منتخب کردہ کالم

بغیر چہرے کے مرنے والا آدمی…..حسنین جمال

جب اس کے مرنے کا پتہ چلا تو میں نے پہلی بار اس کی تصویر دیکھی۔ وہ تصویر بہت مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر انٹرنیٹ سے برآمد ہوئی۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ افریقی نہیں تھا۔ وہ ایک ڈچ آدمی تھا۔ موت کی شکل میں بنا سکتا ہوں لیکن اولف پرانک کی تصویر نہیں بنا پا رہا تھا۔ اولف میرے لیے ایک ڈیجیٹل کنیکشن تھا۔ مجھے کیکٹس وغیرہ کا شوق ہے تو اولف کو اس حوالے سے دوست بنایا۔ وہ بہت عجیب و غریب صحرائی پودوں کی تصویریں پوسٹ کرتا تھا۔ ایک جگہ یہی سب کچھ دیکھ کر اسے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی، وہ اس نے قبول کر لی۔ اولف نے کبھی اپنے پروفائل پر ذاتی تصویر نہیں لگائی تھی۔ پلانٹ لورز کے ایک گروپ میں اس کی موت کا پڑھتے ہی میرا دماغ زندگی میں پہلی مرتبہ کسی تصویر سے خالی تھا۔ مطلب کون مر گیا؟ میں اس کی آخری پروفائل فوٹو کا سوچتا تو ایک مینڈک کا چہرہ آتا، کبھی پیچی پوڈیمز (کانٹوں والے کیکٹس نما پودے) یاد آ جاتے، کبھی اس سے ہونے والی وہ بات چیت یاد آ جاتی جو صرف ایک مرتبہ ہوئی تھی، کوئی چہرہ دماغ میں نہیں آتا تھا۔ سائبر ورلڈ کا کمال ہے، موت ہوئی ہے اور کوئی چہرہ اس کے ساتھ جڑ نہیں پا رہا۔ گوگل کیا، ادھر ادھر تلاش کیا۔ مجھے الجھن ہو رہی تھی، میں بغیر چہرے کی موت سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ کوئی تو شکل ہو گی اس کی؟
پھر ایک جگہ اس کی تصویر نظر آئی تو معلوم ہوا کہ وہ دبلا پتلا لمبا سا گورا آدمی تھا۔ چہرا جڑ گیا تو باتوں کی طرف دھیان چلا گیا۔
آغا خان ہسپتال کراچی میں ایک درخت ہے۔ اس قسم کے درختوں کو باؤباب کہا جاتا ہے۔ ان کے تنے ڈھول کی طرح سے ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارا درخت سلم اور سمارٹ ہوتا ہے نیچے سے اوپر تک، وہ ایسا نہیں ہوتا۔ وہ افریقہ کا درخت ہے جہاں کئی برس اسے پانی ملنے کا چانس نہیں ہوتا۔ وہ جہاں بھی اگتا ہے تو اپنے اندر پانی سٹور کر لیتا ہے۔ بڑا ہوتا جاتا ہے، پانی اور دیگر نمکیات زمین سے جمع کرتا رہتا ہے۔ تو اس کا سٹرکچر قدرتی طور پہ ایسا ہوتا ہے جیسے کسی ڈھول کے اوپر درخت کی شاخیں لگی ہیں۔ مڈغاسکر ان درختوں کی جنت ہے۔ یہ لمبے اونچے شاندار باؤباب وہاں موجود ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ اولف سے کہا کہ مجھے اس پودے کے چند بیج درکار ہیں، کیا وہ بھیج سکے گا؟ اس نے کہا ضرور بھیجوں گا بس فروری میں یاد کرا دینا، کہنے لگا مجھے یقین ہے کہ وہ لاہور میں بہت اچھے چل جائیں گے۔ وہ اگست کا مہینہ تھا۔ پودوں کی سالانہ سنک مجھ پر چھ ماہ کے لیے آتی ہے۔ یہ باقاعدہ دورہ پڑنے والی کیفیت ہوتی ہے۔ چھ ماہ کے لیے حسنین جمال ایک مالی ہوتا ہے لیکن ستمبر کے پہلے ہفتے سے وہ چارم ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ٹھیک کہئے تو دورہ اترنے لگتا ہے۔ اصل میں صحرائی پودوں کو پسند کرتے کرتے شاید طبیعت بھی شدید گرمی میں ہی چارج رہتی ہے۔ سردیوں کی آمد کا تصور ہی ڈپریسنگ ہوتا ہے۔ تو خبر یہ ہے۔ فروری آیا تو میں بھول بھال گیا، پھر تین برس فروری آتے رہے لیکن میں بھولا رہا۔ دورہ تو رہتا ہی مارچ سے اگست ستمبر تک ہے۔ آج دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو باؤباب اور اولف دونوں یاد آ گئے۔
وہ صحرا کی ہر مخلوق کا عاشق تھا۔ کبھی رنگ برنگے سانپ اس کی تصاویر میں نظر آتے، کبھی مگرمچھوں کے فارم کی تصویریں ہوتیں، کبھی حیران کن حد تک خوبصورت گرگٹ اس کی ذاتی کلیکشن میں نظر آتے، کبھی ایسی چھپکلیاں جو دیسی والیوں سے بالکل ہی الگ رنگ اور شکل کی تھیں، وہ دکھائی دیتیں، کبھی ہر نسل کا کچھوا اس کے پاس نظر آتا، کبھی ایسے مینڈک جو صرف نیشنل جیوگرافک پہ ہو سکتے ہیں، کبھی وہ مکڑیاں جن کو فلموں میں دکھا کر بچوں کو ڈرایا جاتا ہے (لیکن وہ خوبصورت ہوتی ہیں!) کبھی آرچرڈ، کبھی للی، کبھی کیکٹس، اور ان گنت نسلوں کے پودوں سے پھول حاصل کرنے میں وہ ماسٹر تھا۔ پھول اگنے کا مطلب ہے کہ پودا خوش ہے۔ دوسرے ملکوں کے پودے یا دوسرے ماحول کے پودے جب اس کے ہاتھ میں آتے تھے تو وہ اپنے اماں ابا والے دیس میں خود کو محسوس کرتے تھے۔ کھاد، پانی، دھوپ، مٹی ہر چیز کا اسے دھیان ہوتا تھا۔ تحقیق؛ ان پودوں کی مٹی نری مٹی نہیں ہوتی، کوئلہ، لکڑی، فائبر، ہر وہ چیز جو ہم نہیں سوچ سکتے وہ ان کا میڈیا ہوتی ہے۔ میں اس کے ساتھ نہیں رہتا تھا لیکن اس کی پوسٹ شدہ تصویریں دیکھتا تھا۔ ان تصویروں میں ہر پودا اپنی ممکنہ بہترین صحت میں ہوتا تھا۔ تو پھول اسی لیے اگتے تھے کہ اولف ان سب پودوں، جانوروں، کیڑوں مکوڑوں کا باپ تھا۔
وہ بلا آدمی تھا۔ وہ مڈغاسکر میں ہی رہتا تھا۔ وہاں اس نے بہت ساری زمین لے کر اس پہ ان سب چیزوں کی فارمنگ شروع کر دی تھی۔ فیلڈ کلیکشن ایک طریقہ ہوتا ہے جس میں شوقین لوگ دور دراز علاقوں میں جا کر وہاں سے اپنی پسند کے پودے اکھاڑ کے لاتے ہیں۔ جیسے ہمارے یہاں حکیم لوگ جڑی بوٹیاں چننے جنگلوں میں جاتے تھے ویسے ہی گورا لوگ فیلڈ کلیکشن کرتے ہیں۔ تو اس کی فیلڈ کلیکشن دیکھ کرہی منہ میں پانی آ جاتا تھا۔ کیسا کیسا نایاب پودا اسے مٹی اور ریت کے بیچ کہیں دبا نظر آ جاتا اور وہ ضرورت کے مطابق نکال کر لے آتا۔ اس کا اپنا بوٹینیکل گارڈن تھا جس میں زیادہ تر یہی زیروفائٹس (پودے جنہیں کم پانی چاہیے ہو) ہوتے تھے۔ بندہ ادھر بیٹھا بس دیکھ دیکھ کے حسرت میں رہتا تھا کہ یار کبھی کوئی ماحول بنے تو مڈغاسکر جائے اور اس بوٹینیکل گارڈن کو ہی دیکھ لے۔ اس کے یہاں دیکھی چیز اگر اپنے پاکستان میں کسی شوقین کے پاس نظر آ جاتی تو میرا جینا حرام ہو جاتا، کسی نہ کسی طرح اسے اپنے پودوں میں شامل کر لیتا تو جیسے روح تک سکون میں آ جاتی۔ سلام ہے میری زندگی کی ساتھی کو، یہ خاتون ایک بار اس واہیات شوق کے خلاف نہیں بولیں (دوسرے بہت سے ہیں، کسی کسی کے خلاف بول لیتی ہیں)، کئی مرتبہ پودا گھر پہنچتا اور اکاؤنٹ میں اللہ کا نام ہوتا تھا، اس پہ بھی شاکر رہیں۔ خدا باقی چیزوں میں بھی رکھے۔
مڈغاسکر دنیا کا چوتھا بڑا جزیرہ ہے۔ یہ اتنا الگ تھلگ ہے کہ ارتقا کا عمل بھی باقی دنیا سے ہٹ کر یہاں اس کی مرضی سے ہی ہوا ہو گا۔ ادھر تقریباً اسی فیصد جانور اور پودے ایسے پائے جاتے ہیں جو دنیا میں اور کہیں نہیں دیکھے گئے۔ مطلب ایک دم مقامی! انسان بھی دو ڈھائی سو برس پہلے اس جگہ آن کر بسے تھے ورنہ یہ جزیرہ ایک عرصے تک موج میں رہا۔ اسی لیے یہ سب جانور اور پودے بچے رہے۔ وہ جب ادھر آئے تو انہیں اندازہ ہوا کہ شیر، ہاتھی، زرافہ، ایسی کوئی روائتی افریقی مخلوق یہاں نہیں تھی۔ یہاں بڑے بڑے کچھوے تھے، دنیا کے سب سے بڑے پرندے تھے جن کی لمبائی دس فٹ تک ہوتی تھی اور ایسی ہی ڈائنوسار کے زمانے کی چیزیں تھیں۔خیر سے ان دو سو برسوں میں سب صاف ہو گیا۔ باقی جو کچھ بچا اسے سنبھالنے شاید اولف پرانک یہاں آ گیا۔ وہ شوقین تو تھا ہی لیکن مڈغاسکر حکومت کے قوانین سے بہت تنگ رہتا تھا۔ بہت سی چیزیں جو اس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں تھیں ایکسپورٹ نہیں کر پاتا تھا۔ نیٹ کنیکشن ہماری طرح اس کی زندگی کا بھی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن اس کے پاس پلوشئیر کچھوے تھے۔ جو دنیا میں چار پانچ سو سے زیادہ نہیں بچے اور اپنے نیچرل ہیبیٹیٹ سے اگلے دس پندرہ سال میں ختم ہو جائیں گے۔ اس کے پاس ایلو (کنوار گندل) کی وہ قسمیں تھیں جو بس اسی کے پاس نظر آ سکتی تھیں، اس کے پاس ایک پورا جہان آباد تھا۔
ریسٹ ان پیس اولف فرانک، میرے ورچوئل دوست، وہ دوست جو میں نے حبشی بنایا تھا اور جو مرنے کے بعد ڈچ نکلا، اور جو پلوشئیر کچھوؤں کا مالک تھا۔جہاں رہو خوش رہو۔ تم نے مڈغاسکر میں اپنی مرضی کی زندگی جی لی۔ تمہیں اور کیا چاہیے استاد