منتخب کردہ کالم

برصغیر میں جنگ، امن اور تعاون … کالم جاوید حفیظ

انڈیا کا جنگی جنون آج کل عروج پر ہے۔ آزاد کشمیر میں مسافر بس پر حملہ ہی کیا کافی نہ تھا کہ اس بس کے زخمیوں کے لیے آنے والی ایمبولینس پر بھی گولے برسائے گئے۔ بھارت پاکستان دشمنی کو کراس کر کے انسانیت دشمنی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی کے اس پاگل پن کے کیا محرکات ہو سکتے ہیں۔
انڈیا کی چار اہم ریاستوں میں اگلے مارچ میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ پاکستان اپنے ہمسائے کے ساتھ امن چاہتا ہے آپ نے نوٹس کیا ہو گا کہ پاکستان کے گزشتہ دو تین عام انتخابات میں انڈیا مخالف نعرہ کسی بھی سیاسی جماعت نے نہیں لگایا لیکن انڈیا میں پاکستان کو رگیدنا ایک محبوب مشغلہ ہے اور بی جے پی اس مکروہ عمل میں سب سے آگے ہے۔ وہ پاکستان مخالف نعرے لگا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا ہے۔
بھارتی جنگی جنون کی دوسری بڑی وجہ پورے خطّے کا پولیس مین بننے کا پرانا خواب ہے۔ انڈین سٹریٹیجک سوچ میں کابل سے لے کر برما تک کا علاقہ اس کا پچھواڑہ ہے، لہٰذا اس علاقے میں اگر کوئی ملک فیصلے بھارت کی مرضی کے خلاف کرتا ہے تو اُسے ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان نے 1950ء کی دہائی میں جب مغربی دفاعی معاہدوں میں شرکت کی تو پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو برصغیر میں لے آیا ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ آج انڈیا خود امریکہ کا بڑا حلیف ہے۔ بھارت جو مرضی کرے اُسے حق حاصل ہے لیکن ہمارے خودسر ہمسائے کی سوچ کے مطابق پاکستان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سی پیک کی راہداری اپنی سرزمین سے گزرنے دے۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ مودی سرکار نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پاکستان انڈیا پر ایک وار کرے تو ہم دو وار کریں گے۔ بلکہ اب تو معاملہ اس سے بھی آگے جا چکا ہے۔ پاکستان اگر وار نہ بھی کرے تو انڈیا خود بہانہ تراش لیتا ہے جیسا کہ ہمیں پٹھان کوٹ اور اُوڑی کے واقعات میں نظر آتا ہے۔ پھر انڈیا امریکہ کی طرز پر سرجیکل سٹرائیک کے خواب دیکھتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر چند گولے برسا کر کہتا ہے کہ کامیاب سٹرائیک آزاد کشمیر کے میلوں اندر ہو گئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا میڈیا حکومت کے اس سفید جھوٹ کی تشہیر میں گورنمنٹ کا مکمل ساتھ دیتا ہے۔ اگر عام آدمی پارٹی کالیڈر کجری وال سرجیکل سٹرائیک کو مشکوک قرار دیتا ہے تو تمام انڈین میڈیا اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ پاکستانی اور انڈین میڈیا میں بہت فرق ہے مجھے یقین ہے کہ ڈان لیک جیسی سٹوری کسی صورت بھی انڈیا اخبار میں نہیں چھپ سکتی۔
انڈیا نے لائن آف کنٹرول پر جارحیت سوچ سمجھ کر کی ہے۔ پاکستانی افواج اس وقت دو محاذوں پر بیٹھی ہیں۔ کوئٹہ پشاور اور فاٹا سے پاک فوج کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ ادھر اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل اپنا عہدہ سنبھالنے کی تیاری میں ہیں۔ امریکہ کا صدر بھی اپنے آخری دنوں میں موثر نہیں رہتا۔ لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کر کے انڈیا دنیا کو الٹ سٹوری بتا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہم اسے روک رہے ہیں۔ اس طرح سے کشمیری نوجوانوں کی مزاحمت بھی پوری دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ انڈیا جارحیت کی چوتھی وجہ جو مجھے نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں یقین ہو چلا ہے کہ پاکستان سے مخاصمت کے باوجود انڈیا ترقی کر سکتا ہے اور یہ نتیجہ انہوں نے پچھلے پچیس سال میں ہونے والی ترقی سے اخذ کیا ہے۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ انڈیا پاکستان سے دشمنی کر کے نہ تیز ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی عالمی قوت بن سکتا ہے مگر اب ہمسایہ ملک کو یقین ہو چلا ہے کہ وہ اس تھیوری کو غلط ثابت کرنے کی پوزیشن میں آ گیا ہے۔
تو کیا پاک بھارت جنگ قریب ہے؟ میرا جواب نفی میں ہے ایک وجہ تو یہ ہے کہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں روایتی جنگ میں جو بھی ملک پہلے پریشر میں آئے گا وہ ایٹمی آپشن کا سنجیدگی سے سوچے گا۔ دوسری وجہ اقتصادی ہے۔ انڈیا میں اس وقت باہر سے کافی انوسٹمنٹ آ رہی ہے جیسے ہی کسی بڑی جنگ کے بادل منڈلانے لگے بیرونی سرمایہ انڈیا سے کافور ہو جائے گا۔ بڑی جنگ انڈیا کی اقتصادی ترقی کو ملیامیٹ کر دے گی۔
غربت دونوں ملکوں میں بے تحاشا ہے انڈین شرح ترقی آٹھ فیصد ہے بلکہ پاکستان میں ساڑھے چار فیصد سالانہ‘ ایک انٹرنیشنل رپورٹ کے مطابق انڈیا کی اکیس فیصد آبادی ایک اعشاریہ نو ڈالر روزانہ سے کم میں گزارہ کرتی ہے۔ انتہائی غربت میں گزر بسر کرنے والے ان افراد کی تعداد پاکستان کی ٹوٹل آبادی سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انڈیا کی شاندار اقتصادی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچے۔ دوسری طرف یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چالیس فیصد بچوں کو ناقص غذا مل رہی ہے لہذا ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہو رہی ہے۔ یقین کریں رستم زمان گاماں پہلوان وسیم اکرم فاسٹ بائولر جہانگیر خان سکوائش چیمپئن اور شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی پیدا کرنے والی دھرتی کے بچے نارمل قد کاٹھ اور ذہنی استعداد سے محروم ہیں اور اس کی وجہ ہماری سست اقتصادی ترقی اور بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اگر پاکستان نے اپنی اقتصادی کی شرح انڈیا کے برابر لانی ہے تو ہم بھی کسی بڑی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
انڈیا اور پاکستان کی آپس کی تجارت اس وقت صرف تین ارب ڈالر ہے اور یہ شرمناک حد تک کم ہے ماہرین کا خیال ہے کہ دو طرفہ تجارت آرام سے بیس ارب ڈالر تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ ذرا غور کیجئے اتنی تجارت سے کتنے لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ دونوں طرف کے صنعت کاروں اور تاجروں کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے دونوں جانب خوشحالی آ سکتی ہے انڈیا اگر پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل حل کر لے تو اس کی برآمدات کو واہگہ اور طورخم کے ذریعے کابل اور سینٹرل ایشیا کی منڈیوں تک رسائی مل سکتی ہے۔ برصغیر میں امن آ سکتا ہے۔ گولہ بارود ایک دوسرے پر برسانے کی بجائے تجارت کے ذریعے امن بہتر آپشن ہے۔
مگر مندرجہ بالا اہداف حاصل کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے کہ دونوں طرف کے لیڈر جوش کی بجائے ہوش کے ناخن لیں اپنے عوام کی بھلائی کو مقدم رکھیں۔ اگر لیڈروں کو ہوش نہ آئی تو شاید آنے والے سالوں میں نیچر ہمیں تعاون پر مجبور کرے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پچھلے دنوں لاہور میں چھانے والی سموگ انڈیا سے آئی تھی جہاں بجلی پیدا کرنے کے بہت زیادہ کوئلہ استعمال ہوتا ہے جو ماحول کو آلودہ کرتا ہے میرا خیال ہے کہ موسمی تبدیلیاں‘ ماحول کی آلودگی ایٹمی حادثات کا خطرہ ایسے عوامل ہیں جو دونوں ممالک کو بات چیت پر مجبور کریں گے۔ دونوں طرف کے ڈی جی ملٹری آپریشن ہر منگل کو ہاٹ لائن پر بات کرتے ہیں لیکن ان کی بالمشافہ ملاقات آخری مرتبہ 2013ء میں ہوئی تھی، یہ ملاقات سال میں ایک دفعہ ضروری ہے۔