بوتلوں کی گھریلو اقسام پر ایک کالم…خالد مسعود خان
اللہ مجھے بد گمانی سے محفوظ رکھے لیکن میرا اندازہ درست نکلا۔ مجھے یقین تھا کہ قبلہ شرجیل انعام میمن کے کمرے سے پکڑی جانے والی شہد اور زیتوں کے تیل والی بوتل سے شہد اور زیتوں کا تیل ہی نکلے گا۔ سو اس عاجز کا اندازہ درست نکلا۔ سندھ دھرتی پر ہونے والے لیبارٹری معائنے اور اس کے نتیجے نے شراب کی بوتل والے غبارے کی ہوا نکال کر اس میں شہد اور زیتون کا تیل بھر دیا ہے۔ لیبارٹری کتنی ہی اچھی شہرت کی مالک کیوں نہ ہو ‘معائنہ تو بہر حال انسان ہی کرتے ہیں اور اس معائنے سے پہلے ”مال مقدمہ‘‘ بھی انسان ہی تبدیل کرتے ہیں اور معائنے کا رزلٹ بھی انسان ہی مرتب کرتے ہیں۔ ظاہر ہے انسان کہیں تو رہتا ہے اور جہاں رہتا ہے وہاں کے کچھ قاعدے قوانین ہوتے ہیں۔ اسے کسی دھرتی سے منسوب نہ سمجھا جائے‘ مگر سندھ میں رہنے کے کچھ قاعدے قانون ہیں اور یہ وہاں کے حکمرانوں نے بنائے ہیں۔ بھلا حکمرانوں کے قاعدے قوانین سے کوئی فرد کب تک اور کیسے لڑ سکتا ہے؟
شاہ جی کہنے لگے: اگر میں چیف جسٹس صاحب کی جگہ پر ہوتا تو… ابھی شاہ جی نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ میں نے انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ آپ حدِ ادب عبور کر رہے ہیں۔ شاہ جی نے پوچھا: وہ کیسے؟ میںنے کہا: آپ کیسی گستاخانہ گفتگو کر رہے ہیں۔ شاہ جی نے پھر حیرانی سے پوچھا کہ میں نے کیا کہا ہے؟ میں نے کہا: آپ نے کہا ہے کہ اگر میں چیف جسٹس صاحب کی جگہ پر ہوتا۔ بھلا آپ ان کی جگہ پر کیسے ہو سکتے ہیں؟ ایسا کہنا ممکن ہے توہین عدالت ہو۔ مجھے قانون کا تو علم نہیں کہ وہ ایسے دعوے پر کیا کہتا ہے‘ لیکن موجودہ حالات میں ایسا سوچنا اور برملا کہنا بہر حال احتیاط کا متقاضی ہے۔ بہتر ہے اس سے پرہیز کیا جائے۔ انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ Ignorance of law is no excuse یعنی قانون سے لا علمی ‘ معافی کا جواز نہیں ہے۔
شاہ جی نے فوراً غائبانہ طور پر عدلیہ سے غیر مشروط معافی مانگی اور کہنے لگے: اگر میں چیف جسٹس صاحب کے ہمراہ ہوتا… یہ کہہ کر انہوں نے میری طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا کہ بات آگے کروں۔ میں نے اجازت میں سر ہلا دیا۔ شاہ جی کہنے لگے اگر میں ان کے ہمراہ ہوتا تو یہ بوتلیں اپنے سامنے سیل کرواتاا ور خصوصی ہر کارے کے ذریعے پنجاب فرانزک لیب بھجوا دیا‘ پھر دیکھتا کہ شراب اور شہد ادل بدل کیسے ہوتی ہیں۔ شاہ جی نے ساتھ کھڑے ہوئے گجر سے پوچھا: تم شراب پیتے ہو؟ گجر گھبرا گیا اور کہنے لگا: شاہ جی! یہ سوال ہے یا دعوت؟ شاہ جی نے کہا کہ تم سید بادشاہ سے کیسے واہیات سوال کر رہے ہو۔تم سے صرف یہ پوچھا گیا کہ تم شراب پیتے ہو؟ گجر اس دوران سنبھل چکا تھا‘ کہنے لگا: ہرگز نہیں‘بالکل نہیں‘ قطعاً نہیں۔ شاہ جی نے پوچھا :تم نے کبھی شراب دیکھی ہے؟ گجر کہنے لگا: جی دیکھی ہے‘ لیکن دور دور سے دیکھی ہے۔ کئی بار انگریزی فلموں میں بھی دیکھی ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: اور شہد کو کبھی نزدیک سے دیکھا ہے یا اسے بھی دور دور سے ہی دیکھا ہے؟ گجر ناراض ہو کر کہنے لگا: شاہ جی! آپ مجھ پر شک کر رہے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: حالانکہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا‘ تاہم اگر تمہیں ایسا کوئی شک ہوا ہے تو اس کی معذرت۔ اب یہ بتائو: تم شراب اور شہد کو دیکھ کر فرق محسوس کر سکتے ہو؟ گجر کہنے لگا ‘ لؤ جی ! یہ کونسی مشکل بات ہے۔ سونگھ کر پتا چل جاتا ہے۔ ہلا کر فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شراب پانی کی طرح پتلی ہوتی ہے اور شہد اتنی گاڑھی ہوتی ہے کہ ہلائیں تو چھلکتی نہیں۔ میں آپ کو اس کی ٹیکنیکل وضاحت کرتا ہوں۔ ہر مائع کی Viscosity یعنی گاڑھا پن مختلف ہوتا ہے۔ یہ گاڑھا پن مختلف درجہ حرارت پر مختلف ہو سکتا ہے‘ خاص طور پر ان چیزوں کا جو زیادہ گاڑھی ہوتی ہیں۔ شہد کی کمرے کے عام درجہ حرارت یعنی 21.1 سینٹی گریڈ پر Viscosity 10,000cp سے لے کر 12,200cp تک ہو سکتی ہے۔ یہ شہد کی قسم پر بھی منحصر ہے۔ اس گاڑھے پن کے حامل مائع کو بوتل میں ہلائیں تو چھلکنا درکنار بمشکل ہلتا ہے۔ دوسری طرف الکوحل کی Viscosity بھی اس کی مختلف اقسام کے مطابق 0.56cp سے لے کر 1.92cp ہوتی ہے۔ دونوں میں یعنی شراب اور شہد میں کوئی موازنہ ہی ممکن نہیں۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں نے کہا: چوہدری! ایمانداری کی بات ہے کہ میں تیرے پڑھے لکھے ہونے پر ہمیشہ شک کرتا تھا‘ آج یہ شک دور ہو گیا ہے۔ تُو تو خاصا با علم آدمی ہے۔
شاہ جی کہنے لگے میں نے اسی لیے اس سے یہ سوال کیا تھا کہ مجھے علم تھا کہ یہ اس کا متعلقہ فیلڈ ہے۔ یہ کہہ کر شاہ جی نے آنکھ ماری۔ گجر ایک بار پھر ہتھے سے اکھڑ گیا اور کہنے لگا: میں خوب سمجھتا ہوں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ شاہ جی نے گجر سے ایک بار پھر معذرت کی اور کہنے لگے: گجر یار تو خواہ مخواہ ناراض ہو جاتا ہے‘ میں تو تمہیں ہمیشہ سے پڑھا لکھا آدمی سمجھتا ہوں۔ بس تمہارا یہی دوست تم پر شک کرتا رہتا تھا‘ آج یہ مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے حل ہو گیا کہ تو پڑھا لکھا آدمی ہے اور یہ بھی کہ شراب اور شہد میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے‘ لیکن ایک مسئلہ اور بھی حل طلب ہے اور وہ یہ کہ آخر یہ سب بڑے لوگ شہد کو شراب کی بوتل میں کیوں ڈالتے ہیں؟ شاہ جی مجھ سے پوچھنے لگے: ہاں! تم بتائو۔ تمہارے گھر میں شہد کس بوتل میں ہوتی ہے؟ میں نے کہا: تین قسم کی بوتلوں میں۔ زیادہ ہو تو روح افزا وغیرہ کی خالی بوتل میں۔ امریکہ وغیرہ سے لائوں تو اس کی اصلی بوتل میں اور اگر کسی کے گھر سے ”مار‘‘ کر لائوں تو عموماً جیم وغیرہ کی خالی بوتل میں۔
شاہ جی نے گجر سے پوچھا کہ تمہارے ہاں؟ گجر کہنے لگا: جیسا کہ خالد نے بتایا ہے‘ ہمارے گھر بھی تقریباً اسی قسم کی بوتلوں میں ہوتا ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: لو دیکھو۔ حتیٰ کہ گجر کے گھر میں بھی شہد اسی قسم کی بوتلوں میں ہوتا ہے‘ جیسا کہ تمہارے ہاں جن بوتلوں میں ہوتا ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: ایمانداری کی بات ہے کہ میرے گھر میں بھی انہی تین اقسام کی بوتلوں میں شہد ہوتا ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی! آپ تو شہد اکثر مانگ تانگ کر یا چھین جھپٹ کر اکٹھا کرتے ہیں‘ ایمانداری سے بتائیں کبھی کسی گھر سے شہد کو شراب کی بوتل میں سے نکالا یا اٹھایا ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: حالانکہ تمہارا سوال نہایت نامعقول اور واہیات ہے بلکہ قابل دست اندازیٔ پولیس بھی ہے‘ لیکن فی الحال تمہاری اس حرکت کو معاف کرتے ہوئے عرض کیا ہے کہ مجھے گزشتہ تیس پینتیس سال میں ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ گجر کہنے لگا: ہاںمجھے یاد آیا ایک بار میں نے ایک دوست کے گھر سے شراب کی بوتل ‘ شہد کی بوتل سمجھ کر اٹھا لایا تھا‘ اگلے دن دیکھا تو اس میں شراب ہی تھی۔ شاہ جی کہنے لگے: گجر! تم نے اس کی Viscosity چیک نہیں کی تھی؟ گجر کہنے لگا: میں دراصل جلدی میں تھا اس لیے۔
شاہ جی کہنے لگے: بات یہ نہیں کہ شرجیل میمن چھوٹ گئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک طرف چیف جسٹس آف پاکستان کو شرجیل میمن یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ شراب میری نہیں۔ یعنی وہ چیف جسٹس کو یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ شراب نہیں۔ صرف ملکیت سے انکاری ہیں‘ شراب سے نہیں۔ جبکہ لیبارٹری رپورٹ کہہ رہی ہے کہ یہ شراب ہی نہیں۔ ویسے شہد اور شراب میں فرق جانچنے کے لیے بھی اگر لیبارٹری کی ضرورت ہے اور بظاہر نظر آنے والی شراب شہد ثابت ہوتی ہے تو اس ملک کے اداروں کا لیبارٹریوں کا‘ رپورٹوں ‘ان رپورٹوں کی بنیاد پر عدالتی فیصلوں کا اور اس حوالے سے سارے نظام انصاف کا اللہ حافظ ہے۔
ویسے عدلیہ کو ایک حکم نامے کے تحت شہد کو آئندہ شراب کی بوتل میں رکھنے پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ ماضی کی خیر ہے‘ آگے کے لیے بڑی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ تاہم آئندہ احتیاطاً ”مال پانی‘‘ کو دوسروں کے سپرد کر کے جانے کے بجائے اپنے سامنے مہر بند کروا کر اپنے بندے کے ہاتھ کسی اعتباری اور آزاد لیبارٹری میں بھجوانا چاہئے ورنہ بڑی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔