بل گیٹس بن جائیں…جاوید چوہدری
یہ مثال ہے حقیقت نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے 31 دسمبر 1999 کو دنیا کے تین بااثر ترین لوگوں کے پاس پیغام بھجوایا‘ میں اللہ تعالیٰ ہوں‘ میں نے کائنات بنائی اور میں کل یہ پوری کائنات ختم کر دوں گا‘ کرہ ارض پر موجود تمام انسانوں کے پاس اب صرف ایک دن بچا ہے‘ آپ ان کو بتا دیں یہ ایک دن میں جو بھی کر سکتے ہیں یہ کر لیں‘ وہ تینوں بااثر لوگ پیغام سن کر پریشان ہو گئے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا‘ یا باری تعالیٰ دنیا میں اس وقت چھ ارب لوگ ہیں‘ آپ نے اس کام کے لیے صرف ہمیں کیوں منتخب کیا‘ اللہ تعالیٰ نے جواب بھجوایا‘ تم دنیا کے بااثر ترین لوگ ہو‘ دنیا تمہاری بات کو سیریس لے گی چنانچہ تم ٹی وی پر جائو اور دنیا کو باری باری میرا پیغام پہنچائو‘ یہ تینوں لوگ فوراً دوڑ کر ٹیلی ویژن پہنچ گئے۔
ہم کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتے چلیں وہ تین لوگ کون تھے‘ پہلا شخص امریکا کا صدر بل کلنٹن تھا‘ دوسرا شخص گلف وار میں امریکن ہیرو کولن پائول تھا‘ امریکی فوج دنیا کی طاقتور ترین فوج ہے اور کولن پائول اس فوج کا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف رہا‘ یہ دنیا کا سیریس ترین جنرل بھی کہلاتا تھا اور تیسرا شخص دنیا کا امیر ترین بزنس مین بل گیٹس تھا‘ یہ تینوں طاقتور بھی تھے‘ بااثر بھی تھے اور سیریس بھی تھے‘ بل کلنٹن سب سے پہلے ٹیلی ویژن پر آیا اور اس نے پوری دنیا کو مخاطب کر کے کہا ’’میں آپ کے لیے ایک اچھی اور دوسری بری خبر لایا ہوں‘‘ لوگ حیرت سے دیکھنے لگے۔
بل کلنٹن بولے ’’اچھی خبر یہ ہے امریکی صدر دنیا کا واحد سربراہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے براہ راست پیغام بھجوایا اور یہ امریکی قوم کی حیثیت سے ہم سب کا کریڈٹ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں دنیا کی سپرپاور مان لیا‘‘ وہ رکے اور بولے ’’اور آپ اب بری خبر بھی ملاحظہ کیجیے‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے‘ کل پوری کائنات تباہ ہو جائے گی‘ دنیا میں اکیسویں صدی کا سورج طلوع نہیں ہو گا‘‘ بل کلنٹن نے یہ کہا اور ٹیلی ویژن اسٹوڈیو سے باہر نکل گئے‘ بل کلنٹن کے بعد کولن پائول عوام کے سامنے آئے اور فوجی انداز میں کہا ’’لیڈیز اینڈ جنٹل مین‘ آپ کے لیے ایک بری خبر ہے اور دوسری اچھی‘ میں پہلے آپ کو بری خبر سنائوں گا۔
اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے ہم نے 1991 میں گلف میں کیا کیا تھا؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ یہ کل پوری دنیا کو تباہ کر دے گا‘ یہ بری خبر ہے لیکن اچھی خبر یہ ہے‘ ہم کل اللہ تعالیٰ کے ساتھ مل کر عراق کو تباہ کر دیں گے‘‘ میں کہانی کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں‘ امریکی صدر بش سینئر نے 1990 میں صدام حسین کو کویت پر قبضے کے لیے اکسایا‘ عراقی فوجیں جب کویت میں داخل ہو گئیں تو امریکا نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کر دیا‘ یہ امریکی سازش تھی اور اس سازش سے سعودی عرب‘ عراق اور کویت تینوں کی معیشت تباہ ہو گئی۔
بل کلنٹن کے دور میں امریکا عراق کشمکش عروج پر پہنچ گئی‘ امریکی شہریوں کو خوف تھا عراق کیمیائی ہتھیاروں سے امریکا پر حملہ کر دے گا چنانچہ کولن پائول نے دنیا کی تباہی کو عراق کی تباہی بنا دیا‘ اس نے امریکی نفسیات کے مطابق یہ کریڈٹ بھی امریکا کے کھاتے میں ڈال دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی عراق کو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ تباہ نہیں کر رہا امریکا کر رہا ہے اور آخر میں بل گیٹس کی باری تھی‘ وہ آیا‘ مسکرایا اور کیمروں کی طرف دیکھ کر بولا ’’میرے پاس آپ کے لیے ایک اچھی خبر ہے اور دوسری بہت اچھی‘‘ وہ رکا اور بولا ’’اچھی خبر یہ ہے میں دنیا کے ان تین لوگوں میں شامل ہوں جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ تک پیغام پہنچانے کے لیے منتخب کیا‘ میں نے براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ ڈائیلاگ کیا۔
یہ اچھی خبر ہے اور بہت اچھی خبر یہ ہے‘ مائیکرو سافٹ نے وائے ٹوکے کا حل تلاش کر لیا ہے اور ہم یہ حل کل لانچ کر دیں گے‘‘ پورے امریکا نے کھڑے ہو کر تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ میں کہانی کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو ’’وائے ٹو کے (Y2K)‘‘ کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ 31 دسمبر 1999 تک ہمارے کمپیوٹرز میں تاریخ کی جگہ تین زیرو نہیں آ سکتے تھے‘ یہ ایک مشکل ایشو تھا اور اس ایشو کی وجہ سے پوری دنیا پریشان تھی کہ ہم جب سن 2000 میں جائیں گے تو ہمارے تمام کمپیوٹر جواب دے جائیں گے‘ بینک‘ دکاندار‘ شاپنگ مالز‘ موبائل فون سروس‘ ائیرلائین‘ ٹرین اور بس سروس غرض دنیا کی ساری انڈسٹریز شدید ٹینشن میں تھیں۔
یہ ساری انڈسٹریز رسیدیں جاری کرتی ہیں اور ہر رسید پر تاریخ درج ہوتی ہے جب کہ کمپیوٹر سسٹم یکم جنوری 2000 کی تاریخ ہی درج نہیں کر سکتے تھے چنانچہ بحران صاف نظر آ رہا تھا‘ دنیا نے اس ایشو کا نام ’’وائے ٹوکے‘‘ رکھ دیا تھا‘ وائے سے مراد ائیر(Year) تھا‘ ٹو سے مراد دو کی سیریز کی صدی تھا اور کے سے ہزار مراد تھا‘ یہ 1999 کی سب سے بڑی خبر تھی اور دنیا کا سارا میڈیا سارا دن ’’وائے ٹوکے‘‘ کا ورد کرتا رہتا تھا‘ دنیا اس مسئلے کے حل کے لیے بل گیٹس کی طرف بھی دیکھ رہی تھی‘ یہ روز اس سے پوچھتے کیا مائیکرو سافٹ ’’وائے ٹوکے‘‘ کا کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا اور یہ کندھے اچکا کر آگے نکل جاتے تھے چنانچہ بل گیٹس نے وائے ٹوکے حل کرنے کا اعلان کر کے دنیا کو خوش کر دیا۔
ہم اب کہانی کے منطقی نتیجے کی طرف بڑھتے ہیں‘ بل کلنٹن سیاستدان تھے‘ سیاستدانوں کی زندگی اچھی اور بری خبروں کے درمیان بہتی رہتی ہے‘ یہ لوگ قوم کو ہمیشہ بری خبر سے پہلے اچھی خبر سناتے ہیں اور ان کی زیادہ تر اچھی خبریں جعلی ہوتی ہیں چنانچہ بل کلنٹن نے سیاستدانوں کی فطرت کے عین مطابق پہلے ایک اچھی خبر تخلیق کی‘ اس نے لوگوں کے اندر حب الوطنی کا جذبہ ابھارہ اور پھر انھیں بری خبر سنا دی‘ کولن پائول فوجی تھا‘ یہ 35 سال امریکی فوج میں رہا اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی حیثیت سے ریٹائر ہوا‘ فوجیوں کی نظر میں دشمن کی تباہی بہت اچھی خبر ہوتی ہے۔
یہ ہمیشہ چاہتے ہیں یہ دشمن کے مرنے کے بعد مریں خواہ یہ دشمن کی موت کے چند سیکنڈ بعد ہی کیوں نہ مر یں چنانچہ کولن پائول کی نظر میں دنیا کی تباہی میں دو نقطے مضمر تھے‘ اللہ تعالیٰ گلف وار کی وجہ سے امریکا سے ناراض تھا اور یہ پورے امریکی معاشرے کو سزا دینا چاہتا تھا اور یہ اس کی نظر میں بری خبر تھی اور اچھی خبر یہ تھی امریکا کل عراق کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو بھی اپنے فوجی کریڈٹ میں درج کرنا چاہتا تھا جب کہ بل گیٹس سیلف میڈ بزنس مین ہیں اور سیلف میڈ بزنس مینوں کی زندگی میں بری سے بری خبر بھی بری خبر نہیں ہوتی‘ یہ برے سے برے حالات میں سے بھی ’’اپارچیونٹی‘‘ نکال لیتے ہیں چنانچہ اس نے قوم کو بتایا۔
میرے پاس دو اچھی خبریں ہیں‘ اچھی خبر اور بہت اچھی خبر‘ اچھی خبر اللہ تعالیٰ سے رابطہ تھا اور بہت اچھی خبر یہ تھی مائیکروسافٹ کل ’’وائے ٹوکے‘‘ کا حل دے دے گا‘ ہم اب اگر اس بہت اچھی خبر کی گہرائی میں جا کر دیکھیں تو ہمیں دو چیزیں ملیں گی‘ اول بل گیٹس نے سوچا ’’وائے ٹوکے‘‘ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ دنیا نے کل ختم ہو جانا ہے‘ میں لوگوں کو ’’ہم کل اس مسئلے کا حل لانچ کر دیں گے‘‘ جیسی خوش خبری دے کر خوشی دے سکتا ہوں‘ اس خوش خبری سے کم از کم لوگوں کی زندگی کا آخری دن تو اچھا گزر سکے گا چنانچہ اس نے یہ خوش خبری دے کر پوری دنیا کو خوش کر دیا اور دوم بل گیٹس نے سوچا کل دنیا ختم ہو جائے گی‘ ہمارے پاس صرف ایک دن ہے لہٰذا میں پوری مائیکرو سافٹ کو دوسرے منصوبوں سے ہٹا کر صرف اور صرف ’’وائے ٹو کے‘‘ پر لگا دوں گا اور ہم انشاء اللہ رات تک یہ مسئلہ حل کر دیں گے۔
ہم رات بارہ بجے کے بعد نیا سافٹ ویئر لانچ کر دیں گے اور یوں لوگ قیامت کا دن طلوع ہونے سے پہلے ’’وائے ٹو کے‘‘ سے آگے نکل جائیں گے‘ آپ اپروچ کا فرق ملاحظہ کیجیے‘ سیاستدان نے دنیا کو موت کی سیدھی سادی نوید سنا دی‘ کولن پائول کی نظر میں بری خبر کی اہمیت پہلے تھی اور وہ دشمن کی ہلاکت کو اچھی خبر سمجھ رہا تھا اس نے پہلے بری خبر سنائی اور پھر دشمن کی موت کو اچھی خبر بنا کر پیش کیا جب کہ سیلف میڈ بزنس مین نے دنیا کی بری ترین خبر کو بھی اچھی اور بہت اچھی خبر میں تقسیم کیا اور اس نے دنیا کے آخری دنوں کو بھی دنیا کے سب سے بڑے مسئلے کے حل پر صرف کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے سوچا میں بہرحال لوگوں کو آخری دن بھی خوشی دوں گا‘ میں ان کے مسئلے حل کروں گا۔
زندگی صرف اور صرف اپروچ کا نام ہے‘ ہم اگر مسئلوں کو مثبت سمجھ لیں تو دنیا کے بڑے سے بڑے مسائل بھی وسائل میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن ہم نے اگر منفی ذہنیت کی عینک پہن رکھی ہو تو ہمیں اگر دنیا کے سارے وسائل بھی مل جائیں تو بھی یہ ہمیں مسائل دکھائی دیں گے‘ بارش کچھ لوگوں کے لیے گیت ہوتی ہے اور کچھ کے لیے کیچڑ‘ کیوں؟ آپ نے کبھی سوچا؟ یہ صرف اور صرف اپروچ کی بات ہے‘ منفی آنکھ کو بارش کیچڑ دکھائی دیتی ہے اور مثبت آنکھ اسے نغمہ‘ اسے گیت بنا دیتی ہے‘ یہ دنیا کیا ہے؟ یہ فیصلہ صرف اور صرف ہماری آنکھیں کرتی ہیں‘ ہمارے ماتھے سے نیچے اگر بل گیٹس کی آنکھیں ہیں تو پھر یہ آنکھیں قیامت کے دن کو بھی اچھی خبر اور بہت اچھی خبر بنا دیں گی۔
ہم دنیا کے آخری دن کو بھی دنیا کے سب سے بڑے مسئلے کے حل پر خرچ کریں گے لیکن اگر ہماری ناک کے دائیں بائیں منفی آنکھیں لگی ہیں تو پھر ہماری زندگی میں صرف خبریں ہوں گی‘ بری خبر اور بہت بری خبر‘ ہم پھر قیامت کے دن کو بھی ’’دشمن پہلے مرے گا‘‘ کا جشن سمجھ لیں گے‘ ہم کولن پائول بن جائیں گے‘ میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہتا ہوں آپ اپنی عینک بدل لیں پوری دنیا تبدیل ہو جائے گی‘ یہ جہنم سے جنت بن جائے گی لیکن کوئی میری بات نہیں مانتا‘ یہ لوگ بری خبروں میں جنم لیتے ہیں اور یہ مرنے تک بری خبر بنے رہتے ہیں‘ یہ قبر میں پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ اپنی عینک نہیں بدلتے‘ یہ بل گیٹس نہیں بنتے۔