منتخب کردہ کالم

بل گیٹس کہتے ہیں: مقتدا منصور

اطلاعتی ٹیکنالوجی کے ذریعے ارب پتی بننے والے جدت طراز بل گیٹس نے چند ہفتے قبل ایک جریدے اٹلانٹک(Atlantic)کوانٹرویو دیتے ہوئے چونکا دینے والی بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری نظام اپنے اندرونی تضادات، عجلت پسندی اورخودغرضی کے باعث ناکام ہوچکا ہے۔ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کرہ ارض کو جو خطرات لاحق ہوچکے ہیں،ان پر قابو پانے کے لیے سوشلسٹ نظام کی تجدید نوکی ضرورت ہے۔ایک ایسا شخص جو سرمایہ دارانہ مسابقت کے نتیجے میں دنیا کے چند سب سے زیادہ مالدار لوگوں کی فہرست میں شامل ہو، اس کے منہ سے سوشلزم کے حق میں گفتگو باعث حیرت وانبساط ہے۔

یہ کرہ ارض اور نسل انسانی اس وقت مختلف نوعیت کے چیلنجوں کاشکار ہے۔جن میں ماحولیاتی آلوگی کے نتیجے میں جنم لینے والاموسمیاتی تغیر،آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ، جوہری تابکاری میں اضافے کے خطرات اور قلت خوراک خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ چیلنجز وقت گذرنے کے ساتھ پیچیدہ اور سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ان کی بروقت روک تھام نہ کی گئی، تو آنے والے زمانوں میںکرہ ارض کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے اور ایک ہزار برس بعد نیست ونابود ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرہ ارض کی موجوودہ صورتحال ہر ذی شعور انسان کے لیے تشویش کا باعث بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف نوعیت کی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔انھی میں ایک تجویز بل گیٹس کی جانب سے بھی آئی ہے، جس پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے آبادیاتی دباؤ پر بات کرتے ہیں۔ 1825میں کرہ ارض پر انسانوں کی کل آبادی ایک ارب تھی۔100برس کے بعد1925میں آبادی دگنی ہوگئی۔ لیکن اگلے 75برس میں یعنی نئی صدی کے آغاز پرآبادی تین گنا( 6ارب)ہوگئی۔ حالانکہ اس دوران عالمی جنگیں بھی ہوئیں اور مختلف قدرتی آفات کے نتیجے میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے۔معروف ماہر مستقبلیات پال کینیڈی کاکہنا ہے کہ آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحان پراگربروقت قابو نہیں پایا گیا، تو 2050 میں کرہ ارض پر انسانی آبادی 18ارب تک پہنچ جانے کے خدشات موجود ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان گنت نئے مسائل کے جنم لینے کے امکانات ہیں۔

19 ویں صدی کے وسط سے شروع ہونے والی صنعتکاری میں دوسری عالمی جنگ کے بعد برق رفتار تیزی آئی ہے۔جس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، کاربن ذرات اور امونیا گیس کے اخراج میںبھی تیزی کے ساتھ اضافے کی وجہ سے کرہ ہوائی میں گیسوں کے قدرتی تناسب میں فرق آرہا ہے۔نتیجتاً آکسیجن خاص طور پر اوزون(جو بھاری آکسیجنO3 ہے) کی مقدار میں تشویشناک حد تک کمی آرہی ہے۔یہ وہ گیس ہے، جو کرہ ارض کے گرد موجود ہوائی غلاف کی اوپری سطح پر فلٹرکی طرح لپٹی ہوئی ہے ۔جو سورج اوردیگر سیاروں سے آنے والی اشعاع کو چھان کر ہم تک پہنچاتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے باعث اس کی موٹائی میں کم ہورہی ہے اور جگہ جگہ سے پھٹنے لگی ہے۔جس کی وجہ سے کرہ ارض کے درجہ حرات میں اضافے کی وجہ سے موسمیاتی تغیرات جنم لے رہے ہیں۔

درجہ حرات میں اضافے کی وجہ سے سمندروں میں عمل تبخیر بڑھ رہا ہے اوربارشوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی گرمی کی وجہ سے قطبین میں موجود گلیشیر پگھل رہے ہیں، جودریاؤں میں طغیانی کا باعث ہیں۔ ایک طرف دریا خشک ہورہے، جب کہ دوسری طرف برسات کے موسم میں شدید نوعیت کی طغیانیاں آرہی ہے۔ سمندر بھی اچھل اچھل کر ساحلی شہروں میں تباہی مچانے لگے ہیں۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤکے باعث اشیائے خوردنی کی مانگ بڑھ رہی ہے، مگر غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔ جس کے دو اسباب ہیں۔اول،درجہ حرارت میں اضافے کے باعث زمین کی زرخیزی کم ہورہی ہے۔ دوئم، سیلابوں کی شدت کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔جو آنے والی دہائیوں میں ایک بڑے غذائی بحران کا سبب بننے جار ہاہے۔

کرہ ارض کی تبدیل ہوتی اس صورتحال کو نجی شعبے محسوس نہیں کررہا، اگر کر بھی رہاہے،تو اس صورتحال کے تدارک کے لیے اس کے پیش نظرکوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔ وہ اپنی دولت میں اضافے کی خواہش میں مگن ہر خطرے سے صرف نظرکیے ہوئے ہے۔جو ان کی خود غرضی اور نااہلی کا کھلا ثبوت ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سطح پر مسابقت میں تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف اشیائے صرف بنانے والی کثیر القومی کمپنیوں نے ملکوں کی سرحدوں کو بے اثر کرکے قومی ریاستوں کو بے توقیرکیا ہے،تو دوسری طرف اسلحہ کمپنیوں اور بیوپاریوں نے مختلف خطوں کے ممالک کے درمیان تنازعات کو ہوادے کر انھیں جنگوں پر اکسایا ہے، تاکہ ان کے اسلحے کی فروخت جاری رہ سکے۔

ایک محتاط اندازکے کے مطابق پوری دنیا میں5کروڑ کے لگ بھگ افرادی قوت اسلحہ سازی کی چھوٹی بڑی صنعتوں سے وابستہ ہے۔ جب کہ 5لاکھ کے قریب سائنسدان اسلحے کو مزید حساس بنانے کے تحقیقی کاموں میں مصروف ہیں۔ یوں اپنے مفادات کے حصول کی خاطر انسانوں کو کہیں مذہب کے نام پر ،کہیں تہذیب وثقافتی روایات کے نام پر اور کہیں سرحدی تنازعات کے نام پر جنگ و جدل کا سلسلہ جاری ہے۔جس کا براہ راست فائدہ اسلحہ سازکمپنیوں اور بیوپاریوں کو پہنچ رہاہے۔ جو اپنے جدید اور حساس اسلحے کوفرخت کرکے تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ انھیں اس سے غرض نہیں کہ انجام کار دنیاکہاں پہنچ سکتی ہے۔

آج کی دنیا میں مذہبیت (Religiosity)کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پس پشت بھی سرمایہ دارانہ مفادات ہیں۔کسی زمانے میں یہ تصورعام تھا کہ جاگیردارانہ معاشرے مذہبیت کی سرپرستی کرتے ہیں، جب کہ سرمایہ داراپنی سرشت میں سیکیولر ہوتا ہے۔ لیکن وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ سرمایہ دار عوام کے عقائدکا بدترین استحصال کرتے ہیں۔وہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطرکسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال سرد جنگ کا زمانہ ہے۔ جس میں سوویت یونین کا رستہ روکنے کے لیے اسلام کے تصورجہاد کو انتہائی منفی انداز میں استعمال کیاگیا۔ مشرق وسطیٰ کی تیل کی دولت پر قبضے کی خاطر مسلمانوں کو یہودیوں سے الجھا دیا گیا۔ اب سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اسلام اور مغرب کے مسیحی عقائد کے درمیان نئے تضادات کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس بات میں کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ القائدہ، جیسی عالمی دہشت گرد عسکری تنظیمیں کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے بنائی گئیں اور ان پر بے پناہ دولت لٹائی گئی۔پہلے القاعدہ اور اب داعش جیسی متشدد عسکری تنظیمیں عالمی سرمایہ داروں کی پس پردہ حمایت اور سرپرستی کی وجہ سے قائم ہوئیں۔یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ بعض عالمی قوتوں کی پس پردہ سرپرستی میںداعش عراق کے تیل سے مالامال علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔یہ بھی اب کوئی راز نہیں رہا ہے کہ وہ تیل بعض مخصوص اشاروں پرچند ممالک کو فروخت کیاجارہاہے ۔عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے متوشش اہل دانش مسلم دنیا میں شیعہ سنی کے قدیمی قضیہ کو نئے تضادات کی شکل دیے جانے کے پس پشت مفادات اور عزائم سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔اس لیے اب اس بات میں کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں کہ سرمایہ دار دنیا اپنے مفادات اورخود غرضانہ تنگ نظری کے باعث اس کرہ ارض کو مزید جہنم بنا رہی ہے۔

لہٰذا بل گیٹس کی جانب سے سوشلسٹ نظام کی تجدید کے مطالبے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مرتبہ ان غلطیوں اور کوتاہیوں سے اس نظام کو پاک کرنا ہوگا جو بیسویں صدی کے اوائل میں سرزد ہوئیں۔سماجی انصاف پر مبنی معاشروں کے قیام کے لیے آمرانہ طرز حکمرانی کی جگہ کثیر الجماعتی جمہوری نظام پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔ اس مقصد کے لیے شراکتی جمہوریت ،پارلیمان میں متناسب نمایندگی کی بنیادپر انتخابات کو یقینی بنانا ہوگا۔ تاکہ سماج کے ہر طبقے کی مناسب نمایندگی ہوسکے۔ معاشی اصلاحات جن میں زرعی اصلاحات کلیدی حیثیت کی حامل ہیں، پرخصوصی توجہ دی جائے۔ جرمنی اور اسکنڈے نیوین ممالک کی طرح سماجی جمہوریت(Social Democracy)کا تجربہ بھی ممکن ہے، لیکن یہ طے ہے کہ دنیا کو استحصال اور مختلف چیلنجز سے پاک کرنے کا واحد ذریعہ سوشلزم کانفاذ ہی ہے۔