بنکاک کا شرمناک واقعہ اور زود فہم نقاد…وقار خان
آزادیٔ تحریر بے لگام نہیںصاحب، اس کی کچھ حدودوقیود مقرر ہیں۔ اکھرلکھنے کے سفرمیں ایسے مقاماتِ آہ وفغاں بھی آتے ہیں کہ قلم سے پہلے جگر تھامنا پڑتا ہے۔ آپ بھلے ہمیں ہلہ شیری دیتے رہیں کہ تلوارہے تیراقلم، مگراہل قلم ہی جانتے ہیں کہ کہاںکہاں انہیں اپنی یہ شمشیر نیام میں رکھنا پڑتی ہے۔ آزادیٔ اظہارکے لیے معروف اکیسویں صدی میں بھی اکثر سطوتِ شمشیر کے آگے شکوہِ قلم مانند پڑ جاتی ہے۔
یقین فرمائیں کہ ہمارے قبیلے کے نڈراوربے باک سمجھے جانے والے کالم کار بھی بعض طاقتور ریاستی اداروں کے خلاف کھل کرنہیں لکھ سکتے۔ ان میں سب سے زورآور ”ریاستی ادارہ‘‘ ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین ہیں۔ ان پر تنقیدتو دورکی بات ہے، یہاں خواتین کو کلی اختیار حاصل ہے کہ وہ آپ کی طرف سے کی گئی اپنی تعریف کا شکریہ ادا کریں یا اسے ہراسمنٹ اور اپنی توہین شمارفرما کرآپ کا گریباں چاک کردیں۔ البتہ ہمیں سیاستدانوں اور عام مردحضرات کے خلاف اپنے جوہردکھانے کی مکمل آزادی ہے۔ اللہ کے کرم سے ہم انہیں جتنا چاہیں لتاڑ سکتے ہیں۔ گزشتہ کالم خاتون اے سی کی ڈائری پر بھی اس نام نہاد شکوہِ قلم کو کئی غزال آنکھوں کی ایسی سطوت کا سامنا کرنا پڑا کہ بے اختیار ہمیں لکھنؤ کے ایک اہلِ زباں یاد آ گئے۔ یہ اہل زباں بنکاک کے ایک فور سٹار ہوٹل میں ہمارے ہاتھ لگے تھے۔ ہم بصد شرمندگی عرض کر دیں کہ قصہ چونکہ بنکاک کی بھیگی شب کا ہے، سو لامحالہ تھوڑی بہت اخلاقی گراوٹ تو اس میں ہو گی مگر امید ہے کہ ”ضرورت کالمی‘‘ کے تحت آپ یہ کڑوا گھونٹ بھر ہی لیں گے ۔ ویسے بھی تو گاہے آپ بچوں سے چھپ چھپا کر اپنے سمارٹ فون پر نرگس کے مجرے اور اس قماش کا دیگر مواد بھی دیکھ ہی لیتے ہیں، خیر! کوئی بات نہیں، سب چلتا ہے۔
اردو سے ہماری ذاتی ناآشنائی تو ہماری تحریروں سے عیاں ہے، البتہ کسی اہل زباں سے صحبت کا کوئی موقع ہم ضائع نہیں کرتے۔ اگر مقرر کوئی خوش اطوار سی خاتون ہو تو یہ لطف دو آتشہ بھی ہو جاتا ہے، بصورت دیگر ہم دستیاب مال پر ہی گزارہ کر لیتے ہیں۔ اسی اصول کے تحت لکھنوی صاحب کو بھی ہم نے ”آڑے ہاتھوں لیا‘‘ اور وہ بھی دیارِ غیر میں قدر دان پا کر آداب، آداب کرتے ہمارے آگے بچھتے چلے گئے۔ لکھنؤکی شائستہ اور نستعلیق اردو میں غوطے کھاتے ہمیں محسوس ہوا کہ قریب بیٹھی ایک مقامی تھائی مہ جبیں کہ جس کی تنگ جینز کے آگے ہماری تنگ دستی حقیر تھی، نہ صرف ہماری گفتگو دلچسپی سے سن رہی ہے، بلکہ اپنا لُچ تلنے کو بھی بے تاب ہے۔ قبلہ لکھنوی بھی اشتیاق ہٰذا تاڑ گئے اور لُچ متوقع کے انتظار میں بے چینی سے صوفے پر پہلو بدلنے لگے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں، حسینہ گلبدن کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور اس نے دخل درمعقولات کا ارتکاب کرتے ہوئے انگریزی میں کہا کہ وہ بھی اردو بول سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم دونوں کو خوشگوار حیرت ہوئی۔
اب لکھنوی حضور نے یوٹرن لیتے ہوئے ہمیں نظر انداز فرما دیا اور اپنا روئے مبارک اور نستعلیق اردو کی توپوں کا رخ اس پری وش کی طرف موڑ دیا۔ ابھی آپ نے پہلا فائر ہی کیا تھا کہ ”چشم بددور! اے نورِ دیدہ و سرورِ دل! اگرطبع نازک پرگراں نہ گزرے توبندۂ حقیر و پُرتقصیرآپ کا نامِ نامی، اسمِ گرامی پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے…؟‘‘ وہ قتالہ انہیں ٹوک کر انگریزی میں گویا ہوئی ”نہیں، نہیں میں اردو نہیں سمجھ سکتی، مجھے تو اس زبان کے فقط چند جملے یاد ہیں، جن کا مطلب بھی مجھے معلوم نہیں، آپ کہیں تو پیش کروں‘‘ لکھنوی صاحب قدرے مایوس ہوئے مگر خوش دلی سے بولے ”پلیز، پلیز‘‘… الامان! اب جو اس کافر نے اردو میں انہیں پانچ، پانچ ٹن کی آٹھ دس گالیاں دیں تو قبلہ سکتے میں آ گئے۔ نامعقول عورت نے اپنی ناشائستہ اردو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ایک پاکستانی دوست نے اسے یہ جملے رٹا کر تاکید کی تھی کہ یہ اردو کی خوبصورت ترین باتیں ہیں، پس جب بھی تمہیں کوئی اردو بولنے والا نظر آئے، سنا دینا، اگر انعام نہیں تو داد تحسین ضرور ملے گی۔ کم بخت نے صورتحال کی نزاکت کا احساس کیے بغیر دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا ”میری اردو کیسی ہے ؟‘‘ قربان جائوں لکھنوی تہذیب کے۔ قبلہ نے اپنا سر اس بت کافر کے سامنے جھکا کر فرمایا ”محترمہ! اپنا جوتا اتاریئے اور مسلسل ہمارے سر پر برسائیے‘‘۔
اس شرمناک قصے کی آڑ میں عرض یہ کرنا ہے کہ ہم بامِ فلک سے ستارے نوچ لانے والے قلمدار تو نہیں، البتہ اپنے ناقص الفاظ پر جہاں وابستگانِ علم و ادب کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، وہاں ”نقادوں‘‘ کے فنِ جراحت کے ایسے ایسے نادر کمالات سے بھی واسطہ پڑتا ہے کہ بے اختیار لکھنوی صاحب کا قول زریں یاد آ جاتا ہے۔ ایسے نقاد ”سرعتِ اظہار‘‘ کے عارضے کا شکار ہوتے ہیں اور تحریر کو سمجھے بغیر فوراً اپنی رائے سے نواز دیتے ہیں۔ اپنے کالم نگاری کے ابتدائی دور میں کیا جانے والا ایک خوبصورت تبصرہ ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا۔ شناسا شخصیت نے فرمایا ”آپ کا اشتہار اخبار میں دیکھا تھا، اچھا لگا، کتنے پیسے دیئے تھے اس کو چھپوانے کے لیے؟‘‘ عرض کیا ”جتنے بھی دیئے تھے، پورے ہو گئے‘‘ ایسی ہی ایک خاتون نے فون کیا۔ چٹخارے لیتے ہوئے بولیں ”پکوڑے لیے تھے، لفافے پر آپ کا کالم تھا، بڑا مزا آیا‘‘ ہم نے پوچھاکہ وہ کالم کی بات کر رہی ہیں یا پکوڑوں کی؟ ستم ظریف نے برجستہ جواب دیا ”دونوں کرارے ہیں۔ آپ کالم چٹ پٹا لکھتے ہیں لیکن ایک دفعہ پھجے کے پکوڑے بھی کھا لیں ناں… تو پتہ چلے‘‘ ہم قارئین کی ایسی الفتوں کی برکھا میں کئی بار جل تھل ہوئے ہیں۔ کچھ خواتین و حضرات دعا کو دغا ہی پڑھنے پر مصر ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک ادبی شخصیت کے متعلق لکھا کہ لغت ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے۔ ایک مجاہد اردو غصے میں بولے ”لاحول ولا قوۃ! آپ نے ایسے قابل آدمی کے بارے میں یہ کیا لکھ دیا کہ لعنت ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے‘‘۔
بعض باذوق قارئین جب فکاہیہ کالم کو بھی سنجیدہ سمجھ کر پڑھتے ہیں تو بڑے لطیفے جنم لیتے ہیں۔ ہم نے ”آپ کے لیے یہ ہفتہ کیسا رہے گا؟‘‘ برانڈ کالموں میں فرضی کردار طوطے شاہ کی زبانی اس طرح کی پیشگوئیاں لکھیں کہ ”رواں ہفتے عشقیہ اوصاف کے سبب آپ کے پٹنے کا اندیشہ ہے‘‘ اور ”جمعہ کو بری خبر کا امکان ہے، شاید رزلٹ آئوٹ ہو گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ان تحریروں کے عمیق مطالعہ کے بعد کچھ خواتین و حضرات نے ہم سے پوری سنجیدگی کے ساتھ طوطے شاہ کا پتہ پوچھا تاکہ وہ اپنی قسمت کا حال جاننے کے لیے ان سے رجوع کر سکیں۔ ایسے ہی ایک کالم میں ہم نے لکھا کہ مقابلے کے امتحان کاجنرل نالج کا پرچہ آئوٹ ہو گیا ہے۔ سوالات اس طرح کے تھے ”تحریک بحالیٔ آمریت کے اغراض و مقاصد اور کامیابیاں بیان کریں‘‘ اور ”کیدو کی حیات و خدمات پر نوٹ لکھیں‘‘وغیرہ۔ اب ہم کیا عرض کریں کہ بعض حضرات نے ” یہ پرچہ آئوٹ ہونے‘‘ کی سنجیدگی کے ساتھ بھرپور مذمت کی اور مقدور بھر ناقص نظام امتحان کو کوسا۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں ،جن پر نقادکے آگے سر جھکا کرکہنے کو دل کرتا ہے کہ اپنا جوتا اتاریے حضور۔
گزشتہ کالم میں حکومت اور انتظامیہ کی چکربازیوں کا بہ زبانِ خاتون آفیسر طنزیہ انداز میں ذکر کیا گیا۔ ایک پسماندہ دیہات میں رہنے والے اس پینڈو قلم کار کو شعلہ بار تبصروں سے پتہ چلا کہ ”زنانہ نویسی‘‘ کتنی فاش غلطی ہے۔ اصل نفس مضمون سے صرف نظرکرتے ہوئے زیبِ داستاں کے لیے عرض کیے گئے خواتین کی عادات و اطوارکے حصوں کا گریباں پکڑ لیا گیا۔ خیر بندہ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے۔ ہم قبلہ لکھنوی کی طرح اپنا سر جھکاتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ ”مردانہ نویسی‘‘ پر مشتمل اگلا کالم لکھ کر اپنے اس گناہ کا کفارہ ادا کریں گے۔ سیاستدان، مَرد اور مُردے کر بھی کیا سکتے ہیں بھلا، جتنا مرضی رگیدو مگر یہ خواتین جیسے طاقتور ریاستی ادارے، الامان… لوگ آسان سمجھتے ہیں کالم نگارہونا۔