کا بیانیہ جس تیزی سے تبدیل ہونا چاہیے تھا وہ تو نہیں ہوا‘ البتہ سیاسی لیڈروں نے بدلتے حالات کے مطابق اپنے نظریات اور حکمت ِعملی‘ دونوں میں تبدیلیاں شروع کر دی ہیں۔ پیپلز پارٹی ‘جو ہمیشہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی رہی ہے ‘ماضی میں ہندوستان سے دوستی کی بات کرتی رہی ‘بلوچ اور دوسری چھوٹی قومیتوں کے حقوق کی بات کرتی رہی ہے ‘اب نظریاتی اعتبار سے پرواسٹیبلشمنٹ پارٹی بن چکی ہے ۔آصف زرداری اور بلاول بھٹو ‘دونوں بھارت کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کرتے ہیں ۔ کشمیریوں کے حقوق کے لیے جماعت ِاسلامی سے بھی بڑھ کر جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔اسی طرح بلوچ تحریک کے حوالے سے آصف زرداری نے جو تقریر کی ہے وہ بھی پیپلز پارٹی کی نظریاتی سمت میں تبدیلی کی نشاندہی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی نظریاتی سمت میں تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کی وجہ سے کر رہی ہے یا حالات کے جبرسے دونوں صورتوں میں یہ اس کے ماضی کے نظریات سے بالکل متضاد ہے۔
اسی طرح مسلم لیگ نون پرواسٹیبلشمنٹ دائیں بازو کی قوم پرست جماعت ہوا کرتی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ایسے لگ رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دائیں بازو سے مرکز کی طرف لا رہی ہے۔وزیراعظم نوازشریف نے ہولی کی تقریب میں جو گفتگو کی ‘وہ اسلامی جمہوری اتحاد کے ایک سابق رہنما کی تقریر کی بجائے ایک لبرل اور بائیں بازو کے سیکولر لیڈر کی تقریر لگ رہی تھی ۔ اب گزشتہ کئی سال سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسلسل
چشمک سے نون لیگ کسی بھی طرح پرواسٹیبلشمنٹ پارٹی نہیں رہی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس طرح پی پی پی کا ووٹر اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھا مگر قیادت پرواسٹیبلشمنٹ ہو گئی بالکل اسی طرح نون لیگ کے ووٹرز کی اکثریت بزنس مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور ایرانی سیاسی اصطلاح میں یہ ”بازاری‘‘ اصولاً اسٹیبلشمنٹ کی حامی ہے۔ شومئی قسمت نون لیگ کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے رویّوں سے شاکی ہے جس کی وجہ سے نون کے ووٹر اور قیادت میں واضح دوری نظر آتی ہے ۔نون لیگ مضبوط اس وقت ہوتی ہے ‘جب اس کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہت ہی اچھے ہوں جیسے 1990ء یا 2013ء میں تھے ۔ان حالات میں ان کا ووٹر بھرپور انداز میں قیادت کا ساتھ دیتا رہا ہے ۔نون لیگ کے اندر یہ نظریاتی لڑائی واضح اس وقت نظر آتی ہے جب وفاقی وزیر چوہدری نثار علی اور شہبازشریف اپنے دائیں بازو کے ووٹ بینک سے مخاطب ہو کر انہیں لبھاتے رہتے ہیں جبکہ نوازشریف دائیں بازو کی حساسیت کا احساس رکھنے کے باوجود رائٹسٹ کے دائرے سے باہر نکل کر چوکے چھکے مارتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کئی مذہبی مکاتب فکر کے لوگ ان سے اس طرح وابستہ نظر نہیں آتے جیسے ماضی میں ہوا کرتے تھے۔ اگلے انتخابات میں مسلم لیگ کو بریلوی اور شیعہ مکتب فکر کو راضی کرنے کے لئے واضح اقدامات کرنا پڑیں گے۔
تحریکِ انصاف کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے ووٹرز کی اکثریت بھی نون لیگ کی طرح مڈل کلاس اور دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہے مگر مڈل کلاس کے تاجروں کی اکثریت نون لیگ کے ساتھ ہے جبکہ مڈل کلاس کے کارپوریٹ حلقے کی اکثریت تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ کسی زمانے میں عمران خان پروطالبان اور نون لیگ کی طرح پرومذاکرات سمجھے جاتے تھے مگر اب عمران خان نے سانحہ مردان یونیورسٹی کی مذمت وزیراعظم نوازشریف سے بھی ایک دن پہلے کر دی ‘تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں پیپلز پارٹی کے بہت سے سابق ووٹر بھی ہیں جو نون لیگ اور نوازشریف کے مخالف ہیں اور شاید اسی قدرِ مشترک کی وجہ سے وہ تحریک انصاف کو ووٹ بھی دیتے ہیں تحریک انصاف بطور جماعت پرواسٹیبلشمنٹ ہے۔بھارت‘ افغانستان اور امریکہ کے بارے میں وہ ریاستی بیانیے سے مکمل اتفاق کرتی ہے۔ تحریک انصاف اس وقت عوامی مقبولیت کے عروج پر ہے اس لیے اس میں متضاد نظریات سمونے اور نظریاتی چھلانگیں لگانے کے باوجود کوئی گہرا گھائو نہیں لگتا۔ تحریک انصاف ایک بات پر متفق ہے اور وہ نون لیگ اور کرپشن کے خلاف ہونا ہے۔ تحریک انصاف کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ عمران خان پاکستان کی ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کی خواہشات کی تجسیم ہے ‘عمران خان کے نظریات اور مڈل کلاس کے نظریات میں کافی بُعد ہے مگر مڈل کلاس کی خواہشات نے عمران کی قیادت کو مضبوط بنا دیا ہے اسی لئے عمران کا کوئی نظریہ ان کے ووٹر قبول نہ بھی کریں تو ان کی مقبولیت کو فرق نہیں پڑتا۔ البتہ تحریک انصاف کو اپنے نظریاتی خول کے بارے میں آئندہ الیکشن سے پہلے واضح ہونا پڑے گا‘ پانامہ فیصلہ آنے کے بعد انہیں اپنے نظریاتی چولے کو مبہم رکھنے کی بجائے اس کے اصلی رنگ دکھانا پڑیں گے۔
جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے بھی اپنے نظریاتی فلسفے اور تنظیمی ساخت میں تبدیلیاں کی ہیں تاکہ بدلے ہوئے زمانے اور انتخابی چیلنج سے بہتر طور پر نبردآزما ہوا جا سکے۔ جماعت اسلامی نے ایک بڑی تبدیلی کے طور پر اپنے تمام کیڈرز‘ ماسوا ئے اسلامی جمعیت طلبہ کے ‘جماعت کا حصّہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ کسان بورڈ‘ لیبر ونگ‘ تنظیم اساتذہ‘ شباب ملی وغیرہ اپنی حمایت تو جماعت اسلامی کے حلقے سے لیتے ہیں وسائل بھی اسی پارٹی سے حاصل کرتے ہیں مگر بعد میں ہر کوئی اپنے علیحدہ تشخص میں کھو جاتا ہے اور جماعت اسلامی کو ان کیڈرز سے وہ مدد نہیں ملتی جو ملنی چاہیے۔ ابتدائی قدم کے طور پر خیبرپختونخوا میں شباب ملی کو ختم کر کے جماعت اسلامی یوتھ بنا دی گئی ہے اور دعوتی اجتماعات کے ذریعے اثرورسوخ والے امیدواروں کو بھی جماعت اسلامی میں شامل کیا جا رہا ہے ‘جماعت اسلامی فی الحال طے کر چکی ہے کہ اگلے الیکشن میں نون لیگ کے خلاف ہی جانا ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی اس کے مسائل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کے پی میں دوبارہ ایم ایم اے بنتی ہے یا پھر پی ٹی آئی سے ڈھیلا ڈھالا اتحاد۔
مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی دیوبند مکتب فکر کی واحد مقبول جماعت اب سب مکاتب فکر کی جماعت بننا چاہتی ہے‘ اسی لئے جمعیت علمائے اسلام کی صدسالہ کانفرنس میں مسلمانوں کی اجتماعیت کی بات کی گئی خالصتاً ایک مکتب فکر کی جماعت نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت ہر نقطہ نظر کے لوگوں کو مدعو کیا اور یوں اپنا دائرہ کار بڑھانے کی کوشش کی۔ پروطالبان نقطہ نظر کی بجائے انہوں نے دہشت گردی کی مذمت کی۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام بھی اب ایک مذہبی جماعت کی بجائے قومی سیاسی جماعت بننا چاہتی ہے۔
سیاست کے بدلتے نظریات کو انتخابی مجبوری کہیں‘ ریاستی بیانیے کی تبدیلی کا دبائو کہیں یا پھر زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش کہیں‘ ملک کی پانچوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی چولے بدل رہی ہیں اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف آئندہ انتخابات کے لئے ہے یا پھر ملک کی بہتری کے لئے ؟