بس ، بہت ہو گیا … کالم ہارون الرشید
طارق ملک انشاء اللہ وطن لوٹ آئیں گے۔ راجا اختر ریاض بھی انشاء اللہ سرخرو ہوں گے۔ فرمایا: تلک الایام نداولہا بین الناس۔ انسانوں کے درمیان وقت کو ہم گردش دیتے رہتے ہیں۔ ایک عہد تمام ہوا‘ دوسرے کا اب آغاز ہے۔ بہتی گنگا میں بہت سوں نے ہاتھ دھوئے۔ بہتیروں نے دکھ جھیلے۔ Enough is enough
راجہ اختر ریاض کی روداد کئی دن سے ذہن پہ سوار تھی۔ نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک سے کل بات کی۔ دور دراز کسی افریقی ملک میں تھے۔ اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ کہانی کہی تو رلا دیا۔
ربع صدی ہوتی ہے۔ نیو یارک میں دریائے ہڈسن کے کنارے شاہ جی… عباس اطہر مرحوم نے گاڑی روکی۔ ساحل پہ کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے‘ فکرِ سخن میں گم۔ کچھ دیر میں ایک دل گداز نظم مکمل ہوئی۔ ع
”وسیوں کیہڑے دیس وے لوکا‘‘
جو پردیس میں جا بستے ہیں، وہی جانتے ہیں کہ دلوں پر کیا بیتا کرتی ہے۔ جس تن لا گے سو تن جانے۔ 1981ء میں ایک روسی قیدی کا انٹرویو کیا تھا۔ کھانے پینے کو فراواں، جان محفوظ۔ مذہب بھی دکھاوے کو بدل لیا تھا۔ میں نے کہا: پڑھے لکھے ہو، امکانات کا ایک جہان تمہارے سامنے ہے۔ اس قدر پھر پریشان کیوں ہو؟ اس پہ ایک روسی کہاوت اس نے سنائی ”پردیس کی بادشاہت سے بہتر ہے کہ اپنے گائوں کے گلی کوچوں میں آدمی بھیک مانگا کرے۔‘‘ 2004ء کے جدّہ میں میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف سے ملاقات ہوئی۔ محل میں مقیم، نصف درجن مرسیڈیز گاڑیاں، خدّامِ ادب حاضر۔ ماحول مگر ایسا تھا، ابھی ابھی جیسے کوئی جنازہ اٹھا ہو۔
راجہ اختر نے میری آواز سنی توکہا: نہیں، میں بات نہیں کر سکتا۔ ہر پیشے اور ہر ایک فرض کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ کس استاد کے سامنے زانوّے تلمذ میں نے تہہ کیا تھا۔ فرض کو پس پشت ڈال نہیں سکتا۔ پیمان میں توڑ نہیں سکتا۔ ”راجا، یہ تو بتا دو کہ کیا تحریک انصاف سے تم وابستہ ہو‘‘۔۔۔۔ ”لاحول ولا قّوۃ‘‘ اس نے کہا: ایک دن کے لئے بھی کسی پارٹی سے میرا تعلق نہ تھا۔ میرا‘ نہ میری شریک حیات کا۔
اس کے ایک ہم نفس کو تلاش کرنا پڑا۔ مدت سے راجا کو جو جانتا ہے، اس کی رگ رگ سے واقف ہے۔ رنج سے اس نے کہا: افسوس ایسے بھلے آدمی سے ایسی بدسلوکی؟ واجد ضیاء نے نہیں، سپریم کورٹ نے یہ ذمہ داری اسے سونپی۔ جے آئی ٹی کی قانونی امداد کے لئے اس کا نام بھی کسی اور نے تجویز کیا تھا۔ واجد ضیاء سے پوچھا گیا تو یہ ضرور اس نے کہا کہ صاف ستھرا آدمی ہے اور لائق بھی۔ راز کی بات کو راز رکھ سکتا ہے۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسروں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے ذرائع سے تصدیق کی۔ سپریم کورٹ کا حکم تھا اور تمام پاکستانی شہری اس کے پابند تھے۔ برطانیہ میں مقیم سرکاری اہلکار بھی‘ جن کے ذریعے تحقیق ہوئی۔ سپریم کورٹ کا بنچ مطمئن ہوا تو راجا نے کام کا آغاز کیا۔ ”کسی طرح یہ معلوم کرو‘‘ ان صاحب سے میں نے کہا ”راجا صاحب نے فیس کتنی وصول کی ‘‘۔ قلق اس کے لہجے میںگہرا ہو گیا۔ کہا: اس سے کم، معمولاً جو اسے ادا کیا جاتا ہے۔ نامور وکیل ہے، درجنوں اہم مقدمات اس نے جیتے ہیں۔ قانون دان برادری میں اس کا نام ہے، ایک معزز شہری۔ عام وکیلوں جیسا نہیں، ہمیشہ سے اس کا انداز فکر یہ ہے کہ قانون دان کا کام صداقت کی تلاش ہے، کار خیر میں عدالت کی اعانت۔ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان کی طرح، اب راجہ اختر ریاض کو بھی خوف لاحق ہے۔ اندیشے کا وہ شکار ہے کہ اس کے خاندان کو زخم لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو کردار کشی لازماً کی جائے گی۔ الزام سے، گالی سے بازاری لوگ نہیں ڈرتے۔ شریف آدمی کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
تیس برس ہوتے ہیں سردار عبدالقیوم خان مرحوم نے مجھے بتایا: میری حکومت بھٹو نے برطرف کی۔ جیل میں ڈالا‘ پارٹی برباد کر دی۔ صدارتی نظام کی بساط لپیٹ کر، پارلیمانی سسٹم آزاد کشمیر پر مسلط کیا۔ ارکانِ اسمبلی کی منڈی لگائی، مویشی خریدے۔ میرے حریف کو اقتدار سونپا، پچھلے انتخاب میں بری طرح جو ہارا اور کسی طرح جیت نہ سکتا تھا۔ اپنے تئیں پست و ماپال کر چکے تو مجھے بلایا اور کہا: میرے ساتھ آ ملئے۔ مظفر آباد کا تخت آپ کا منتظر ہے۔ باغ کے بے نوا فرزند میں روشنیِٔ طبع برقرار تھی۔ کہا: جناب وزیر اعظم میں کوئی جاگیردار نہیں ہوں۔ ارب پتی صنعت کار بھی نہیں۔ میرا کوئی بڑا قبیلہ ہے اور نہ میں کوئی لشکر رکھتا ہوں۔ بس ایک تھوڑی سی ساکھ ہے، اس کے بل پر سیاست کرتا آیا ہوں آئندہ بھی کرنی ہے‘ اپنی آخری پونجی کیسے لٹا دوں؟
واجد ضیاء، ان کے ساتھیوں اور راجہ اختر ریاض کو سیاست نہیں کرنی مگر جینا تو ہے۔ خواہ گھات میں ہو منتظر چلّے پہ تیر۔ ہرنیوں کو چوکڑی بھرنی تو ہے‘ زندگی کرنی تو ہے۔ لیڈر نہیں کہ شہرت کو اندوختہ بنائیں، حتیٰ کہ بدنامی کو بھی۔ پکڑے جائیں تو ترس کے جذبات پیدا کرکے، اسی کو سیاسی سرمایہ کریں۔ اس کے بل پر ووٹ کی بھیک مانگیں۔ وہ بیچارے عافیت کے آرزومند ہیں۔ حکمرانوں کی ناراضی مول لے کرمگر عافیت کہاں۔
طارق ملک نے زخم کریدا مگر شائستگی سے۔ فرزند آخر کس کے ہیں۔ غالبؔ نے کہا تھا
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
الیکشن 2013 ء کے فوراً بعد عدالت نے انہیں بعض انتخابی حلقوں کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔ سب سے پہلے سندھ کے ایک حلقے کو جانچا۔ پیپلز پارٹی کے آفتاب شعبان میرانی، بظاہر یہاں سے سرخرو تھے۔ تفتیش ہوئی تو ایسا ایک انکشاف ہوا کہ خدا کی پناہ۔ خواتین کے ایک پولنگ سٹیشن پر، ایک مرد نے ووٹ ڈالے، ایک آدھ نہیں پورے ایک سو اکتیس۔ بہت سی اور بے قاعدگیاں بھی تھیں۔
دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی و حیدر آباد میں ایم کیو ایم نے الیکشن نہ ہونے دیا تھا۔ جعل سازوں کے لشکر لے کر چڑھ دوڑے تھے۔
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیاتھا، انتخابات کے فوراً بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی سے میں نے پوچھا : دھاندلی روکنے کی آپ نے کیوں کوشش نہ کی۔ ان کا جواب واضح تھا: حساس پولنگ سٹیشنوں پہ فوجی افسر تعینات کرنے کیلئے ہم تیار تھے۔ الیکشن کمیشن سے التجا کی کہ دھاندلی اگر جاری ہو تو نگران فوجی افسر کو کچھ دیر کیلئے پولنگ معطل کرنے کا اختیار دیا جائے۔ جسٹس کیانی نے، بوڑھے اور بیمار فخرالدین جی ابراہیم کی عدم موجودگی میں، زمامِ کار جن کے ہاتھ میں تھی، انکار کر دیا۔ ارشاد کیاکہ‘ مداخلت کی اجازت ہم نہیں دے سکتے۔ کیا میں فوج کا منہ کالا کرتا؟
الیکشن کمیشن دھاندلی میں فریق تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم سیاست نہیں، غنڈہ گردی پہ تلی تھی۔ پنجاب میں سکولوں کے اساتذہ، یونین کونسلوں کا عملہ، پٹواری اور تحصیل دار ہی نہیں افسر شاہی اور نچلی عدلیہ بھی نون لیگ کے ہم رکاب تھیں۔
طارق ملک کا قصور کیا تھا؟ عدالت نے پوچھا تھا: نادرا کیا تحقیقات میں مدد دے سکتی ہے۔ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ انکار وہ کیوں کرتے۔ انہیں سمجھایا گیا‘ پلاٹ کی پیشکش ہوئی۔ انکار کیا تو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوا‘ حتیٰ کہ میٹرک میں زیر تعلیم ان کی صاحبزادی کو دھمکیاں دی گئیں۔ وطن کو خیرباد کہنے کے سوا چارہ اب کیا تھا۔
طارق ملک انشاء اللہ وطن لوٹ آئیں گے۔ راجا اختر ریاض بھی انشاء اللہ سرخرو ہوں گے۔ فرمایا: تلک الایام نداولہا بین الناس۔ انسانوں کے درمیان وقت کو ہم گردش دیتے رہتے ہیں۔ ایک عہد تمام ہوا‘ دوسرے کا اب آغاز ہے۔ بہتی گنگا میں بہت سوں نے ہاتھ دھوئے۔ بہتیروں نے دکھ جھیلے۔ Enough is enough