یہ 17نومبر 2008ء کا بدقسمت دن تھا جب میں نے والدہ کے کہنے پر اپنے بابا میر غلام رسول حسنی کو فون کیا اور یہ پوچھنا چاہا کہ مغرب کا وقت ہو گیا ہے مگر وہ اب تک گھر کیوں نہیں پہنچے ‘بار بار فون کرنے پر کوئی جواب نہ ملا‘ تھوڑی دیر بعد ماموں روتے ہوئے آئے اور انہوں نے میری ماں سے کہا تم بیوہ ہو گئی ہو۔‘‘
سلمیٰ محمد حسنی شدت جذبات سے روہانسی ہو گئی۔ وہ بتانے لگی ”میرے بابا خضدار میں بلوچستان لبریشن آرمی کے جذباتی نوجوانوں کو سمجھاتے کہ تم یہاں کے غیر مقامی اساتذہ‘ سرکاری ملازمین اور کارکنوں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنا کر اپنا مستقبل تباہ کر رہے ہو۔ تم نے ڈاکٹر فہیم کو قتل کر دیا جو امراض قلب کا ماہر اور خضدار کے عوام کا مسیحا تھا۔ جس کے بعد آج تک خضدار ہسپتال میں کوئی ہارٹ سپیشلسٹ تعینات نہیں ہوا‘ تم پنجابیوں کے گھروں کو جلاتے اور لوگوں کو ترغیب دیتے ہو کہ ان پر قبضہ کر لو‘ خریدنے والے کو سزائے موت کا حقدار سمجھتے ہو۔ ‘‘
”میرے والد میر غلام رسول حسنی نماز مغرب پڑھ کر نکلے تھے۔ اُن کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور وہ تین موٹر سائیکل سوار بندوق بردار نوجوانوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ میں گھر میں بڑی تھی اور سکینڈ ایئر کی طالبہ۔ میں نے پڑھائی چھوڑ دی اور ایک سکول میں ٹیچنگ کر کے اپنی بیوہ ماں اور بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے لگی۔ میرے بھائیوں کو پاکستان سے عشق تھا اور والد کی شہادت کے بعد ان کا جوش وجذبہ بڑھ گیا تھا ۔وہ ہر جگہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے اور بجلی و فون کے کھمبوں پر پاکستان کا پرچم لٹکاتے‘ باپ کی شہادت نے ہمارے دلوں سے موت کا خوف نکال دیا تھا ؛تاہم عزیز و اقارب کے مشورے پر ہم کچھ عرصہ بعد کوئٹہ منتقل ہو گئے تاکہ ہم بہن بھائی اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔ میں تعلیم اور تدریس میں محو ہو گئی۔
مگرہماری آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی تھی 2013ء میں ہم نے عید خضدار میں منانے کا فیصلہ کیامیں عید منا کر کوئٹہ آ گئی مگر میرا بھائی عبدالغیاث وہیں رشتہ داروں کے پاس رک گیا۔29اکتوبر کو مجھے اطلاع ملی کہ بلوچ لبریشن آرمی کے درندوں نے اُسے بھی شہید کر دیا۔بی ایل اے والوں کو عبدالغیاث پر یہ غصہ بھی تھا کہ جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری گمشدہ بلوچ نوجوانوں کا مقدمہ سن رہے تھے تو وہ مجھے لے کر سپریم کورٹ پہنچا۔ چودھری صاحب میرے والد کو جانتے تھے۔ انہوں نے ہمیں سنا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کا دکھ درد بجا مگر کوئی ہماری بھی تو داد رسی کرے جن کے عزیز و اقارب محض پاکستان سے وفاداری اور محبت کے جرم میں مارے جا رہے ہیں۔ بی ایل اے‘ بی ایل ایف‘ لشکر بلوچستان‘ بی آر اے اور بی این اے جیسی علیحدگی پسند تنظیمیں یہ کام بیرونی سرپرستی‘ تربیت اور مالی امداد لے کر کر رہی ہیں اور اپنے فراریوں کو انہوں نے مسنگ پرسنز کا نام دے کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کیا ہے مگر افتخار محمد چودھری نے کہا میں تو کسی بی ایل اے کو نہیں جانتا۔ یوں ہم مایوس لوٹے۔ کراچی یونیورسٹی میں ماما قدیر کو مدعو کیا گیا تو میں متاثرہ خاندانوں کے بچوں اور خواتین کو لے کر وہاں پہنچ گئی مگر ما ما قدیر اور فرزانہ کسی سوال کا جواب دیئے بغیر پچھلے دروازے سے نکل گئے۔ تب میں نے آرگنائزیشن فار ڈیزرونگ و کٹمز آف ٹیررازم بلوچستان (ڈیووٹ) بنانے کا فیصلہ کیا ۔میرا مقصد بلوچستان میں علیحدگی پسندوں‘ دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور اغوا کاروں کا خوف ختم کرنا اور لوگوں کو بولنے کی ترغیب دینا ہے ۔‘‘
اس ڈیووٹ اوریونیورسٹی آف بلوچستان نے حکومت بلوچستان کے تعاون سے کوئٹہ میں پُرامن اور خوشحال بلوچستان کے عنوان سے ایک دو روزہ سیمینار منعقد کر کے ملک بھر کے ماہرین تعلیم‘ دانشوروں‘ مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم عہدیداروں‘ صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ایک ایسے مباحثے کا حصہ بنیں جس میں بلوچستان کی محرومیوں‘ بار بار بغاوت کے محرکات‘ اسلام آباد کی غلطیوں‘ مختلف قبائل کی باہمی چپقلش‘ بیرونی مداخلت ‘ عوام کی پاکستان سے توقعات اور صوبے کے مجموعی ماحول پر کھل کر بات کی جا سکے۔ اس سیمینار کی خوبی یہ رہی کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اور کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض پورے دو دن اپنے رفقائے کار سمیت ہال میں موجود ہر ایک کی سُنااور اپنی کہا کیے۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان انوار الحق کاکڑ اور بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر‘ ڈاکٹر جاوید اقبال نے خوب حق میزبانی ادا کیا۔ آخری سیشن میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پہلے مہمانوں اور میزبانوں کے خیالات کو توجہ سے سنا پھر بھر پور تبصرہ کیا اور لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ بلوچستان ہمارے دشمنوں کی پراکسی وار سے نبرد آزما ہے مگر اس کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے اس لیے ہم آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک پیچھا کریں اور بلوچستان کے محروم و مظلوم عوام کو امن اور ترقی کے ثمرات اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کریں گے۔
دو دنوں کے قیام کے دوران بلوچستان کے کونے کونے سے آئے ماہرین تعلیم‘ دانشوروں ‘ صحافیوں‘ سرکاری عہدیداروںاور سول سوسائٹی کے خیالات سن کر لگا کہ وفاقی حکومت اور فوج کی سرپرستی میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے علیحدگی پسند لیڈروں حیر بیار مری ‘ براہمداغ بگتی اور جاوید مینگل سے مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا کیونکہ ابھی تک ان باغی رہنمائوں کی سرپرستی بیرونی قوتوں کی طرف سے جاری ہے اور نواب ثناء اللہ زہری صرف پاکستان کے دستور اور وفاداری کے دائرے میں رہ کر مذاکرات کے حق میں ہیں۔ زہری کے ساتھی انوار الحق کاکڑ اور سرفراز بگتی کھل کر کہتے ہیں کہ فاٹا اور بلوچستان کے دہشت گردوں میں تفریق روا رکھنا اُن محب وطن پاکستانیوں سے زیادتی ہے جو بدترین حالات میں ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہی نقطہ نظر جام کمال آف لسبیلہ کا ہے۔
علیحدگی پسندوں کے قدم اُکھڑ چکے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور ڈاکٹر منان کی ہلاکت کے بعد فراریوں کے حوصلے پست ہیں اور وہ بیرون ملک عیش و عشرت میں مشغول اپنے لیڈروں سے مایوس نظر آتے ہیں۔ خضدار‘ کوئٹہ‘ لسبیلہ اور دیگر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان اسی بنا پر یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہیں کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ان کی جامعات میں کوئی ہنگامہ ہوا نہ منفی وال چاکنگ اور نہ کسی قسم کا دھمکی آمیز پیغام ملا۔ ورنہ حالت یہ تھی کہ خضدار یونیورسٹی کے ایک کلرک نے وائس چانسلر کو دھمکی دی کہ اگر اُس نے کلرک کی بات نہ مانی تو وہ صرف یونیورسٹی نہیں پورے خضدار کو بندکرا دیں گے۔تعلیم اور صحت کے شعبے میں پیش رفت نظر آتی ہے مگر ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے ماضی میں وسیع پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی ‘ لوٹ مار کا احتساب عوام کا مطالبہ ہے اوروفاقی و صوبائی اداروں کی بنیادی ذمہ داری جس کے بغیر ترقی و خوشحالی کے نعرے عبث ہیں کرپشن بلوچستان کا بہت بڑا مرض ہے اور احتساب وانصاف تریاق۔ وفاقی اور صوبائی وسائل کا رخ سرداروں اور وڈیروں کے بجائے عوام کی طرف موڑے بغیر پُرامن اور خوشحال بلوچستان کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
بلوچستان کے وسائل ہی بلوچستان میں شورش اور غیر ملکی مداخلت کا اہم ترین سبب ہیں جبکہ نوجوانوں کی بے روزگاری بے چینی کو جنم دیتی ہے جس کا بھر پور فائدہ علیحدگی پسند اٹھاتے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی نے ناراض بلوچستان کی اصطلاح پر قرار داد کے ذریعے پابندی لگائی ہے مگر قومی میڈیا علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو ناراض بلوچ کہہ کر اُن محب وطن بلوچوں کے جذبات مجروح کرتا ہے جو پاکستان سے وفاداری میں ہر حد سے گزر گئے۔ ایک لاکھ پنجابی بلوچستان سے ہجرت کر چکے ہیں مگر قومی میڈیا نے ان کا درد کبھی محسوس نہیں کیا جبکہ ”را‘‘ سے پیسے لے کر شورش کرانے والوں کو میڈیا ہیرو کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جو زیادتی ہے ۔یہ گلہ مقامی صحافیوں کے علاوہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کو بھی ہے اور وطن کی محبت میں اپنے باپ‘ بھائی اور چچا کی قربانی دینے والے اسرار حلیم‘ مدثر جمالی‘ عامر ممتاز‘ لال بخت نور (جن کا دعویٰ ہے کہ وہ انہیں واپس لا کر بسائیں گے)اور سلمیٰ محمد حسنی کو بھی۔ واپسی پر شامی صاحب‘ حفیظ اللہ نیازی اور ماریہ سلطان سمیت تمام ہم سفروں کی رائے تھی کہ ریاست نے ایک بار پھر انہی عطار کے لونڈوں سے دوا لینے کی نہ ٹھان لی جن کے سبب بلوچستان اور پاکستان اب تک بیمار چلا آ رہا ہے تو آثار بتاتے ہیں کہ پُرامن اور خوشحال بلوچستان کی منزل دورنہیں‘ کیونکہ لوگ اب کھل کر باغیوں کے خلاف باتیں کرنے اور سلمی محمد حسنی کی طرح علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے لگے ہیں۔ ؎
ان میں لہو جلا ہو ہمارا‘ کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں