منتخب کردہ کالم

بڑھتا ہے ذوق جرم یہاں ہر سزا کے بعد……محمود شام

بڑھتا ہے ذوق جرم یہاں ہر سزا کے بعد……محمود شام

تاریخ کو شرم آرہی ہوگی۔ جغرافیہ لرز رہا ہوگا۔ جمہوریت پائوں پٹخ رہی ہوگی۔
سپریم کورٹ سے دو بار نااہل ہونے والا بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی دستار بندی کررہا ہے۔ چھوٹا بھائی اس شفقت پر شکر گزاری بڑے بھائی کو تاحیات قائد بنا کر کررہا ہے۔
بڑا بھائی اورنگ زیب کی طرح پارسا ہوتا اور ٹوپیاں سی کر گھر چلا رہا ہوتا تو ابن انشا کے تاریخی جملے کے مصداق کوئی بھائی چھوڑتا نہ نماز۔
وقت موقع دیتا ہے لیکن ہم گھر سے باہر نہیں دیکھ سکتے۔ اپنی ذات سے آگے نہیں تک سکتے۔ یہ فیصلے جذبات کے تحت ہوتے ہیں۔ کسی منطق اور تدبر کے ساتھ نہیں اسی لئے کوئی نظام نہیں بن پاتا۔
جدھر دیکھو یہی حال ہے۔ اے این پی میں خان عبدالولی خان کے بعد اسفند یار ولی۔ جمعیت علمائے اسلام میں مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن۔ ایک جماعت اسلامی ہے۔ جہاں خاندان میں وارث نہیں ملتے۔ وہاں باقاعدہ نظام اور میرٹ ہے مگر عوام پذیرائی نہیں دیتے۔ ہم بادشاہوں کی رعایائوں کے وارث ہیں ہمیں شہزادوں شہزادیوں سے ہی عقیدت ہے۔ اپنے گھر میں بھی بیٹے کو شہزادہ۔ بیٹی کو شہزادی کہہ کر خود کو ظلّ الٰہی محسوس کرتے ہیں۔
تاریخ کو اس وقت بھی گھبراہٹ ہوئی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی پہلی تقریر میں ہی ’باصلاحیت کزن‘ یاد آیا اسے گورنر۔ وزیراعلیٰ بنایا۔ مگر چل نہیں سکا۔ تاریخ اس وقت زیادہ بوکھلائی تھی جب آصف زرداری نے بلاول زرداری کو بلاول بھٹو زرداری کی کنیت دے ڈالی۔ اکیسویں صدی میں قبائلی موروثیت کے یہ بوسیدہ قلعے۔ اپنے آپ پر۔ اپنی پارٹی کے بڑے بڑے عہدیداروں پر اعتماد نہیں ہے، کوئی ٹھوس نظام استوار کرنا چاہتے ہیں نہ ہی لوگوں کو ایسی تربیت کہ وہ ذمّہ داری سنبھال سکیں۔
عدم تحفظ کا احساس ہر جگہ ہے۔ عدلیہ مقبول لیڈروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ مقتدر قوتیں بھی عوامی رہنمائوں کے سامنے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ بادشاہ گری میں مگر وہ بھی خاندانوں میں ہی متبادل تلاش کرتی ہیں۔ جن فرشتوں کا ہاتھ شہباز شریف پر کہا جاتا ہے وہی ہاتھ بلاول پر بھی شفقت کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ انہیں بھی خوف ہے کہ قیادت خاندان سے باہر نکلی تو پارٹیاں بے قابو ہوجائیں گی۔
ادارے خوف زدہ ہیں کہ سزائیں بے نتیجہ ہورہی ہیں۔ نہال ہاشمی سزا کاٹ کے باہر نکلتے ہیں تو پہلے سے زیادہ توہینی موڈ میں نظر آتے ہیں۔
بڑھتا ہے ذوقِ جرم یہاں ہر سزا کے بعد
یہ عدم تحفظ۔ گھبراہٹ۔ خوف کیوں ہے۔ کیونکہ ہم سب ایک مستحکم۔ مسلسل۔ موثر نظام قائم نہیں کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک نظام ہی ہوتا ہے جو مملکت کو لے کر چلتا ہے۔ دوام دیتا ہے۔ شخصیتیں بعض یقیناََپُرکشش ہوتی ہیں۔ مگر ان کا آخری مقام شہر خموشاں ہی ہوتا ہے۔ وہ ایسا نظام قائم کرجاتی ہیں جن سے ملک باقاعدگی سے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ ایسے دائمی نظام وہ شخصیتیں قائم کرتی ہیں جو ذات اور خاندان سے باہر نکل کر نیلسن منڈیلا کی طرح سوچتی ہیں۔ جمہوریت قربانیاں مانگتی ہے۔ اقربا کی سرپرستی سے دستبرداری چاہتی ہے۔ ذاتی کام کرتے وقت سرکاری دیا بجھا کر ذاتی دیا روشن کرنے کو کہتی ہے۔ شروع میں لگتا ہے کہ خاندان کمزور ہورہا ہے لیکن جب مملکت مضبوط ہوتی ہے تو یہ خاندان از خود مضبوط ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک عارضی انتظام لگتا ہے۔ میاں نواز شریف کی مقبولیت جیسے بڑھ رہی ہے۔ انہیں دوتہائی مل سکتی ہے۔ صوبوں کی موجودہ حیثیت نہ ہوتی تو شاید یہ توازن اس طرح بگڑا ہوا نہ ہوتا۔ دوتہائی کے بعد بہت سے فیصلے ہوں گے۔ گھوڑے بہت تیز دوڑیں گے۔ نااہلی ان کے سموں تلے کچل دی جائے گی۔معلوم نہیں چھوٹے بھائی وزیراعظم بن سکیں گے یا نہیں۔ بنیں گے بھی تو کتنے دن کے لئے۔
آپ کیا کیا منظر دیکھ رہے ہیں۔ مجھے جو تین چار منظر دِکھائی دے رہے ہیں۔ پہلا کچھ اس طرح ہے کہ جیسے عدلیہ اور فوج جان بوجھ کر یا غلطی سے میاں صاحب کو مقبول ترین لیڈر بنانا چاہتے ہیں احتساب عدالت کچھ ثابت نہیں کر پاتی۔ میاں صاحب ایک کے بعد دوسرے ریفرنس میں بَری ہوتے رہتے ہیں ان کے بیرونی دوست بھی یہ صورتِ حال دیکھ کر ان کی مدد کرتے ہیں۔
اسی اثنا میں مئی میں وزیراعظم عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ مل کر ایک کمزور عبوری وزیراعظم لاتے ہیں۔ کوئی اسّی پچاسی سالہ بزرگ مل ہی جائیں گے۔ ایسے ہی مشفق بزرگ کابینہ میں شامل کیے جاتے ہیں۔ ن لیگ دوتہائی لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ وقت میاں نواز کو چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ سے نوازتا ہے۔ سب فیصلے کالعدم۔ مقتدر قوتیں۔ منقار زیر پر۔ وہ معرکے برپا ہوں گے۔ گھمسان کے رن پڑیں گے کہ سرحدیں بے معنی ہوجائیں گی۔
دوسرا منظر یوں دِکھائی دیتا ہے کہ بڑے بھائی کے بعد چھوٹا بھائی بھی نااہل۔ ایک کمزور عبوری حکومت۔ 15 جولائی کو ایک معلّق پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے۔ پنجاب اسمبلی بھی اسی طرح ملی جلی۔ ایک مخلوط حکومت۔ ایسی وزارتیں جن کی ڈور کہیں اور سے ہلتی ہو اور دونوں بھائی غالب کو یاد کررہے ہیں
بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد
تیسرا منظر نامہ یہ لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف وزیراعظم کی کرسی تک پہنچ جاتے ہیں۔ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر خاندان میں تنازع ہوتا ہے۔ رانا ثناء اللہ کے نام پر سمجھوتہ ہوجاتا ہے۔ پھر میاں شہباز شریف عدلیہ اور فوج سے مل کر ایک مضبوط نظام تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔میاں نواز شریف ماضی کا قصہ بن جاتے ہیں۔
چوتھا منظرنامہ زیادہ منطقی اور فطری لگتا ہے۔ عدلیہ کے ذریعے شہباز شریف بھی باہر۔ دوسری پارٹیوں کے خلاف بھی احتسابی کارروائیاں۔ مزاحمت میں جلسے جلوس۔ ایک انارکی برپا۔ عدلیہ میں دن رات مقدمات۔ لوگ تنگ آکر فوج کو اقتدار کے لئے آواز دیتے ہیں۔ لیکن وہ معذرت کرتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے فضا طویل مدت کی عبوری حکومت کے لئے ہموار کی جاتی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں قانونی اور آئینی ماہرین بھی اس کے لئے مختلف قانونی راستے بتاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی مارشل لانہ لگائے جانے کی شرط پر اس کے لئے آمادہ ہوجاتی ہیں۔ ٹیکنو کریٹس کی تین سالہ طویل عبوری حکومت قائم کردی جاتی ہے۔ بلدیاتی اداروں کے اختیارات بحال کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے کام ان کی دہلیز پر ہونے لگتے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کو بھول جاتے ہیں۔ سیاسی قائدین ان کی ترجیح نہیں رہتے۔ عوام کا یہ مزاج دیکھ کر سیاسی پارٹیاں بھی اپنی تطہیر پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔ ٹیکنو کریٹس دِل جمعی سے کوششیں کرتے ہیں۔ نئی قانون سازی ہوتی ہے۔ لوگ سیاسی حکومت اور ماہرین کی حکومت کے درمیان فرق محسوس کرتے ہیں۔ اچھی حکمرانی اور خراب حکمرانی کا موازنہ کرتے ہیں۔ الیکشن کی نوید 2021 کے لئے دی جاتی ہے۔
اب دیکھیں ہماری تقدیر میں کیا لکھا ہے۔