برہان وانی کی شہادت پر انڈیا ایکسپریس نے لکھا:With the death of Burhan Wani a new icon of Kashmir “militancy” is born. لفظ militancyکی بجائے اگر ہم لفظ freedom استعمال کریں تو یہ ہمارے اور کشمیریوں کے جذبات کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ آج برہان وانی تحریک آزادی کشمیر کا ایک نیا چہرہ ہے۔ 22 سالہ برہان وانی شہید اس وقت کشمیر کی حریت و آزادی کا ایک نیا استعارہ ہے۔ ایک اور انڈین اخبار نے لکھا کہ ”آج اپنی قبر سے برہان وانی جس طرح کشمیریوں کو تحریک دے رہا ہے، شاید وہ زندہ رہ کر ایسے نہ کر سکتا‘‘۔
حریت اور آزادی کی خاطر اس نوجوان کی شہادت نے جس طرح کشمیریوں میں ایک بار پھر سے آزادی کی خواہش بھڑکا دی ہے ‘ پوری دنیا کا میڈیا اس پر تبصرے کر رہا ہے اور حیران ہے کہ کیسے یہ سب اچانک ہو گیا ‘ مگر برہان کی زندگی پر نگاہ دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ نوجوان تو اپنے لڑکپن سے ہی‘ جب اس نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا یعنی صرف 15برس کی عمر میں اپنے گھر کے آرام اور سکون کو چھوڑ دیا اور ان راستوں کا مسافر بن گیا جو پتھریلے اور مشکل ہیں۔ اسے یقین تھا کہ یہی وہ راستہ ہے جو بالآخر ایک دن کشمیریوں کو صبح آزادی کی طرف لے جائے گا۔ برہان کا تعلق اسی نسل سے تھا جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی
دیوانی ہے مگر اس مجاہد نے انٹرنیٹ کو کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لیے استعمال کیا۔ وہ فیس بک پر ایسی وڈیوزاپ لوڈ کرتا جن سے بھارتی فورسز کے ہولناک چہرے بے نقاب ہوتے۔ وہ پیغام دیتا کہ کشمیری نوجوان تحریک آزادی کا حصہ بنیں‘ بھارتی مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس ذہین مجاہد نے سوشل میڈیا کو استعمال کر کے دنیا کو بھی بھارتی مظالم سے آگاہ کیا۔ اس وقت بھی مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیشنل میڈیا پر پابندی ہے۔ غیر جانبدار میڈیا مقبوضہ وادی کے لوگوں پر ہونے والے جبر کی صحیح اور سچی عکاسی کرنے سے قاصر ہے، لیکن برہان وانی نے پوری دنیا کو جبر اور ستم کی کہانی سنائی۔ 8جولائی2016ء کو جب ایک جھڑپ میں بھارتی فورسز نے بے دردی سے اس مجاہد کو شہید کیا‘ اس وقت تک پاکستانی میڈیا بھی اس کو نہیں جانتا تھا۔ اس کی شہادت نے جس طرح وادی میں ایک نئی تحریک کا آغاز کیا‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ برہان وانی اپنے فیس بک پیغام سے ان گنت لوگوں کو متاثر کر رہا تھا۔ اپنے بڑے بھائی خالد وانی کا بھارتی فورسز کے ہاتھوں اندوہناک قتل‘ برہان کے لیے ایک ایسا واقعہ ثابت ہوا جس نے اس کی زندگی بدل ڈالی اور وہ
تحریک آزادی کشمیر کا سپاہی بن گیا۔ وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والا کشمیری مجاہد تھا اور اسے وقت رخصت پاکستان کے سبز ہالی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا گیا۔اس وقت مقبوضہ کشمیرکے عوام کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش اور پاکستان سے والہانہ محبت عروج پر ہے اور وہ جان کی پروا کیے بغیر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ آج سری نگر کا سب سے بڑا ہسپتال بھارتی بربریت کا شکار ہونے والے نوجوان کشمیریوں سے بھرا پڑا ہے۔ پاکستان کا نام لینے پر ان کی آنکھوں میں فائر کر کے بھارتی درندوں نے انہیں نابینا کر دیا، دوسری جانب پاکستان میں کشمیر کاز کو جس غیر سنجیدگی سے لیا گیا یہ مجاہدین کے جذبہ آزادی کے ساتھ ایک مذاق ہے۔
اندازہ لگائیے کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن ہیں جو اپنے مفاد کی سیاست کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ‘ان کے پاس کشمیر کاز پر اجلاس بلانے کا وقت نہیں۔ اسی لیے تو انہوں نے 2013ء سے اب تک یعنی تین برسوں میں صرف تین اجلاس طلب کیے۔ کشمیر کمیٹی جو نیشنل اسمبلی کی 32 قائمہ کمیٹیوں میں سب سے زیادہ بجٹ لینے والی کمیٹی ہے‘ زیادہ تر اپنا کام مذمتی بیانات سے چلاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس کمیٹی کے چیئرمین بن کر وفاقی وزیر کی تنخواہ اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ انہیں اسلام آباد میں سرکاری گھر بھی اسی کھاتے میں ملا ہوا ہے۔ چھ کروڑ کا بجٹ اور لاکھوں کی تنخواہیں لینے والی کشمیر کمیٹی کو جو کام بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کے لیے کرنا چاہیے تھا وہ اس میں بری طرح ناکام ہیں ۔کشمیر کا مسئلہ یو این او میں موجود ہے‘ بین الاقوامی فورم پر دنیا کے دوسرے اہم ملکوں کو اس کاز پر پاکستان کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے جو لابنگ کرنا چاہیے‘ کیا مولانا فضل الرحمن یہ کام کر سکتے ہیں؟ وہ انگریزی زبان نہیں جانتے جبکہ انٹرنیشنل فورم پر بات کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو انگریزی بول چال میں مہارت رکھتا ہو اور دنیا کے سامنے کشمیر کے موقف کو سلیقے اور متاثر کن انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ مولانا فضل الرحمن ان خصوصیات سے بالکل عاری ہیں ۔ ہاں‘ ملکی سیاست کے پیچ و خم وہ خوب جانتے ہیں اور اس میں انہوں نے کبھی مات نہیں کھائی۔ مجھے تو حیرت ہے کہ کشمیر کاز کے ساتھ اتنا بڑا مذاق کیوں ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اگر کشمیریوں کے ساتھ مخلص ہیں تو فوراً کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کو تبدیل کریں اور کسی قابل شخص کو اس کا سربراہ مقرر کریں کیونکہ یہ معاملہ انٹرنیشنل فورم پر اُٹھانے اور لابنگ کرنے کا متقاضی ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر محض مذمتی بیانات جاری کرنا کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اور پھر اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو گا کہ سرکاری طور پر 19جولائی کو یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا گیا جو کشمیری عوام یوم الحاق پاکستان کے طور پر مناتے ہیں۔ فیصلہ اگرچہ اب واپس لے لیا گیا ہے مگر چھ کروڑ کا بجٹ ہضم کرنے والی کشمیر کمیٹی کی قابلیت ضرور عیاں ہو گئی ہے جو کشمیر کی تاریخ سے ہی نابلد ہے۔
مجھے تو دونوں منظر دو مختلف انتہائوں پر نظر آتے ہیں۔ ایک طرف 22 سالہ برہان وانی شہید اور پاکستان کے نام پر گولیاں کھانے والے کشمیری نوجوان ہیں اور دوسری جانب پاکستان کی ناکارہ کشمیر کمیٹی اور انگریزی سے نابلد چیئرمین مولانا فضل الرحمن اور ان کے ہوم میڈ مذمتی بیانات ہیں! کیا اس طرح کشمیر کی تحریک آزادی کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے؟