بچ بچ کے چل…ہارون الرشید
امتحان اس لیے اترتے ہیںکہ ہم سیکھ سکیں ‘اپنی اصلاح کر سکیں۔ افراد اور اقوام کے انداز فکر میں چھوٹے ‘ بڑے مبالغے کار فرما ہوتے ہیں۔ حادثے بتاتے ہیں کہ رک کر ہمیں غور کرنا چاہئے۔
زندگی کی رِہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے کوئی آئینہ خانہ بارِ دوش ہے
لاہور میں 30 اکتوبر 2011ء کے تاریخی جلسہ عام کی گونج باقی تھی کہ جوشِ عمل سے بھرے کپتان نے ایک دن مجھ سے کہا: میں ایک اور دھماکہ کرنے والا ہوں۔ یہ پارٹی میں الیکشن کرانے کا فیصلہ تھا۔ جہانگیر ترین پرویز خٹک کی پشت پر آن کھڑے ہوئے اور سیکرٹری جنرل بنوا دیا۔ طوفان کی طرح ابھرتی پارٹی دلدل میں دھنس گئی۔ ہنگامہ الیکشن تک جاری رہا ۔ جماعت میں دھڑے بندی بڑھتی گئی۔ ہر سطح پر تصادم میں اضافہ ہوتا گیا۔ جیسا کہ بعد میں جسٹس وجیہہ الدین کی رپورٹ سے منکشف ہوا‘ووٹ خریدے گئے۔زیادہ بڑی غلطی ٹکٹوں کی تقسیم میں ہوئی۔مگر ایک اہم سبب یہ انتخابات بھی تھے‘ 2013ء کے الیکشن ہار دئیے گئے۔ خان سے کہا گیا: سیکرٹری جنرل ایک انتظامی عہدہ ہے۔ اس پر الیکشن کا کیا جواز۔ اس نے کہا: یہ بات تو کسی نے مجھے بتائی ہی نہیں۔
لیڈر اپنے مشیروں کا انتخاب خود کرتا ہے۔ اپنے مزاج ، افتادِ طبع اور استعداد کے مطابق ۔ ناقص مشیر اس لیے راہ پاتے ہیں کہ خود رہنما کے انداز فکر میں کہیں کجی کار فرما ہوتی ہے۔ وزرائِ اعلیٰ ، وزیروں اور اہم ترین سرکاری مناصب کے لیے عمران خان نے معیاری لوگ نہیں چنے۔ بالخصوص سردار عثمان بزدار اور محمود خان ۔ ایف بی آر کے چیئر مین جہانزیب خان اس نازک اور اہم منصب کے لیے قطعاً موزوں نہیں۔ لاہور کی مجلسوں میں گھومنے پھرنے والوں کو یاد ہے کہ شام کو وہ عاصمہ جہانگیر کے ہاں پائے جاتے۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری پہ بھی اعتراضات ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اعظم خان کے ذریعے وہ پنجاب میں کاروبارِ حکومت چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ عبدالعلیم خان نے، خان صاحب سے شکایت کی کہ موصوف بات نہیں سنتے۔ اگر یہ درست ہے‘ تو بے حد تشویشناک۔ وزیراعلیٰ کو وزیراعلیٰ ہونا چاہئے۔ کاروبارِ سرکار ریموٹ کنٹرول سے نہیں چلتا۔ کمزور لیڈر کو عنان سونپ دینا ، ناقص پائلٹ کو جہاز سونپ دینے کے مترادف ہے۔ محمد خان جونیجو کا انتخاب اس گمان سے تھا کہ ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔ وہ صدر محمد ضیاء الحق کی صوابدید پر ہوں گے۔ نتیجہ کیا نکلا؟
اسلام آباد اور دہلی کے درمیان حالیہ سفارت کاری نے لطیفے گھڑنے والوں کو اکسایا ہے۔ دانا لوگوں سے پوچھا جاتا تو وزیراعظم کو یقینا وہ بتاتے کہ پاک بھارت مذاکرات کے لیے حالات سازگار نہیں۔ کشمیر میں بے قابو تحریک نے بھارتی قیادت کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ بغاوت ایسی گہری، شدید اور ہمہ گیر ہے کہ دلّی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ سانپ کے منہ میں چھپکلی ہے۔ اگلتے بنتی ہے نہ نگلتے۔ کشمیریوں کو ٹھنڈا کیا نہیں جا سکتا۔ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا نہیں جا سکتا۔ انسانی حقوق کے بارے میں جون میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ سے آشکار ہوا کہ دنیا کو اب دھوکے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ظلم و بربریت نے ایسی جہات وادی میں دیکھی ہیں کہ دنیا بھر کے احساس رکھنے والے چونک اٹھے ہیں۔ بھارتی فوج کے سفّاک طرز عمل کا چرچا بڑھتا جائے گا اور اس کی مشکلات بھی۔ دوسرے مسائل بھی تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ آبادی کا ایک پورا طبقہ بغاوت پر اتر آئے تو جان پہ بن آتی ہے۔ نریندر مودی اور دوسرے بھارتی لیڈروں نے کشمیر میں جو کچھ بویا تھا، اب انہیں کاٹنا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق ہاتھوں سے دی گئی گانٹھیں، دانتوں سے کھولنی ہوں گی۔ واقعہ یہ ہے کہ دانتوں سے بھی کھل نہیں سکتیں۔ بیتے عشروں کے دوران ایران، افغانستان اور مشرق وسطیٰ نے واضح کیا کہ زمانہ کروٹ بدلتا ہے تو کوئی اسے تھام نہیں سکتا۔ طوفان بپھرتے ہیں تو تدابیر کے تنکے راہ نہیں روک سکتے۔ کشمیریوں نے اپنے لہو سے جو بیج بو دیئے ہیں، ان کے تناور ہونے کا وقت قریب آ لگا ہے۔ بھارت کو غیر مستحکم کرنے والا کوئی بھی حادثہ، آزادیِ کی راہ کھول دے گا۔ خطّے کی پوری سیاست ہی بدل جائے گی۔ نوٹ بندی یعنی پرانی کرنسی منسوخ کرنے سے نریندر مودی نے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ نتیجہ برعکس نکلا۔ نہ صرف سینکڑوں ارب روپے جمع کرنے کا خواب متشکّل نہ ہو سکا، معیشت کو نقصان پہنچا۔ چالاک آدمی نے ایک بڑی چال یہ چلی کہ بھارتی سپریم کورٹ سے آئین کی دفعہ 35 اے منسوخ کرنے کی امید باندھی۔ عدالت نے ایک عظیم بحران کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا، غلط فیصلے سے شاید جو پھوٹ پڑتا۔
رافیل طیاروں کے سکینڈل نے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سابق فرانسیسی صدر اولاندے کے انکشاف نے بھارتی سیاست میں نہ تھمنے والا مدّ و جذر اگا دیا ہے۔ فرانسیسی حکومت پر نریندر مودی نے دبائو ڈالا کہ 130 ہزار کروڑ کا یہ سودا، انیل امبانی کے ذریعے انجام پائے۔ امتداد زمانہ نے جنتا پارٹی کی حریف کانگرس کو اگرچہ کمزور کر دیا ہے لیکن یلغار شدید ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امبانی نریندر مودی کے دوست ہیں۔ ساز باز سے وہ اربوں روپے ہڑپ کر گئے۔ اپوزیشن متحد ہو گئی تو مودی کے لیے انتخابی فتح دشوار ہو جائے گی۔ نہ بھی ہو سکی تو نشستیں کم ہوں گی۔ الزام پیچھا کرتا رہے گا۔ عام بھارتی شہری کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا۔ انتخابی سیاست کے رازوں میں سے ایک یہ ہے کہ ووٹر زیادہ ناراض ہو جائے تو انتقام کی آرزو غالب آتی ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال شیخ رشید ہیں۔ 1985ء سے پیہم ظفر مند ہوتے شیخ صاحب 2008ء میں منہ کے بل گرے۔ صرف دس ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔ برسوں لال مسجد کے ملبے میں پڑے سسکتے رہے۔ بحالی تب ممکن ہوئی جب کپتان نے ان کا ہاتھ تھاما، جسے وہ طعنے پہ طعنہ دیا کرتے تھے: آپ کی پارٹی ایک تانگے کی سواریوں سے زیادہ نہیں۔
خاں صاحب کو جن لوگوں نے خالص دوستانہ لہجے میں نریندر مودی کو خط لکھنے کا مشورہ دیا۔ پھر جنہوں نے بھڑکتے ہوئے ٹویٹ کی صلاح دی، خان کے وہ خیر خواہ ثابت نہ ہوئے۔سفارت کاروں کا کام تھا یہ وزیر اعظم کا نہیں پرلے درجے کے نادان نائبین یا ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی شرارت پسند بھی ہو۔ اس کی اپنی نفسیات بھی فاسٹ باؤلر کی ہے۔چھکا پڑے تو وہ باؤنسر پھینکتا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ عمران خان کے ارد گرد جو مشیروں کا جمگھٹا ہے، اس میں مسخرے بھی موجود ہیں۔ چند ایک کی نشاندہی بھی ممکن ہے لیکن اس امر کو آنے والے دنوں پہ اٹھا رکھنا چاہئے۔ زمانہ اپنے سینے میں کوئی راز تادیر چھپا نہیں رکھتا۔ خارجہ امور تو الگ، نعیم الحق، صداقت عباسی اور زلفی بخاری قسم کے بزرجمہر، مہنگے پڑا کرتے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری ہر کہیں گھسے نظر آتے ہیں۔ شاید ایک دن خان صاحب اس پر پچھتاتے ہوئے پائے جائیں۔ خیر خواہ وہ ہوتا ہے، ہمیشہ تائید کرنے کی بجائے جو یاد دلاتا رہے: Caesar you are human ، سلطان معظم آپ بھی خاک زاد ہیں۔ بلدیاتی نظام بدلنے کا ارادہ مستحسن ہے۔ امید ہے آنے والے مہ و سال میں یہ ادارے پاکستانی سیاست کو استحکام اور بلوغت بخشیں گے ؛ تاہم تعجیل سے گریز کرنا چاہئے۔ پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے۔ دھڑے بازی ہے۔ وہ دیرینہ بیماری برقرار ہے‘ ٹکٹوں کی تقسیم کا کوئی معقول نظام اب تک وضع نہیں ہو سکا۔ بلدیاتی نظام میں نشستوں کی تعداد سینکڑوں گنا ہے اس چیلنج سے نمٹنا سہل نہ ہوگا۔ اس کارِ دشوار کے لیے خون پسینہ ایک کرنے کی ضرورت ہو گی۔ کیا یہ احساس کار فرما ہے؟ ایسا نہ ہو کہ بساط ہی الٹ جائے۔ مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
امتحان اس لیے اترتے ہیںکہ ہم سیکھ سکیں ‘اپنی اصلاح کر سکیں۔ افراد اور اقوام کے انداز فکر میں چھوٹے ‘ بڑے مبالغے کار فرما ہوتے ہیں۔ حادثے بتاتے ہیں کہ رک کر ہمیں غور کرنا چاہئے۔
زندگی کی رِہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے کوئی آئینہ خانہ بارِ دوش ہے