پچیس جولائی کے الیکشن کے بعد وہی ہوا جو اس سرزمین پر گزشتہ پانچ ہزار سال سے ہو رہا ہے۔ ہم ہزاروں سال سے بیرونی حملہ آوروں، حکمرانوں اور بادشاہوں کی غیر مشروط اطاعت کے عادی ہیں اور فاتح کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرنے میں پہل کرنے والوں میں سے ہیں۔ انگریز بہادر نے پورے برصغیر پر حکومت کی۔ کروڑوں کی آبادی والے برصغیر کا رقبہ اس وقت برطانیہ کے مقابلے میں اٹھارہ گنا یعنی چوالیس لاکھ مربع میل کے مقابلے میں دو لاکھ بیالیس ہزار کلومیٹر اور آبادی میں بھی یہی تناسب تھا۔ تب ہندوستان کی آبادی پچیس کروڑ کے لگ بھگ اور برطانیہ کی آبادی دو کروڑ سے کچھ زائد تھی۔ آبادی کا یہ موازنہ 1857 کا ہے جب برطانیہ نے پورے ہندوستان پر باقاعدہ قبضہ کیا۔ ہندوستان میں یعنی پچیس کروڑ آبادی والے برصغر پاک و ہند میں کُل برطانوی کبھی بھی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہ تھے۔ ان میں فوجی، سول افسر، کاروبار کی غرض سے آنے والے گورے اور ان کے بیوی بچے سبھی شامل تھے۔ گویا کہ تب ہندوستان میں گوروں کی تعداد یہاں کے مقامیوں کا محض 0.06 فیصد تھی۔ آسان لفظوں میں تقریباً ایک ہزار چھ سو چھیاسٹھ ہندوستانیوں کے لیے صرف ایک گورا (اس میں اس کے بیوی بچے سبھی شامل ہیں) تھا۔ اور وہ ہندوستان کے حکمران تھے۔ ہندوستانی صرف ان گوروں کی جوتوں سے پٹائی کرنا شروع کر دیتے تو شام سے پہلے سارے گورے آنجہانی قرار پاتے مگر اس خطے کے لوگوں کی خوئے غلامی نے انہیں ایسا کرنے سے روکے رکھا۔ غلامی خرابی نہیں، غلامانہ ذہنیت اصل خرابیوں کی جڑ ہے۔
پچیس جولائی کے الیکشن کے نتیجے کے بعد تیرہ میں سے نو آزاد منتخب ہونے والے ایم این اے، پنجاب سے تئیس ارکان صوبائی اسمبلی، چار پانچ اینکروں، سینکڑوں سرکاری ملازموں اور تین چار بوڑھے کھانگڑ قسم کے ریٹائرڈ سرکاری افسران نے پی ٹی آئی جوائن کر لی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ پی ٹی آئی مستقبل کی حکمران پارٹی ہے اور یہاں کے بے شمار لوگ حکمران پارٹی کے علاوہ زندہ رہنے کا تصور کرتے ہوئے فوت ہو جاتے ہیں۔
چلیں آزاد ارکان کی خیر ہے۔ ان کو تو آئین ایسا کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے اور جمہوریت میں ایسا کرنے پر کوئی پابندی بھی نہیں لیکن اینکروں اور سرکاری افسروں کو کیا مجبوری آن پڑی ہے؟ چلیں اینکروں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی بھی مجبوریاں ہیں۔ اب مجبوریوں کا کیا ذکر کریں؟ اس کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے اور ہر اینکر کی فہرست ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ یہ سرکاری افسروں کو سیاسی پارٹی جوائن کرنے کی کیا پڑی ہے؟ میں جب مشکل میں ہوتا ہوں‘ شاہ جی سے مدد لیتا ہوں۔ میں نے شاہ جی سے یہی سوال کیا کہ آخر یہ سرکاری ملازموں کو سیاسی پارٹی جوائن کرنے کی کیا پڑی ہوتی ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: دراصل ہمارے سرکاری افسر گزشتہ پچیس تیس سال سے سیاسی پارٹیوں کے ورکر بن چکے تھے۔ سب نے مسلم لیگ ن جوائن کر رکھی تھی۔ میں نے پوچھا: شاہ جی! سب نے؟۔ شاہ جی کہنے لگے: خواہ مخواہ درمیان میں اپنا ”لُچ‘‘ نہ تلو۔ سب سے مراد ہے زیادہ تر نے۔ یعنی اکثر سرکاری ملازمین نے مسلم لیگ ن جوائن کر رکھی تھی۔ ان کا بھی قصور نہیں۔ نوجوان افسروں کی موجوہ لاٹ نے میاں نواز شریف کی حکومت کے درمیان میں کہیں سرکاری نوکری جوائن کی۔ ان کی ساری نوکری میاں صاحب کے زیر سایہ گزری۔ ان کو اس دوران اندازہ ہوا کہ صرف خالی خولی نوکری سے کچھ حاصل وصول نہیں ہو گا۔ سو انہوں نے مسلم لیگ ن جوائن کر لی۔ جس جس نے یہ کام کیا وہ فائدے میں رہا۔ اچھی پوسٹنگ، اچھا ضلع، لا محدود اختیارات اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے افسر سیاسی رہنمائوں اور منتخب نمائندوں سے ڈرنے کے بجائے الٹا ان کو آنکھیں دکھاتے تھے۔ بے عزت کرتے تھے۔ ان کی کوئی بات نہیں سنتے تھے اور اگر ان کے خلاف کوئی شکایت کرتا تھا تو الٹا بے عزت ہوتا تھا۔ کم از کم جنوبی پنجاب میں تو یہی حال تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر افسران نے بھی ”با عزت‘‘ نوکری کرنے کے لیے حکومتی پارٹی جوائن کر لی اور سرکار کے بجائے حکومت کے یعنی میاں صاحبان کے ملازم بن گئے۔
ان کے مسلم لیگ ن جوائن کرنے کے پیچھے ایک اور وجہ بھی تھی۔ وہ یہ کہ ان تمام افسروں کو یقینِ کامل تھا کہ اگلے ڈیڑھ سو سال تک پاکستان پر ”آلِ شریفین‘‘ حکمرانی کرے گی اور کم از کم ان کی ریٹائرمنٹ تک تو کسی اور پارٹی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ابھی حمزہ شہباز بھی موجود ہے اور جنید صفدر وغیرہ بھی لنگوٹ کس رہے ہیں‘ لہٰذا انہیں یہ گمان تک نہیں تھا کہ ان کی سرکاری نوکری کے دوران کسی اور کی حکومت کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن قدرت کے کاموں میں کس کا دخل ہے؟ آخر انہونی بھی ہو جاتی ہے اور انہونی ہو گئی۔ پہلے میاں نواز شریف نا اہل ہو کر فارغ ہوئے۔ پھر پوری حکومت ختم ہوئی۔ حتیٰ کہ پنجاب سے بھی فارغ ہو گئے۔ اب بھلا یہ سرکاری افسر کیا کرتے؟ انہوں نے فوراً قبلہ درست کیا اور فواد حسن فواد اور احد چیمہ وغیرہ کے حال سے سبق حاصل کیا؛ تاہم وہ سرکار کے ملازم بننے کے بجائے اب پی ٹی آئی کے ملازم بننے پر تلے ہوئے ہیں۔ دراصل صدیوں کی خوئے غلامی کو میاں نواز شریف کی سرکاری نوازشات نے مزید مہمیز بخشی اور ہمارے سرکاری افسر نے بھی شاہی غلاموں کا سا کردار انجام دینا شروع کر دیا۔ اب جبکہ وہ اس غلامی میں عزت اور تکریم محسوس کرتے ہیں‘ بھلا مسلم لیگ ن کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرنے میں کیا خرابی ہے؟
چلیں یہ بات ٹھیک ہے کہ ان سرکاری افسروں نے نوکری کرنی ہے اور ان کے خیال میں با عزت نوکری کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ سرکاری پارٹی بھی جوائن کر لی جائے‘ لیکن یہ ریٹائرڈ بڈھے کھانگڑوں کو کیا ہوا ہے؟ بجائے اس کے کہ اللہ اللہ کریں‘ انہیں اب بھی سرکاری پارٹی کی چاپلوسی کی پڑی ہوئی ہے۔ میں تو ایسے ایسے بزرگوں کو جانتا ہوں جو اندر سے پیپلز پارٹی کے تھے اور پیپلز پارٹی کے دور میں بعد از ریٹائرمنٹ تین تین سال کنٹریکٹ والی نوکریاں انجوائے کیں۔ مسلم لیگ ن کا دور آیا تو کسی مسلم لیگی شاگرد کو پھانس کر پھر کہیں براجمان ہو گئے۔ اب وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔ شاہ جی! اس آخری عمر میں وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ انسان کب تک دنیا داری کو ضمیر پر فوقیت دے سکتا ہے؟ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: تم کیا بات کر رہے ہو۔ تم صرف ان کے پی ٹی آئی اور عمران خان کی طرف جھکائو کی بات کر رہے ہو۔ دراصل تمہیں ساری صورتحال کا علم ہی نہیں۔ تم نہ فیس بک پر ہو اور نہ ٹویٹر پر ہو۔ تمہیں کیا پتا کہ ان میں کون کون سا بڈھا کھانگڑ اپنی وال پر عمران خان اور پی ٹی آئی کو گالیاں دے چکا ہے اور کون کون سے ریٹائرڈ افسر نے اخلاقی حدود کو پار کرتے ہوئے عمران خان پر کون کون سا الزام نہیں لگایا۔ ان بڈھے کھانگڑوں نے ریحام خان کی کتاب کو پہلے چسکے لینے کی غرض سے پڑھا اور پھر اپنی پسند کے صفحات کو انڈر لائن کر کے سوشل میڈیا پر لگایا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے سارے فالوورز اسے پڑھیں گے اور عمران خان کے خلاف چلائی جانے والی کتابی مہم کا حصہ بن کر آئندہ الیکشن کو تہہ و بالا کر دیں گے۔ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ ریحام خان کی کتاب کے غبارے سے ساری ہوا ایسے نکلی کہ حنیف عباسی اپنے اندر ہو جانے سے زیادہ ریحام خان کی کتاب کے ٹھس ہو جانے پر پریشان تھا۔
ان کھانگڑوں کا بھی قصور نہیں۔ وہ فارغ ہیں۔ کیا کریں؟ اسلام آباد میں چار چھ پوسٹیں ہیں‘ جن پر ان کی نظر ہے۔ اس عمر میں ان کی محنت کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ایک طرف وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کی شان میں پوسٹیں لگا رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ کسی مناسب قسم کی پی ٹی آئی والے کو گھیرنے کی کوشش کر رہے تا کہ بنی گالہ کے توسط سے کوئی مناسب سا عہدہ مارا جائے اور تیسری مشقت یہ آن پڑی ہے کہ ان کو اپنی فیس بک کی وال پر لگائی جانے والی اپنی سابقہ ساری پوسٹیں صاف کرنی پڑ رہی ہیں۔ اس عمر میں ان پر کیا کیا پُر مشقت کام آن پڑے ہیں۔ اللہ ان کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے اور بقول مشفق خواجہ ”ان کے دستِ طلب کو مزید دراز فرمائے‘‘۔