منتخب کردہ کالم

بلاول ہائوس میں: ارشاد احمد عارف

بلاول بھٹو زرداری سے مل کر لگا، نوجوان کے عزائم بلند ہیں اور پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر پاکستان کی مقبول جماعت بنانے کی خواہش فزوں تر‘ کہ یہی حصول اقتدار کا نسخۂ کیمیا ہے مگر سیاست کی یہ مائونٹ ایورسٹ محض خواہشات سے سر نہیں ہو سکتی ؎
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
محترمہ بے نظیر بھٹو کی بے وقت موت نے پیپلز پارٹی میں کئی لیڈروں اور کارکنوں کو گوشۂ گمنامی میں دھکیل دیا۔ آصف علی زرداری کو ان کی ضرورت تھی نہ آصف علی زرداری تک رسائی کے طریقوں سے یہ آشنا۔ منور انجم انہی میں سے ایک ہیں۔ منور انجم ان دنوں پھر متحرک ہیں۔ یہ بلاول کی اپنے والدہ کے ترجمان پر نظر کرم کا نتیجہ ہے یا وسطی پنجاب کے صدر قمر الزمان کائرہ کا حسنِ انتخاب۔ مگر گزشتہ روز بلاول ہائوس میں وہ تین میں نہ سہی تیرہ میں ضرور نظر آئے اور بلاول سے ملاقات کے دوران کوآرڈینیٹر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مجھے انہوں نے دوپہر کو آنے کی دعوت دی تھی مگر دفتری مصروفیات کے باعث میں رات کی نشست میں جا سکا۔
بے تکلف تبادلۂ خیال کی اس نشست میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے فرینڈلی اپوزیشن کا لیبل اُتارنے کے لیے موجودہ حکومت کے خلاف فیصلہ کن احتجاجی تحریک کا عندیہ ظاہر کیا جو ان کے بقول جی ٹی روڈ کی پارٹی مسلم لیگ کو اپنی اوقات یاد دلائے گی۔ عمران خان کے بارے میں وہ اپنے اور پارٹی کے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ اُس نے اپنے جذباتی اقدامات سے نواز حکومت کو فائدہ پہنچایا۔ اس ضمن میں انہوں نے اصغر خان کیس کو نظرانداز کر کے 2014ء میں دھرنا دینے اور اب پاناما لیکس پر عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا حوالہ دیا۔ پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے اس بار بلال بھٹو نے لاہور میں ایک ہفتہ تک قیام کا فیصلہ کیا اور روزانہ وہ ملک بھر سے آئے کارکنوں سے اجتماعی ملاقات کرنے کے علاوہ صوبائی اور قومی قیادت سے تبادلہ خیال کریں گے تا کہ پنجاب کو ان کے بقول جی ٹی روڈ کی پارٹی سے نجات دلا سکیں۔ وسطی پنجاب کی حد تک نوجوان چیئرمین نے بہتر ٹیم کا انتخاب کیا ہے قمر الزمان کائرہ اور ندیم افضل چن کی شہرت اچھی ہے اور طبیعت میں ملنساری کا رنگ غالب۔ دوسرے جیالوں کے برعکس وہ مخالف نقطۂ نظر تحمل سے سننے کے روادار ہیں اور پیپلزپارٹی کے فکر و فلسفہ سے اختلاف رکھنے والوں کو گلے لگانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے ۔مگر وہ جو اہلِ زبان کہتے ہیں اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ ندیم افضل چن اور قمرالزمان کائرہ 2008 ء سے 2013ء تک دوران حکمرانی اپنی کرپشن کی ہوشربا داستانوں، بے مثل بد انتظامی، بے عملی اور سازشی فطرت سے وفاقی پارٹی کو سندھ تک محدود کرنے والے قدآور لیڈروں کی موجودگی میں کیا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں؟جو اب بھی پارٹی پر مسلط اور بلاول بھٹو کے پائوں کی زنجیر ہیں۔ نام کیا لینا، بلاول بھٹو جانتے ہیں اور قمر الزمان کائرہ بھی۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے وارث کو کرپشن کے کوہ ہمالیہ ٹائپ لیڈروں کے درمیان کھڑا کر کے نواز شریف اور عمران خان کو للکارنے کا مشورہ جس کسی نے بھی دیا وہ دانا دوست نہیں‘ دوست نما دشمن یا نادان دوست ضرور ہو سکتا ہے۔ انسان اپنے حلقۂ احباب سے پہچانا جاتا ہے اور چند ایک کو چھوڑ کر بلاول بھٹو کے حلقۂ احباب میں کون شامل ہے؟ یہ اس کا ذاتی فیصلہ نہیں مگر پہچانے تو اب وہ بلاول کے سرپرست یا ساتھی کے طور پر جائیں گے۔حالانکہ اعلیٰ غیر ملکی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل پرکشش اور ذہین نوجوان لیڈر کو بے نظیر بھٹو کی طرح ان انکلوں سے ضرورت نجات حاصل کرنی چاہیے جو کشتی کا بوجھ اور بدنامی کی علامت ہیں۔ بلاول بھٹو میں جرأت نہیں تو کوئی دوسرا ان لیڈروں سے ہاتھ جوڑ کر شاعر کی زبان میں التجا کرے ؎
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر، تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
بلاول کے یہی انکل پارٹی کے دیانتدار کارکنوں کی مایوسی ‘عوام کی دوری بلکہ نفرت کے ذمہ دار ہیں۔ بلاول اگر بشیر ریاض، حاجی عزیزالرحمن چن‘ نوید چودھری‘ فیصل میراور ایسے ہی دیگر پرانے کارکنوںسے علیحدگی میں پوچھیں کہ 2013ء کے انتخابات میں پانچ سال تک اقتدار میں رہنے والی پارٹی کا دھڑن تختہ کیوں ہوا تو وہ کشتی کے اس بوجھ کی نشاندہی کر سکتے ہیں جو اپنی نسلیں سنوار گئے مگر ملک اور ایک وفاقی پارٹی کا بیڑا غرق کر دیا۔ ان کی کرپشن بدانتظامی، بے عملی اور اقربا پروری کے قصے لوگ بھولے نہیں ؎
اُٹھائے کچھ وَرَق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گُل نے
چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری
پاکستان اس وقت ایک نئے طرح کے بحران سے دوچار ہے۔ زرعی شعبہ تباہی کا شکارہے، برآمدات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے شہریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر احسن اقبال نے بھی اس کا اعتراف کیا۔ چھ کروڑ لوگ رات کو بھوکا سوتے ہیں، اڑھائی کروڑ بچے سکول جانے سے محروم ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ پاکستانی شہری صرف ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ سونے کی سمگلنگ بڑھ گئی ہے اور ڈالر ایک سو دس روپے کا ہو گیا ہے؛ جبکہ کالے دھن کو تحفظ دینے کے لیے حکومت نے ایک نئی ایمنسٹی سکیم متعارف کرا دی ہے۔ یہ رزق حلال کمانے اور پورا ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ مذاق ہے‘ جو حکومت ہمیشہ کرتی ہے۔ بدامنی کا عفریت اب پنجاب میں بھی ناچنے لگا ہے۔ ایک سرکاری گیسٹ ہاوس میں خاتون کی ہلاکت اور گزشتہ روز کلب چوک میں ایم پی اے انعام اللہ نیازی کا لٹ جانا ‘ مذاق نہیں‘ جہاں پولیس ہر وقت موجود اور چوکس نظر آتی ہے شہری اگر چیف منسٹر ہائوس کے اردگرد محفوظ نہیں تو اور کہاں ہوں گے؟ پاناما لیکس نے حکمرانوں کی اخلاقی ساکھ تباہ کر دی ہے اور عدالت عظمیٰ کے سامنے آنے والے مواد نے غریب عوام کو احساس دلایا ہے کہ ان کے خون پسینے کی کمائی لوٹ کر پاکستان سے باہر چلی گئی‘ جس سے غربت و افلاس اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور ان کا مستقبل تاریک۔ یہ صورتحال تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے لیے مقبولیت حاصل کرنے اور عوام کو اپنے ساتھ ملانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے مگر اپوزیشن تقسیم ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف سرگرم عمل اور حکمران اتحاد یکجان و یکسو۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں نے شاید یہ سوچ لیا ہے کہ پنجاب میں ایک دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر ہی وہ فتح یاب ہو سکتی ہیں۔ بلاول بھٹو اگر اپنے والد گرامی کے شکنجے اور سید خورشید شاہ کے مصالحانہ سیاسی اندازِ فکر سے نجات حاصل کر کے آزادانہ سیاست کر سکیں تو کامیابی کے امکانات ہیں۔ پرکشش شخصیت، خاندانی پس منظر، اعلیٰ تعلیم، توانائی سے بھرپور نوجوان کا اندازِ فکر بھی جداگانہ‘ آزادانہ اورعوام کے لیے مقناطیسی ہونا چاہیے ع
ورنہ عمر بھر کا یہ سفر رائگاں تو ہے
بلاول ہائوس کی رونقیں بحال کرنے کے بعد بلاول پیپلزپارٹی پر چھائی مُردنی بھی ختم کریں کہ اس کے مرحوم نانا اور شہید ماں کی ریاضت کا ثمر ہے‘ اجاڑنے والوں کا ورثہ نہیں۔