برطانیہ رے برطانیہ!….حافظ محمد ادریس
برطانیہ کے کئی مرتبہ سفر کیے۔ طول و عرض میں گھومنے کا موقع ملا۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں کا سفر ہو، وہاں کے قدرتی مناظر سے بھی لطف اندوز ہوتا ہوں مگر اصل لطف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ”دیار غیر میں اپنوں‘‘ کا ساتھ مل جائے۔ ایک سفر کا حال نوک قلم پہ آگیا ہے۔ آئیے آپ بھی ذائقہ تبدیل کرلیجیے۔ آج لندن یاترا کے بعد سلاؤ میں ہوں۔ سلاؤ لندن کا مضافاتی علاقہ اور پاکستانی مسلمانوں کا مسکن ہے۔ سلاؤ میں حافظ محمد اصغر صاحب اور ان کے اہل وعیال کے ساتھ مختصر نشست ہوئی۔ حال احوال معلوم کیے اور پھر محترم حافظ صاحب فرمانے لگے کہ اگلے پروگرام کے لیے کمرِ ہمت باندھ لیں۔ افطار کا پروگرام جناب محمدحسین (گنجہ ضلع گجرات) کے گھر تھا۔ ڈاکٹر محمد عارف صاحب مسلسل رابطہ رکھے ہوئے تھے۔ محمد حسین صاحب نے سلاؤ کے ایک پوش علاقے میں بہت بڑا گھر بنا رکھا ہے۔ محل نما اس گھر کے باہر کھلا احاطہ ہے جو کئی کنالوں پر مشتمل ہے۔ محمد حسین صاحب نے بتایا کہ بھلے وقتوں میں انھوں نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر دبئی میں کاروبار کیا، جس میں اللہ نے بڑی برکت دی۔ اسی دور میں یہ مکان بن گیا۔ بعد میں کاروبار کے حالات مندے کا شکار ہوگئے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ گزارا بہت اچھا ہورہا ہے۔
محمد حسین صاحب کے ساتھ کافی پرانا تعلق ہے۔ کئی سال قبل جب ایک مرتبہ میں لندن ائیرپورٹ پر اترا تو حافظ محمد اصغر صاحب کے ساتھ محمدحسین صاحب نے میرا استقبال کیا اور محمدحسین صاحب ہی کی کار میں ہم سلاؤ آئے اور یہاں قیام کے دوران جہاں جانا ہوتا وہ اپنی گاڑی کے ساتھ حاضر وموجود ہوتے۔ ان کا گاؤں گنجہ ہمارے گاؤں سے زیادہ دور نہیں۔ موصوف اسلامی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنی دولت بھی کھلے دل سے ان پر خرچ کرتے ہیں۔ ایسے صاحبِ خیر لوگ اس امت کا اثاثہ ہیں۔ انھوں نے اپنے گاؤں میں ایک بہت اچھی مسجد اور اسلامی مرکز تعمیر کیا ہے۔ ان کے گاؤں سے گزرنے والی دو سڑکوں میں سے ایک کھاریاں جاتی ہے اور دوسری لالہ موسیٰ کی طرف۔ یہ مرکز ان دونوں سڑکوں کے کارنر میں واقع ہے۔ جب وہ مسجد کی تعمیر کرارہے تھے تو اس سڑک سے گزرتے ہوئے کئی مرتبہ ان سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اس زمانے میں ہم نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی بنیاد رکھی تھی اور جگہ جگہ صوبے بھر میں دیہاتی سکول قائم کرنے شروع کیے تھے۔ گنجہ میں بھی غزالی سکول کا افتتاح کرنے کے لیے وہاں حاضر ہونے کا موقع ملا۔
انگلینڈ میں پہلی ملاقات کے موقع پر محمد حسین صاحب نے بہت دل چسپ واقعہ سنایا تھا۔ فرمانے لگے کہ جب شروع شروع میں میں برطانیہ آیا تو بالکل لڑکپن کی عمر تھی۔ اس زمانے میں ہم سب لوگ یہاں اجنبی تھے۔ ایک نئی زندگی شروع کی تھی اور پُرمشقت محنت مزدوری کرتے تھے۔ رہایش کے لیے ایک آدھ کمرہ کرائے پر لیتے تھے اور اس میں کئی ساتھی اکٹھے رہتے تھے۔ ڈیوٹیاں مختلف شفٹوں میں ہوتیں تو ایک ہی بستر باری باری استعمال میں آتا۔ وہ ایام بڑی محنت اور تگ ودو میں گزرے۔ انھی ایام کی بات ہے کہ ایک دن میرے ایک ساتھی کے ماموں جو برطانیہ ہی میں کسی دوسرے شہر میں مقیم تھے، اس سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ جب وہ پہنچے تو ان کا بھانجا ڈیوٹی پر گیا ہوا تھا۔ میں کمرے میں موجود تھا۔ میں نے ا ن کا استقبال کیا، حال احوال معلوم کیا، جو خاطر تواضع ممکن تھی اس کا اہتمام کیا۔ بڑے خوشگوار ماحول میں باہمی تعارف بھی ہوا۔ میں نے اپنا نام بتایا۔ انھوں نے پوچھا کہ پاکستان میں میرا کہاں سے تعلق ہے؟ تو میں نے مختصر جواب دیا جی میرا تعلق گنجہ سے ہے۔
اتفاق یا سوئے اتفاق کہ وہ مہمان سر سے بالکل گنجے تھے، غالباً انھوں نے کبھی سنا بھی نہیں ہوگا کہ گنجہ نام کاکوئی گاؤں ہے۔ وہ تھے بھی بٹ صاحب، ان کا سرخ چہرہ اور لال ہوگیا۔ وہ سمجھے کہ میں نے ان کا مذاق اڑایا ہے۔ مجھ پر بے تحاشا برسنے لگے کہ تمھیں بڑوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا حضور واقعی میرے گاؤں کا نام گنجہ ہے۔ اس پر وہ مزید غصے میںآگئے۔ آخر مجھے جان چھڑانے کے لیے ایک تجویز سوجھی۔ اسی روز مجھے گھر سے خط آیا تھا اور اس زمانے میں رابطے کی صورت خطوط ہی ہوا کرتے تھے۔ ٹیلی فون کی سہولت آسان نہیں تھی اور گاؤں میں ٹیلی فون تھا بھی نہیں۔ میں نے خط اٹھایا اور بڑے ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ اس پر میرے گھر کا پتا لکھا تھا۔ پتا پڑھ کر ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور انھوں نے اپنے غصے اور ڈانٹ ڈپٹ پر مجھ سے معذرت کی۔ محمد حسین صاحب جب بھی ملتے ہیں، ان سے اپنی پہلی ملاقات اور یہ واقعہ یاد آجاتا ہے۔
آج یہاں محمدحسین صاحب کے گھر پر بہت سے پرانے احباب سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر محمد عارف صاحب نے پورا پروگرام مرتب کیا تھا جب کہ محمد عارف صاحب آف سانتل ضلع گجرات، افطاری کا سامان فراہم کرنے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مصروف تھے۔ عمر حیات وڑائچ اور ان کے بیٹے شوکت، نیز مدثر اقبال، ندیم صفدر، محمد آصف تارڑ اور راجہ انثار بھی متحرک تھے۔ کئی نئے احباب بھی افطار پر مدعو کیے گئے تھے۔ یہاں ڈاکٹر عارف صاحب نے گفتگو کا موضوع ماہِ رمضان اور اس کے فضائل رکھا ہوا تھا۔ مختصر گفتگو کے بعد سوال وجواب کی نشست ہوئی تو معلوم ہوا کہ لوگوں کو رمضان اور اس کے فضائل پہلے ہی سے معلوم تھے۔ انھیں پاکستان اور عالمی حالات اور مختلف جگہوں پر ابھرتی ہوئی تحریکوں کے حوالے سے کچھ جاننے کی پیاس تھی۔ سبھی احباب نے بہت اچھے اور دل چسپ سوال کیے۔ سوال وجواب کی محفل بہت پرلطف رہی۔ کچھ نوجوانوں نے اپنے مقامی حالات کے بارے میں بھی بہت اچھا تجزیاتی اور معلوماتی لوازمہ فراہم کیا۔ بہت سارے نوجوان تعلیم کے مدارج طے کرنے کے بعد نمایاں مناصب پر فائز ہیں۔ ان مناصب میں پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر دونوں میدانوں میں مسلمان نوجوان آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب یہاں ہمارے لوگوں کی تیسری اور چوتھی نسل چل رہی ہے جو آغاز میں آنے والے لوگوں سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ اور اچھے مناصب پر فائز ہے۔
ہمارے گاؤں کے قریب ایک گاؤں اتّووالہ کے ایک نوجوان چودھری محمد حسین سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ اسی طرح چودھری عمر حیات وڑائچ کے بیٹے سے بھی ملاقات ہوئی، جو بہت فعال نوجوان ہے۔ ان دونوں نوجوانوں نے بہت اچھی تجاویز بھی دیں جن کے ذریعے اسلامی تحریکوں کا کام آگے بڑھ سکتا ہے۔ افطار اور نماز مغرب محمد حسین صاحب کے گھر ادا کرنے کے بعد ہم لوگ سلاؤ مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مسجد کے خطیب اور امام مولانا عبدالجبار کا تعلق ملہووالی ضلع اٹک سے ہے اور وہ مولانا عبدالمالک آف ملہووالی کے بھائی ہیں۔ سلاؤ مسجد میں پہنچے تو کئی نمازی آگے بڑھ کر ملے۔ مجھے تو یاد نہیں تھا مگر انھوںنے ماضی میں ہونے والی ان ملاقاتوں کا تذکرہ کیا اور پرانی مسجد میں ہونے والے بعض پروگراموں کے حوالے سے اپنی یادیں پیش فرمائیں۔ بعض اوقات کئی دوست سالہاسال پرانے کسی پروگرام کے حوالے سے جب پورے واقعات بیان کرتے ہیں تو ان کی یادداشت پر رشک آتا ہے اور ان کی اسلام سے وابستگی پر خوشی ہوتی ہے۔ یہاں بھی ایسے ہی بہت سے احباب ملے۔ سلاؤ کی موجودہ مسجد عرب حضرات کے تعاون سے تعمیر ہوئی ہے اور بہت بڑی اور خوب صورت مساجد میں سے ہے۔
حافظ محمد اصغر صاحب کے پوتے حافظ اسماعیل ہارون بالکل نوعمر ہیں۔ انھوں نے نماز تراویح میں بہت اچھے انداز میں عربی لہجے میں قرآن مجید کی تلاوت کی۔ حافظ اسماعیل نے قرآن پاک عرب امارات میں یاد کیا ہے، جہاں ہارون صاحب بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں۔ نماز تراویح کے بعد حافظ اصغر صاحب کی فرمایش پر مختصر وقت میں خلاصہ مضامین پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مسجد میں بہت سے عرب دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سے پہلے کوئی تعارف نہیں تھا۔ ایک عرب دوست کا تعلق الجزائر سے جب کہ ایک دوسرے دوست کا تیونس سے تعلق تھا۔ ان دونوں ملکوں کے حالات پر بھی تبادلۂ خیال ہوا۔ تیونس میں اسلامی انقلاب اور تبدیلی کے حوالے سے تیونسی بھائی یقین کی حد تک پرامید تھے۔ بعد کے حالات وواقعات نے ثابت کردیا کہ تیونس کے مسلمان طویل عرصہ تک اسلام دشمن حکمرانوں کے جبرومظالم کے باوجود خود کو اسلام سے وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بہت خوش آیند اور حوصلہ افزا بات ہے۔ اللہ تعالیٰ تیونس کی طرح دیگر ممالک میں بھی دینِ حق کے غلبے کی صورت پیدا فرمائے۔ نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کافی رات بیت چکی تھی۔ زندگی کا ایک دن اور گھٹ گیا اور منزل مزید قریب آگئی۔ اللہ ایمان و عافیت کے ساتھ ہر کلمہ گو کو منزل کی تیاری کی توفیق بخشے۔