k
24مارچ 2016ء کو بلوچستان سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے جاسوس، کلبھوشن یادیو، کارنگے ہاتھوں گرفتار کیا جانا یقیناً پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی ایک بڑی کامیابی کہی گئی ہے۔ اس کی بازگشت پاکستان اور بھارت بھر میں تو سنائی دی ہی گئی ہے، امریکا اور برطانیہ میں بھی اس کا چرچا ہورہا ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک عرصے سے پاکستان بار بار مغربی ممالک کو بلوچستان، سندھ اور فاٹا میں سنگین بھارتی مداخلتوں کی شکایات کرتا آرہا تھا۔ اس سلسلے میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے بھارت کے خلاف یو این او کو ڈوزئیرز بھی دیے گئے۔کلبھوشن یادیو، جس نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر بھی ہے، ایسی بڑی مچھلی کا ہاتھ لگنا گویا اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان کے طول و عرض میں بھارتی مداخلتوں کے پاکستانی دعوے کبھی بے جا اور بے بنیاد نہیں تھے۔
پاکستان کے سیکیورٹی ذرائع انکشاف کرتے ہیں کہ 2014-15ء کے دوران بھارت نے پاکستان کے مختلف حصوں میں 396 مقامات کو دہشت گردی کا ہدف بنانا چاہا لیکن ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے ان بھارتی منصوبوں کو قبل از وقت ناکام بنا دیا۔ مذکورہ پاکستانی اداروں کا کہنا ہے کہ ان 396 مقامات میں بلوچستان کے بھی 188 شہر اور قصبات بطورِ ہدف شامل تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ بلوچستان کے یہ علاقے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی وجہ سے محفوظ رہے۔
کلبھوشن یادیو جس روز گرفتار ہوا، وہ دن کئی لحاظ سے بہت اہم تھا۔ اس دن کے تیسرے روز پاکستان کی ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو بھارت روانہ ہونا تھا تاکہ پٹھانکوٹ ائیربیس پر مبینہ حملے کے حوالے سے تحقیقات کی جاسکیں۔ اس سے اگلے روز ایرانی صدر جناب ڈاکٹر حسن روحانی دو روزہ دورے پر پاکستان تشریف لا رہے تھے۔ اس کے چھ دن بعد پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم واشنگٹن روانہ ہو رہے تھے، نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ میں شرکت کے لیے، جہاں نواز شریف اور نریندر مودی کی باہمی ملاقات ہونے والی تھی۔
(لاہور کے گلشنِ اقبال پارک میں بم دھماکے کی وجہ سے وزیراعظم صاحب نے دورئہ امریکا منسوخ کردیا) گویا بھارتی جاسوس کی بلوچستان ایسے حساس علاقے سے گرفتاری مذکورہ بالا تینوں اہم ترین معاملات کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتی تھی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ کلبھوشن یادیو مبینہ طور پر حسین مبارک پٹیل کے جعلی نام سے ایرانی ویزے پر ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا تھا۔ (وہ حسن بلوچ اور امداد اللہ کے ناموں سے بھی ’’کام‘‘ کررہا تھا)معلوم ہوا کہ وہ ایران کی زیرِ تعمیر بندرگاہ، چاہ بہار، میں بھی رہا۔ بھارت اس ایرانی بندرگاہ کی تعمیر میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے تاکہ وہ اس بندرگاہ کے ذریعے افغانستان سے اپنی مرضی کے عین مطابق اربوں ڈالر کی تجارت کرسکے۔
وہ اسی ایرانی بندرگاہ کے ذریعے وسط ایشیائی ریاستوں کی تجارت بھی اپنی مٹھی میں لینا چاہتا ہے۔ شک کا اظہار کیا گیا ہے کہ کیا کلبھوشن یادیو کو چاہ بہار بندرگاہ کے آس پاس سے کوئی مدد مل رہی تھی؟ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ ایرانی صدر عزت مآب ڈاکٹر حسن روحانی کی پاکستان آمد پر ان سے اس پاکستان دشمن بھارتی جاسوس کی ایران سے پاکستان داخل ہونے کی شکایت بھی کی گئی۔ بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے کی نیت سے آنے والے اس بھارتی جاسوس کی یہ گرفتاری اتنی ہائی پروفائل تھی کہ ہماری قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے بھی اپنے بھارتی ہم منصب، اجیت ڈوول، کو براہ راست فون کرکے اس کی شکایت کی۔
بھارتی جاسوس کی اس گرفتاری نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا پول پوری طرح کھول دیا ہے؛ چنانچہ وفاقی وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’’را‘‘ کے اس ایجنٹ کی گرفتاری سے پاکستان کے دیرینہ موقف کی تائید و تصدیق ہو گئی ہے (کہ بھارت، بلوچستان میں دخیل ہے) بلوچستان کے وزیراعلیٰ، جناب سردار ثناء اللہ زہری اور بلوچستان کے صوبائی وزیرِداخلہ جناب سرفراز بگٹی نے بجا طور پر پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو شاباش دی ہے کہ ان کی شِکرا آنکھوں نے اس خطرناک بھارتی جاسوس کو بروقت تاڑ لیا جو بلوچستان میں مبینہ طور پر علیحدگی پسند عناصر سے بھی روابط رکھے ہوئے تھا اور کراچی کے کئی فسادیوں کو بھی ہر ممکنہ تعاون فراہم کررہا تھا۔
اطلاعات کے مطابق، یادیو کو دراصل بھارت کی طرف سے بلوچستان میں خصوصی طور پر متعین کیا گیا تھا تاکہ وہ ’’چین پاکستان اکنامک کوریڈور‘‘ ایسے قیمتی منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلیے بلوچستان کے بعض مرکزِ گریز عناصر کے ذہنوں کو مسموم کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک عرصہ سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے بلوچستان کو ٹارگٹ بنائے ہوئے ہے۔ اس کے لیے وہ افغانستان میں بروئے کار اپنے درجن بھر قونصل خانوں کو بھی استعمال کرتا آرہا ہے۔ بلوچستان میں بھارتی شرارتوں کا راستہ روکنے کے لیے پہلے لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ صاحب نے بلوچستان میں بھارتی منصوبوں کو خاک میں ملایا اور پاکستانیوں کی شاباش حاصل کی۔ ان کے ریٹائر ہونے کے بعد یہ منصب لیفٹیننٹ جنرل جناب عامر ریاض کو سونپا گیا ہے۔
جنرل عامر ریاض سدرن کمانڈ کے سربراہ ہیں اور بھارتی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کو خاک میں ملا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان کے صوبائی وزیرداخلہ بھی ان کے کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے ہیں؛ چنانچہ بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر جنرل عامر ریاض کا بیان میڈیا میں یوں گونجا ہے: ’’دشمن بلوچستان کی ترقی نہیں چاہتا۔ سب نے دیکھا کہ ’’’را‘‘ کا ایجنٹ پکڑا گیا ہے۔‘‘
یہ بھارت ہے جو مغربی ممالک میں بیٹھے بعض ناراض بلوچ نوجوانوں کو بھی پاکستان کے خلاف بہکا رہا ہے؛ چنانچہ جنرل عامر ریاض نے بجا طور پر ان عناصر کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے: ’’لندن اور جنیوا میں بیٹھے (بعض بھارتی اعانت یافتہ بلوچ نوجوان) عناصر سازشیں کررہے ہیں، مناسب یہی ہے کہ یہ لوگ سدھر جائیں۔‘‘ جنرل ریاض کا یہ کہنا بھی اہم ہے کہ بلوچستان سے ’’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد گلشنِ اقبال لاہور کے خونی دھماکے، جس میں چھ درجن سے زائد پاکستانی شہری شہید کردیے گئے، کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بلوچستان سے ’’را‘‘ کے مبینہ ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتار کے بعد بھارت میں خاصی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اسی سلسلے میں بھارت کے ایک معروف نجی ٹی وی کے اینکر پرسن کرن تھاپر نے اپنے پروگرام ’’ٹُو دی پوائنٹ‘‘ میں گذشتہ روز ہی ایک تفصیلی گفتگو کی ہے۔
اس پروگرام میں پاکستان کے ایک سابق سفارتکار جناب عزیز احمد خان، پاکستان کی نامور دانشور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، بھارتی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت اور پاکستان میں متعینہ بھارت کے سابق ہائی کمشنر ستیا براتاپال نے حصہ لیا۔ اے ایس دولت نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا: ’’پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو پاک ایران سرحد کے آس پاس سے کہیں اغوا کیا ہے۔‘‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلبھوشن ’’صاحب‘‘ پاک ایران سرحد کے ’’آس پاس‘‘ کیا کررہے تھے اور وہ کلبھوشن کی بجائے حسین پٹیل کے نام کا پاسپورٹ کیوں استعمال کر رہے تھے؟ اور کیا بھارت نے کلبھوشن کے مبینہ اغوا کی کہیں ایف آئی آر درج کروائی؟ ڈاکٹر عائشہ نے کہا: ’’پاکستان اس واقعہ سے قبل ہمیشہ کہتا رہا ہے کہ بھارت، بلوچستان میں مداخلتیں کر رہا ہے۔
اب کلبھوشن کی گرفتاری کی شکل میں پاکستان کو ایک (ٹھوس) شہادت میسر آگئی ہے۔‘‘ جناب عزیز احمد خان نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقینِ کامل ہے کہ بھارت بلوچستان میں بار بار مداخلت کررہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا: ’’بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی نہیں دی جاسکتی۔ ‘‘ ستیا براتاپال ایسے تجربہ کار بھارتی سفارتکار کا کہنا تھا: ’’بلوچستان سے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے باوجود قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے لہجے میں جارحیت اور تلخی کا عنصر نمایاں نہیں ہونے پایا ہے۔‘‘
بھارتی ذمے داران بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی اسٹیبلشمنٹ کو مشورے دے رہے ہیں کہ بھارت کو بلوچستان میں مداخلت کرنے سے ہاتھ نہیں کھینچنا چاہیے۔ مثلاً: بھارتی نیشنل سیکیورٹی کے سابق ڈپٹی ایڈوائزر، ستیش چندرا، نے ایک معروف بھارتی انگریزی جریدے کے تازہ شمارے میں لکھا ہے: ’’ بھارت کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں اپنے دوستوں کے تعاون سے بلوچستان میں دراندازی کرتے ہوئے بلوچ علیحدگی پسندوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے فساد کی آگ بھڑکاتا رہے۔‘‘ بھارت کی اس سوچ اور بلوچستان میں بھارتی کارروائیوں کے پس منظر میں یہ امید کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ پاک، بھارت دوستی اور تعلقات آگے بڑھ سکیں گے؟