برلن، لاہور اور ہماری گلی…وجاہت مسعود
پانسہ پھینکا جا چکا ہے۔ صف بندی ہو چکی۔ ٹھیک دس برس پہلے 18 اگست 2008ء کے فوراََ بعد جو بساط بچھائی گئی تھی، اس کے مہرے چال در چال اپنی جگہ بدلتے اب وہاں پہنچ چکے، جہاں کوئی چاہے بھی تو بازی پلٹنا مشکل ہے۔ 1984ء میں یوسف کامران کی موت پر جاوید شاہین نے ایک نظم لکھی تھی، آخری دو مصرعوں میں نشتر رکھ دیا تھا۔ ’میں اگر دشت بلا ہی کو الٹنا چاہوں، کون روکے گا مجھے گھر جو پلٹنا چاہوں‘؟ لمحہ موجود میں دشت بلا ہی کو الٹنے اور گھر کو پلٹنے کا امکان کم رہ گیا ہے۔ آغا حشر کے مکالمے میں سوال کیا گیا ’رفیق کس حال میں ہے؟‘جواب آیا، ‘‘شیر لوہے کے جال میں ہے۔‘‘ تو گویا طے ہو گیا کہ اب وہی ہو گا جو شیر چاہے گا۔ مشکل مگر یہ ہے کہ ابر سیاہ میں لپٹی اس رات میں جاننا مشکل ہے کہ شیر سلاخوں کے کس طرف ہے اگرچہ فیض نے سنگ و خشت کے مقید ہونے کی خبر دے کر اس کا کچھ اشارہ ضرور دیا تھا۔ عام انتخابات میں اب چند گھنٹے باقی ہیں۔ کھرے کھوٹے کا سب احوال کھل جائے گا ’’حلقوں میں‘‘۔ اس میں حلقہ زنجیر کو شامل سمجھئے۔
ایسا ہی کوئی مرحلہ درپیش تھا جب مرحوم علی افتخار جعفری نے لکھا، اولیں چال سے آگے نہیں سوچا میں نے/ زیست شطرنج کی بازی تھی سو میں ہار گیا۔ شاعر جب زیست کی بازی ہارنے کا ملال بیان کرتا ہے تو ظرف کہہ کے مظروف مراد لیتا ہے۔ قطرے
میں دجلہ دیکھتا ہے۔ تو چلیے ایون فیلڈ کی جائیداد، ایفی ڈرین کی روداد اور انصاف کی بے داد کو ایک طرف رکھ کے کچھ فضا ، کچھ حسرت پرواز کی باتیں کریں…
کرسٹوفر ایشروڈ ڈربی شائر کے مضافات میں 1904میں پیدا ہوا۔ عجب وارفتہ روح تھی۔ گھر والوں کو بتائے بغیر کیمبرج کا امتحان ادھورا چھوڑ دیا۔ جنسی میلانات بھی انحراف کی طرف مائل تھے۔ نظمیں اور کہانیاں لکھتا تھا، ڈبلیو ایچ آڈن سے دوستی تھی۔ 1930میں برلن چلا گیا۔ اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں؟ پہلی عالمی جنگ کے شکست خوردہ جرمنی میں حالات دگرگوں تھے۔ یورپ کی سب سے تعلیم یافتہ اور صنعتی دنیا میں رہنما قوم جرمنی دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ ایک حصہ جنگجو تھا، جمہوریت پہ تین حرف بھیجتا تھا، مسیحا کے انتظار میں تھا، سیاست دانوں کو بدعنوان کہتا تھا۔ اپنے ملک میں ایک چھوٹی سی مذہبی اقلیت کے خون کا پیاسا تھا۔ خط تقسیم کے دوسری طرف سادھارن لوگوں کا ایک بڑا طبقہ تھا۔ ان میں آئن اسٹائن اور فرائیڈ تھے، تھامس مان اور حنا آرڈنٹ تھے، مغربی محاذ کی خاموشی بیان کرنے والا ناول نگار ایرخ ریمارک تھا، یہ لوگ دھینگا مشتی کرنے سے قاصر تھے نیز گالی دشنام میں مہارت نہیں رکھتے تھے۔ تاریخ میں ہوتا آیا ہے کہ عصبیت کا جوش عقل کی سرگوشی پر غالب آ جاتا ہے۔ لمحہ موجود کا خواب فردا کی خبر رکھنے والے ضمیر کو پچھاڑ دیتا ہے۔
جرمنی میں فسطائیت اور جمہوریت کی لڑائی کے بالکل متوازی کجروی، انحطاط اور جرم کی ایک دنیا پھل پھول رہی تھی۔ سچ پوچھئے تو جمہوریت اور فسطائی مسیحا میں زورآزمائی جرم اور انصاف میں کشمکش ہی کی کہانی ہے۔ علی عثمان قاسمی کی ایک مختصر تحریر اسی ہفتے ایک موقر انگریزی روزنامے میں شائع ہوئی ہے، ’’پاکستان میں فسطائیت کی جھلک‘‘۔ اگر مل سکے تو ضرور پڑھئے۔ کرسٹوفر ایشروڈ تین برس جرمنی میں قیام سے چھ مربوط کہانیوں کا ایک مسودہ واپس لایا۔ یہ کہانیاں ایک ناولٹ کی شکل میں 1939 میں گڈ بائے ٹو برلن کے عنوان سے شائع ہوئیں۔ (اردو ترجمہ:محمد حسن عسکری، آخری سلام)۔ 1971 میں کیبرے (Cabaret) کے ٹائٹل سے ایک نہایت خوبصورت فلم اس ناول پر بنی تھی۔
جنوری 1933 کے جرمن انتخابات میں کوئی جماعت فیصلہ کن اکثریت نہ لے سکی البتہ فسطائیت کے نقیب ایڈولف ہٹلر کو سب سے زیادہ نشستیں ملیں۔ مخلوط حکومت بنانے کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو مرنجاں مرنج چانسلر فان پاین نے بوڑھے صدر فیلڈ مارشل ہنڈن برگ کو مشورہ دیا کہ سیاسی ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے ہٹلر کو چانسلر بنا دیا جائے۔ ایڈولف ہٹلر نے چانسلر بنتے ہی پارلیمنٹ تحلیل کر دی، نئے انتخابات کا اعلان کر دیا، پارلیمنٹ کی بلڈنگ کو آگ لگ گئی، حزب اختلاف پر الزام رکھ کے رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ پھر بھی اکثریت نہیں مل سکی تو 1933کا Act Enabling منظور کروایا جس میں ہٹلر کو چار برس کے لیے اختیار تھا کہ پارلیمنٹ کی مداخلت کے بغیر کوئی بھی قانون سازی کر سکے۔ گویا پارلیمنٹ عضو معطل بن گئی۔ اس کے بعد بارہ برس تک جو کھیل کھیلا گیا، وہ جرمنی ہی نہیں، یورپ کی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں چھ کروڑ انسان مارے گئے۔ بربادی کی دوسری صورتوں کا کوئی تخمینہ ممکن نہیں۔
جنگ ختم ہوئی تو برطانوی ہند میں بھی ایک آئینی بحران اپنے اختتامی مراحل میں تھا۔ برطانیہ نے 1940 ہی میں اعلان کر دیا تھا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں دستورساز انتخابات ہوں گے۔ دستور ساز اسمبلی کو ہندوستان کے لیے آزادی کا منصب طے کرنے کا اختیار بھی دیا جائے گا۔ گویا عملی طور پر ہندوستان میں برطانوی راج کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا تھا، آزادی کی جنگ جیتی جا چکی تھی، اس کے بعد ہندوستان کے اپنے سیاست دانوں کو ایک آئینی سمجھوتے پر پہنچنا تھا۔ 1946 میں یہ امید ختم ہو گئی، ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ اس تقسیم کے ساتھ ہی فسادات اور نقل مکانی کا خون آشام سلسلہ شروع ہوا۔ جب گرد کچھ بیٹھی تو 1950میں لیاقت علی خان اور پنڈت نہرو نے دلی میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ دونوں حکومتوں نے اپنی اقلیتوں کے تحفظ اور مساوی حقوق کی ضمانت دی تھی۔ پاکستان میں تاریخ کے کتنے طالب علموں نے آدھے صفحے کی یہ دستاویز پڑھی ہے؟ اسے بھی چھوڑئیے۔ 1949میں ایم ایل آنند نے ’’لاہور‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی تھی اس میں نرگس اور اوم پرکاش نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ لاہور کے ایک پریمی جوڑے کی کہانی تھی، پریمی دلی پہنچ گیا اور گھائل ہرنی لاہور میں کہیں گم ہو گئی۔ شاید ایسے ہی جیسے منٹو والے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بیٹی ‘‘ہاں… وہ بھی… ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی۔’’ زمین تقسیم ہوتی ہے تو محبت کرنے والوں میں دیوار کھنچ جاتی ہے۔ کوئی ادھر رہ جاتا ہے، کوئی ادھر چلا جاتا ہے۔
خواجہ منظور حسین دلی کے کوچہ چیلاں کے رہنے والے تھے، تقسیم کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ انگریزی کے استاد خواجہ منظور حسین کو اپنے داخلی جواربھاٹے پر بلا کا ضبط تھا لیکن کوئی پوچھتا کہ خواجہ صاحب کہاں کے رہنے والے ہیں تو جواب دیتے، “ہماری گلی” سے آئے ہیں۔ “ہماری گلی” پروفیسر احمد علی کا بہت بڑا افسانہ تھا۔ احمد علی کا قوام مشرق اور مغرب کے دو دھاروں کا سنگم تھا۔ تو دیکھیے لاہور میں خواجہ منظور کو ہماری گلی نہیں بھولی، ڈال سے ٹوٹ کر دلی میں گرنے والے پریمی کو لاہور کا گول باغ نہیں بھولا، 60 کی دہائی میں یورپ کے کسی بھی کلب میںIn the Streets of Berlin بجتا تو رقص کرتے جرمن جوڑوں کے قدم اچانک رک جاتے اور وہ جہاں تہاں ڈھے جاتے تھے، انہیں زمین پکارتی تھی، زمین کے بلاوے پر بروقت جواب دینا ضروری ہوتا ہے ورنہ برلن، لاہور اور ہماری گلی کے خواب پیچھے رہ جاتے ہیں۔ برلن والوں نے 1933 میں ٹھیک سے غور نہیں کیا کہ بویریا کا کارپورل کیا قیامت ڈھائے گیا۔ پنڈت نہرو نے کابینہ پلان کے بعد پریس کانفرنس میں صرف ایک غیر محتاط جملہ بولا تھا۔ 29 جولائی 1946 ء کو راست اقدام کا اعلان کرنے والوں نے کلکتہ اور امرتسر میں بہتے آگ اور خون کے دریا کا تصور نہیں کیا تھا۔ زمین کے بلاوے پر بروقت اور درست جواب نہ دینے کی قیمت چکانا پڑتی ہے اگرچہ اب پانسہ پھینکا جا چکا ہے اور شیر لوہے کے جال میں ہے۔