بڑے شاہی محلات کے چھوٹے مکین….رئوف کلاسرا
جوں جوں نئی نئی چیزوں کا علم ہوتا ہے تو دل دکھی ہوتا ہے۔
ملائشیا کے مہاتیر محمد نے وزیراعظم بنتے ہی جو احکامات جاری کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ سابق وزیراعظم نجیب رزاق اور ان کا خاندان ملک سے باہر نہیں جاسکتا ۔ دوسرا حکم یہ دیا اس کے گھر پر چھاپہ مارا جائے۔
مہاتیر محمد اپنے سابق وزیراعظم نجیب رزاق جسے انہوں نے ہی سیاسی طور پر پالا پوسا اور بڑا کیا اور ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں دے کر ریٹائر ہوگئے تھے‘ اب نو مئی کو ہونے والے انتخابات جیت کر واپس لوٹے ہیں ۔ جب پولیس نے گھر پر چھاپہ مارا تو سابق وزیراعظم کی بیوی کے زیورات برآمد ہوئے جن کی مالیت تین کروڑ ڈالر یا ساڑھے تین ارب روپے بنتی ہے۔
جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو جتنے اعلیٰ عہدے پر بیٹھتا ہے وہ اتنا ہی جواب دہ ہوتا ہے۔ سیاست میں عموماً عوام ایسے لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں جن کے بارے میں ان کی رائے ہوتی ہے کہ وہ ذہین انسان اور امیر لوگ ہیں۔ اس لیے پاکستان جیسے ملکوں میں آپ دیکھیں گے جس کے پاس بڑی گاڑیاں، بڑا گھر، اور چند نوکر ہیں وہ اگر الیکشن میں کھڑا ہوجائے تو اس کے جیتنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ عام انسانوں کو لگتا ہے وہ بندہ ایک کامیاب انسان ہے۔ ایک ایسا انسان جو اپنی قسمت بدل چکا اب وہ اپنی ذہانت سے ان کی زندگیاں بھی بدل دے گا ۔ یہ عام ووٹر کی وہ نفسیات ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ اپنے جیسے پھکڑ کو ووٹ نہیں دیتے بلکہ اپنے سے مالی اور سماجی طور پر بہتر انسان کو چنتے ہیں ۔
ایسا انسان جو بڑی گاڑی پر سفر کرتا ہو، بڑے گھر میں رہتا ہو، اور نوکروں کی ایک فوج ہو وہ دراصل عام انسانوں کا ایک رول ماڈل ہوتا ہے۔ ہر کوئی وہی لائف گزارنا چاہتا ہے جو ان کے دروازے پر ووٹ مانگنے کے لیے آیا ہوا ایک امیر انسان گزار رہا ہوتا ہے۔ اس عام ووٹر کو لگتا ہے کہ قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی ہے کہ آج بھگوان ان کے دروازے پر خود ہی چل کر آ گیا ہے ۔ یوں وہ بڑا آدمی اس سوچ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ووٹ لیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے عام ووٹر کے خواب پورے کیوں نہیں ہوتے؟ اس سے دھوکا کون کرتا ہے؟ یا ایسا ووٹر خود اپنی بربادی کا ذمہ دار ہوتاہے؟
اس سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ بڑا آدمی جو سیاستدان کا روپ دھار کر اس کے پاس آتا ہے اس کے پاس تو وہ کچھ ہے جو اس کے حلقے کے لوگ ترستے ہیں۔ پھر وہ کیوں ان کا مال ہی لوٹنے پر لگ جاتا ہے؟
مان لیتے ہیں ہر انسان کو طاقت، اختیار اور دولت چاہیے ہوتا ہے۔ چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں اختیار اور طاقت کی کوئی حد نہیں ہوسکتی۔ ہر انسان اپنے مطابق اس کا فیصلہ کرتا ہے اور ہمیشہ زیادہ کا طلب گار رہتا ہے۔ لیکن ایک سوال دولت بارے ضرور بنتا ہے ایک انسان کو کتنی دولت ایک زندگی گزارنے کے لیے چاہیے ہوتی ہے؟ اس سے بڑا سوال یہ ہے وہ کیوں سات نسلوں کی دولت خود کما کر اس دنیا سے جانا چاہتا ہے؟ کالم نگار دوست ہارون الرشید کا ایک خوبصورت جملہ یاد آتا ہے کہ امیر انسان کو غریبوں سے زیادہ دولت چاہیے ہوتی ہے۔
لیکن سوال وہی کس قیمت پر؟
اب یہی دیکھ لیں جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو ان کے خاندان پر یہی الزام لگتے تھے۔ ان کے بیوی بچوں بارے یہی کہانیاں مشہور تھیں۔ ترکی کی خاتون اول کے دیئے ہوئے ہیروں کے ہار کا قصہ بھلا کس کو بھول سکتا ہے؟ تو کیا ملا پھر گیلانی کو وہ ایک ہار لے کر؟ کیا آٹھ دس لاکھ روپے کے ہار کی قیمت اور قدر ایک وزیراعظم سے بہت زیادہ تھی لہٰذا اس کے لیے وہ اپنی عزت بھی دائو پر لگا بیٹھے؟
اس طرح بینظیر بھٹو پر سوئٹزرلینڈ میں ایک مقدمہ چلا۔ ان پر الزام تھا انہوں نے وزیراعظم ہوتے ہوئے ایک نیکلس خریدا جس کی ادائیگی ایک پارٹی نے کی تھی۔ تو کیا پانچ دس لاکھ روپے کا نیکلس اس قابل تھا کہ ایک ملک کی وزیراعظم اس کے لیے سوئٹزر لینڈ میں مقدمے کا سامنا کرتیں؟ یہ وہی نیکلس ہے جس کے لیے زرداری نے پچھلے سال ایک خط سوئس حکام کو لکھا وہ اس کی مرحومہ بیوی کا تھا اور وہ وصول کر بھی لیا ہے۔ سوال یہ ہے جونیکلس بینظیر بھٹو کے گلے میں ایک پھندا بن گیا تھا وہ اس کے وارثوں کو کوئی خوشی دے سکے گا ؟
مجھے یاد ہے میں نے ایک سٹوری کی تھی جس میں جنرل مشرف اور شوکت عزیز کو غیرملکی دوروں میں ملنے والے تحائف کی تفصیلات دی گئی تھیں ۔ جنرل مشرف کی بیگم کو سعودی عرب سے ہیروں کے ہار، سونے کے زیورات اور بھرے ہوئے جیولری باکس ملے تھے جو وہ گھر لے گئی تھیں ۔ میں ان سرکاری دستاویزات کو دیکھ کر پری کی کہانی کی طرح ہنسا بھی تھا اور رویا بھی۔ ہنس اس لیے پڑا تھا کہ بینظیر بھٹو مرتے دم تک دس لاکھ روپے مالیت کے ایک نیکلس کا مقدمہ سوئٹزر لینڈ میں بھگتتی رہیں جب کہ جنرل مشرف کی بیگم نے ایک ہی ہلے میں سعودی عرب سے ایک کروڑ روپے مالیت کے قریب ہیرے جواہرات اور زیوارت چپکے سے لے لیے تھے۔
بعد میں اسی جنرل مشرف نے سعودی بادشاہ سے ایک ارب روپے کیش تحفہ بھی قبول کر لیا۔ شوکت عزیز کی بیگم صاحبہ کو بھی اسی طرح سونے کے زیورات اور ہیرے جواہرات تحفے میں ملے تھے۔ شوکت عزیز نے تو تحفے میں ملنے والی مفت بنیان، نکر، انڈروئیر تک نہیں چھوڑے تھے اور قیمتی تحائف کا ایک پورا کنٹینر بھر کر پاکستان سے باہر لے گئے تھے۔ نواز شریف کو بھی اس طرح تحائف ملتے رہے ہیں لیکن وہ اس کی تفصیل بتانے کو تیار نہیں تھے۔ قومی اسمبلی میں کہا گیا نواز شریف کو ان چار سالوں میں ملنے والے تحائف کی تفصیل دی جائے تو کابینہ ڈویژن کے زکوٹا جنوں نے جواب دیا کہ نواز شریف کو ملنے والے سب تحائف کی تفصیل ایک ایسا قومی راز ہے جو قوم کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاسکتا ۔
مریم نواز کے تحائف کی تفصیل ہم سب جانتے ہیں۔ پہلے انہوں نے کہا ان کی لندن چھوڑیں پاکستان تک میں کوئی جائیداد نہیں ۔ جب پاناما سکینڈل سامنے آیا تو پتہ چلا نہ صرف ان کی پاکستان میں بہت بڑی جائیداد ہے بلکہ لندن میں بھی ہے۔ اس پر ہمیں بتایا گیا انہیں ان کے والد نے کروڑوں روپے تحفہ کے طور پر دیے تھے۔ نواز شریف سے پوچھا گیا آپ کے پاس کروڑوں روپے کہاں سے آئے تھے تو انہوں نے جواب دیا میرا بیٹا لندن دبئی میں بزنس کرتا ہے اور اس نے مجھے سو ارب روپے نقد تحفہ دیا ہے جس میں سے میں نے پچاس کروڑ روپے کے قریب اپنی بیٹی کو تحفہ دے دیا۔ بیٹی سے پوچھا گیا کہ یہ سچ ہے؟ وہ بولیں جی سچ ہے لیکن میں نے وہ اب نقد تحفہ باپ کو واپس کردیا ہے۔ بیٹے حسین نواز سے پوچھا گیا جناب آپ کے پاس اربوں ڈالرز کہاں سے آئے تو وہ بولے آپ مجھ سے میرے ذرائع نہیں پوچھ سکتے کیونکہ میں برطانوی شہری ہوں۔
ملائیشیا کے سابق وزیراعظم نجیب کی بیوی سے پولیس چھاپے میں برآمد ہونے والے ساڑھے تین ارب روپے کے ہیرے جواہرات اور زیورات کی تفصیل پڑھتے ہوئے حیران ہو رہا ہوں انسان کی لالچ اور حرص کی سرحد کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی ہے؟ کیا ایک عورت ساڑھے تین ارب روپے کے زیورات اپنی پوری عمر میں پہن سکتی ہے؟ وزیراعظم نجیب جس کی تنخواہ دس لاکھ روپے کے قریب ہو کیا اس کی بیوی ساڑھے تین ارب روپے کے زیورات افورڈ کرسکتی ہے جب تک اس کا خاوند کوئی بڑا ڈاکا نہ مارے اور اپنی پوزیشن کا غلط استعمال نہ کرے؟
اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ایک مرد کو اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لے اس حد تک جانا چاہیے؟ چلیں عام انسان چھوڑیں کیا ایک وزیراعظم کی بیوی کو یہ کام کرنا چاہیے جس پر کروڑوں لوگوں نے اپنی زندگیاں بہتر کرنے کا بھروسہ کررکھا ہو؟
اپنا ایک قریبی دوست یاد آیا۔ ایک دن اس کی بہن اپنے میاں کا گھر چھوڑ کر آگئی ۔ اپنا بیٹا بھی ساتھ لے آئی۔ وجہ پوچھی تو بولی میرا خاوند رشوت لیتا ہے۔ میں حرام کی کمائی سے اپنے بیٹے کو کھانا نہیں کھلائوں گی ۔ وہ اس وقت گھر واپس گئی جب اس کے خاوند نے اپنے چھوٹے بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ آئندہ وہ رشوت نہیں لے گا ۔
حیران ہوتا ہوں شاہی محل کے مکینوں ، دنیا کے پانچ ملکوں میں جائیدادوں کے مالک ، منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے بادشاہوں کے بیوی بچوں میں اتنی سی بھی خودی ، ایمانداری، عزت نفس اور حرام کی دولت سے نفرت نہیں جو میرے دوست کی ایک عام سی بہن نے دکھائی تھی ؟