برطانیہ کی سردی اور ایمان کی حرارت… (قسط اوّل)….نسیم احمد باجوہ
اقبال کی شاعری کے پہلے مجموعہ (بانگ درا) کی آخری نظم (نمبر308) کا پہلا شعر آج کے کالم کے عنوان کا آخری حصہ بنا۔ ؎
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پُرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
یہ شعر کیوں لکھا گیا؟ اس کی غرض و غایت اور سیاق و سباق کیا ہے؟ مختصر بیان کرتا ہوں۔ ذرا ہمت کرکے پڑھ لیں اور اگر آپ یہ وضاحت نہیں جانتے تو اپنے علم میں اضافہ کرنے کا یہ اچھا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
اٹھارہویں صدی میں سکھوں نے لاہور میں اپنے اُن شہدا کی یاد میں ایک نئی عبادت گاہ (گوردوارہ) تعمیر کیا جنہوں نے بندہ سنگھ بہادر کی قیادت میں سکھوں کی مُغلیہ سلطنت کے خلاف بغاوت میں اپنی جان کی قربانی دی تھی۔ ایک دُوسری روایت کے مطابق گوردوارہ شہید گنج اُس جگہ بنایا گیا‘ جہاں جتھے دار (کمانڈر) مالا سنگھ1764ء میں زین خان کے خلاف لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔ تیسری روایت کے مطابق معین الملک (1748-53ء میں گورنر لاہور) نے مسجد کے ڈیزائن کے اس مقام پر ایک عمارت تعمیر کی تھی جہاں مفتی (جج) صاحبان مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے اور عدالتی کارروائی کے خاتمہ پر سزا پانے والے سکھ ملزموں کو یہ رعایت دیتے تھے کہ اُنہیں سزائے موت سے صرف ایک صورت میں معافی مل سکتی ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔
اٹھارہویں صدی کے چھٹے عشرہ میں (یعنی1760ء کے بعد) جب پنجاب میں سکھوں کی حکومت قائم ہوئی تو اُنہوں نے اس مقام پر شہید گنج کے نام سے اک نیا گوردوارہ بنایا۔ اُس وقت سے لے کر 1927ء تک (برطانوی راج کے دوران) سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان اس مقدس مقام کی ملکیت کے بارے میں چپقلش اور کشمکش جاری رہی۔ تقریباً 165 سال بعد 1935ء میں برطانوی راج کی پنجاب حکومت نے اس طویل جھگڑے کو یوں نمٹایا کہ یہ عمارت سکھوں کے حوالے کر دی‘ جنہوں نے وہاں مسجد سے ملتی جلتی عمارت کو گرا کر گوردوارہ بنانا شروع کر دیا۔ یہ کام دن رات ہو رہا تھا‘ جب ڈپٹی کمشنر لاہور نے حکم امتناعی جاری کرکے اس کام کو روک دیا۔ یہ حکم جاری کرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ مسلمانوں نے 30 اکتوبر 1935ء کو اس جگہ کا قانونی قبضہ حاصل کرنے کی خاطر نئی عدالتی کارروائی شروع کی اور اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کیلئے اس مقام پر راتوں رات ایک چھوٹی سی مسجد بھی تعمیر کر لی۔ مذکورہ بالا واقعہ نے اقبال سے چار اشعار کی نظم لکھوائی۔ لاہور ہائیکورٹ نے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ سُنایا اور لاہور میں شہید گنج کے مقام پر سکھوں کا نیا گوردوارہ بن گیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی وہ بالکل صحیح سلامت ہے اور ایک بھولی بسری داستان کا حصہ ہے۔
آپ کو بمشکل یقین آئے گا کہ 1812ء تک (صرف 206 سال پہلے) برطانیہ میں کسی شہری کو مسلمان ہونے کی اجازت نہ تھی۔ اسلام قبول کرنا غیر قانونی تھا۔ یہ تھا صلیبی جنگوں (اور مسیحی حملہ آوروں کی شکست) کا شاخسانہ۔ مگر اس قانونی پابندی کے باوجود برطانیہ میں دُوسرے ممالک کے مسلمانوں کی آمد اور غیرملکی مسلمانوں کے برطانیہ میں قیام کا سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری رہا۔ انہوں نے اپنی عبادت گاہیں بھی بنائیں‘ جن کے لئے برطانوی مورخین Zawiyahs کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ برطانیہ میں پہلی مسجد لندن کی جنوب مغربی کائونٹی Surrey میں 1899ء میں ووکنگ کے مقام پر تعمیر کی گئی اور اس کا سہرا ایک انگریزDoctor Leitner کے سر باندھا جاتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کے لئے یہ فرشتہ صفت شخص ہاتھ میں کشکول پکڑ کر ہندوستان بھر میں دربدر پھرا۔ وسطی ہندوستان کی ایک ریاست بھوپال کی ملکہ (اور فرمانروا) شاہ جہاں بیگم کا اللہ بھلا کرے کہ اُس نے سارے اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش کرکے موصوف کو ہندوستان میں مزید دھکے کھانے سے بچا لیا۔ اُن کے جانشین نواب آف بھوپال (سر حمیداللہ خان) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے برسہا برس اقبال کی مالی سرپرستی کی اور کئی بار اُن کو بھوپال بلا کر شرفِ میزبانی حاصل کیا۔ اقبال کے تیسرے مجموعۂ کلام (ضربِ کلیم) کی پہلی نظم فرمانروائے بھوپال کو مخاطب کرکے لکھی گئی اور اُن کی خدمت میں پیش کی گئی۔ فارسی میں تین اشعار کی نظم اور کمال کی تعریفی نظم۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ حال ہی میں برطانیہ میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ایک عجیب و غریب چیز برآمد ہوئی۔ یہ تھا ایک سکہ جو آٹھویں صدی میں برطانیہ کے ایک بڑے حصہ پر حکومت کرنے والے بادشاہ Offa کے دور کا تھا اور اُس پر عربی زبان میں مسلمانوں کا پہلا کلمہ کندہ تھا۔ Doc Leitner کو مطلوبہ رقم تو مل گئی مگر مسجد کا ڈیزائن کیسے بنایا جائے؟ اُنہوں نے برٹش لائبریری میں کئی ماہ گزارے۔ خود تحقیق کی اور آپ یہ پڑھ کر خوش ہوں گے کہ انہوں نے اسلامی طرزِ تعمیر سے سو فیصدی مطابقت رکھتی ہوئی (گنبد و مینار اور محراب و منبر سے آراستہ) مسجد اپنی زندگی میں بنتی اور مکمل ہوتی دیکھ لی۔ جب اُنہوں نے 1899ء میں وفات پائی تو اُس وقت مسجد میں نہ کوئی نمازی تھا اور نہ کوئی امام۔ یہ تاریخی مرحلہ 1913ء میں طے پایا۔ پہلے امام کا نام خواجہ کمال الدین تھا۔ 1917ء میں قرآن مجید کا پہلا انگریزی ترجمہ برطانیہ میں چھپ کر فروخت ہوا تو انگریزوں کا اسلام سے پہلا باقاعدہ تعارف ہوا۔ ہم مڑ کر دیکھیں تو ہمیں سنگ میل پر ایک نام ستاروں کی طرح روشن اور چمکتا دمکتا نظر آتا ہے اور وہ ہے برطانوی اشرافیہ کے ایک رُکن Headley Lord کا۔ نہ صرف اُنہوں نے خود اسلام قبول کیا بلکہ برٹش مسلم سوسائٹی کے نام سے ایک بااثر انجمن بنائی (جس کے وہ تاحیات صدر رہے) وہ جولائی 1923ء میں حج کرکے واپس آئے تو اپنا سرکاری نام رکھا:Al Haj Lord Headley Al-Farooq اُنہوں نے اور سید امیر علی (جنہوں نے غالباً قرآن پاک کا انگریزی میں پہلا ترجمہ کیا اور کمال کی ایک کتاب لکھی) نے مل کر لندن مسجد فنڈ کے لئے رقم اکٹھی کرنی شروع کی۔ 31 سال بعد مشرقی لندن میں کمرشل روڈ پر پہلی مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ میرے لندن آفس کے اتنے قریب ہے کہ وہاں کی انتظامیہ (جو پوری کی پوری بنگلہ دیشی بھائیوں پر مشتمل ہے) کو جب کبھی زیادہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کالم نگار (جو بدقسمتی سے وہاں نماز پڑھنے کی سعادت سے بدستور محروم ہے) کو سعودی سفارت خانہ ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ میں ان کی وکالت کا خوشگوار فریضہ خوش اسلوبی سے ادا کر سکوں۔ 1944ء میں مصر کی حکومت نے Anglican مسلک کے مسیحی لوگوں کو قاہرہ میں اپنا گرجا گھر بنانے کے لئے زمین بطور عطیہ میں دی تو اُس کا برطانوی حکومت نے یوں شکریہ ادا کیا کہ لندن کے دل (Regents Parks) میں مسجد کی تعمیر کے لئے بیش قیمت زمین بطور عطیہ دے دی۔ تعمیر کے اخراجات سعودی عرب کی حکومت نے برداشت کئے اور مسجد کے نظم و نسق کی ذمہ داری سنبھال لی۔ مذکورہ مسجد تعمیراتی حسن سے اس قدر مالامال ہے کہ جب غیر ملکی سیاح لندن کی سیر کے دوران قابل دید مقامات دیکھتے ہیں تو ریجنٹ پارک کی جامع مسجد کو بھی دیکھنے جاتے ہیں۔ وہ عش عش کی آواز نہ بھی نکالیں‘ ان کی آنکھوں میں حیرت اور خوشی کا امتزاج نظر آتا ہے۔
ریجنٹ پارک میں مذکورہ بالا مسجد دہلی کی جامع مسجد یا لاہور کی شاہی مسجد یا استنبول کی نیلی مسجد کا تو ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی مگر ووکنگ میں بنائی گئی پہلی مسجد سے کئی گنا زیادہ عالی شان ہے۔ نماز جمعہ‘ ماہ رمضان میں نماز تراویح اور دونوں عیدوں کی نمازوں کی ادائیگی کے لئے کھچاکھچ بھری ہوتی ہے‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ لندن کی سردی ایمان کی حرارت پر غالب نہیں آ سکتی۔ یہ تو تھا لندن میں رہنے والے مسلمانوں کا تذکرہ۔ اقبال کو ایک بار سردیوں میں برطانیہ آنا پڑا تو اُنہوں نے ایک بڑی اچھی نظم لکھ کر اپنے مداحوں کو یہ راز کی بات بتائی کہ زمستان (یعنی سردیوں) کے باوجود لندن میں اُن سے آداب سحر گاہی نہ چھوٹے۔ راتوں رات مسجد بنا دینے والے لاہوری مسلمانوں کے من تو پُرانے پاپی ہو سکتے ہیں‘ مگر اقبال سر بسجود ہوتے تھے تو زمین سے یہ آواز کبھی نہ آتی تھی کہ تیرا دل صنم آشنا ہے۔ تجھے نماز میں کیا ملے گا؟ اُنہیں خشوع و خضوع سے پڑھی جانے والی نماز سے سب کچھ مل جاتا ہو گا۔