منتخب کردہ کالم

بڑے چودھری صاحب کا ’’سچ‘‘….رئوف طاہر

بڑے چودھری صاحب کا ’’سچ‘‘….رئوف طاہر

چودھری شجاعت حسین کی کتاب ”سچ تو یہ ہے‘‘ اس ہفتے ”ٹاک آف دی ٹائون‘‘ رہی۔ لاہور میں رونمائی ہوئی۔ ٹی وی چینلز پر اس میں بیان کئے گئے ”انکشافات‘‘ کا چرچا ہوا اور اب بھی یہ کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کے لیے دلچسپ موضوع ہے۔ اپنی یادداشت محفوظ کرنے (اور منظرِعام) پر لانے کا یہ آئیڈیا چودھری صاحب کا اپنا تھا‘ یا کسی دوست نے متوجہ کیا ؟ اس خیال کو مجسم ہونے میں کم و بیش دس سال لگ گئے۔
یاد پڑتا ہے‘ 2008 ء کے عام انتخابات کے بعد چودھری صاحب جدہ تشریف لائے۔ مشرف ابھی ایوان صدر میں تھا‘ لیکن وفاق میں اور پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی( مخلوط) حکومتیں آ چکی تھیں۔ زخم خوردہ چودھری نے حوصلہ نہ ہارا تھا۔ 1998ء میں (ایک اخباری ملازمت ہی کے سلسلے میں) جدہ منتقل ہو جانے سے قبل نوائے وقت میں ہماری ”بیٹ‘‘ مسلم لیگ تھی۔ اس حوالے سے بھی چودھری برادران سے رابطہ رہتا۔ تب بڑے چودھری صاحب‘ وزیراعظم نوازشریف حکومت میں ایک طاقتور وزیر داخلہ تھے ۔پنجاب میں شہبازشریف وزیراعلیٰ اور چھوٹے چودھری صاحب (پرویز الہٰی) پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے منصب پر فائز تھے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت ِاعلیٰ سے محرومی کا درد یقیناً ہو گا لیکن چودھری صاحبان نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا۔ نوازشریف کی 1985ء والی وزارت ِاعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے محرکین میں اٹک کے ملک الہٰ یار اور رحیم یار خان کے مخدوم الطاف احمد کے ساتھ چودھری پرویز الٰہی بھی تھے۔ اس تحریک کو پیر صاحب پگاڑا (مرحوم) کی سرپرستی بھی حاصل تھی جن کے اپنے زخم تھے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر وہ اپنے برادر نسبتی مخدوم زادہ حسن محمود کا حق فائق سمجھتے تھے۔ (مخدوم زادہ مرحوم ون یونٹ بننے سے قبل ریاست بہاولپور کے وزیراعلیٰ بھی رہے) اب پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے جنرل جیلانی (اور جنرل ضیائ) کی چوائس لاہور کے صنعتکار خاندان کا نوجوان نوازشریف تھا، پنجاب کے وزیر خزانہ کے طور پر جس کی کارکردگی خاصی بہتر رہی تھی ۔پنجاب کی سیاست نیا موڑ مڑ رہی تھی ۔قدیم سوچ کے حامل جاگیرداروں کی جگہ‘ ان کے جدید تعلیم یافتہ بیٹے سیاسی منظر پر ابھر رہے تھے۔ ان میں سے بعض نوجوان وزیر خزانہ کی ذاتی دوستی کے حلقے میں آ چکے تھے۔
وزیراعلیٰ نوازشریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو پیر صاحب کے مرید‘ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی درپردہ تائید بھی حاصل تھی۔ ہمیں یاد ہے، پیر صاحب لاہور آئے اور فرمایا‘ میں نے بوری میں سوراخ کر دیا ہے، اب دانے گرتے جائیں گے (نوازشریف کے خلاف پارلیمانی پارٹی میں بغاوت پھیلتی جائے گی) اگلے روز جنرل ضیاء الحق لاہور آئے‘ اور اخبار نویسوں سے ملاقات میں فرمایا: ”میں نے سوراخ بند کر دیا ‘ اب کوئی دانہ نہیں گرے گا۔‘‘ وزیراعلیٰ نوازشریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا منصوبہ ناکام ہو گیا تھا۔
وزیراعظم جونیجو کی برطرفی کے بعد مسلم لیگ کی دو حصوں میں تقسیم اور سانحہ بہاولپور کے بعد (16 نومبر 1988 ء کے) انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے آئی جے آئی کی تشکیل کے موقع پر مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں کا جونیجو صاحب کی قیادت میں اتحاد ، پھر چودھری برادران کی شریف فیملی کے ساتھ طویل رفاقت اور مشرف دور میں علیحدگی‘ ایک طویل کہانی ہے…میاں صاحب ابھی اٹک قلعے میں تھے جب ”ہم خیال گروپ‘‘ کی طرف سے ”مسلم لیگ ہائوسوں‘‘ کو واگزار کرانے کا سلسلہ شروع ہو ا ۔ آغاز اسلام آباد کے مسلم لیگ ہائوس سے ہوا۔ نوازشریف کی تصویر زمین پر پڑی تھی اور ہم خیال گروپ کے قائدین ”V‘‘ کے فاتحانہ نشان کے ساتھ بازو بلند کئے ہوئے تھے۔ برادرم خورشید احمد ندیم کے کالم کا ایک جملہ امر ہو گیا‘ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا : ” سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا‘ وہ زندہ ہوتے اور اخبارات میں یہ تصویر دیکھتے تو کہتے‘ سیاست کی آنکھ میں شرم بھی نہیں ہوتی۔‘‘ (یہ واقعہ نومبر کے تیسرے ہفتے کا ہے‘ میاں صاحب دسمبر کی دس تاریخ کو جدہ روانہ ہوئے) جدہ کے سرور پیلس میں ایک شام ہم نے میاں صاحب سے پوچھا‘ اپنے سیاسی ساتھیوں میں سے کس کی ”بے وفائی‘‘ کا آپ کوسب سے زیادہ دکھ ہوا؟ میاں صاحب کا جواب تھا ،مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جانے والوں میں سب سے زیادہ دکھ چودھری صاحب کے جانے کا ہوا۔ ہمیں شعر یاد آیا :
زندگی کے اداس لمحوں میں
بے وفا دوست یاد آتے ہیں
لیکن میاں صاحب کو مزید اداس کرنے کی بجائے ہم نے عرض کیا ،چودھری صاحب 12 اکتوبر کے بعد کچھ عرصہ تو بیگم صاحبہ (کلثوم نواز) کو (ان کی جدوجہد میں) حوصلہ دیتے رہے لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ حوصلہ دینے والوں کا اپنا حوصلہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
2008ء کے انتخابات کے بعد چودھری صاحب کی جدہ آمد پر ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ باتوں باتوں میں چودھری صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہنے لگے‘ اس کا نام تجویز کرو‘ ہم نے ”داستانِ شجاعت‘‘ کہا لیکن پھر خود ہی اسے واپس لے لیا کہ اس سے یوں لگے گا جیسے یہ کسی فوجی کی جنگی کہانی ہے۔ چودھری صاحب نے کہا‘ کتاب کا بہترین نام تجویز کرنے والے کے لئے دو لاکھ انعام کا اعلان نہ کر دیں ؟۔ ہم نے ہنستے ہوئے کہا ،ویسے ”داستانِ شجاعت‘‘ یا ”شجاعت کہانی‘‘ بھی بُرا نام نہیں۔
اب دس سال بعد یہ کہانی ”سچ تو یہ ہے‘‘ کے نام سے منظرعام پر آ ئی ہے تو نیویارک والی طیبہ ضیاء چیمہ کا دعویٰ ہے کہ اسی نام سے ان کی کتاب دس سال قبل شائع ہوئی تھی‘ 2010ء میں جس کا دوسرا ایڈیشن بھی آ گیا تھا۔ ویسے ”سچ تو یہ ہے‘‘ میں بیان کردہ بہت سی باتیں ”مسلم لیگ سے مسلم لیگ تک‘‘ میں بھی آ گئی تھیں۔ چودھری برادران کی یہ کہانی، چودھری برادران کی زبانی مارچ 2012ء میں منظرعام پر آئی تھی، مصنف (یا مرتب) ہمارے چھوٹے بھائیوں جیسے محمد اصغر عبداللہ تھے۔ ”لال مسجد کا لہو‘‘ اور ”چیف جسٹس موومنٹ‘‘ کے نام سے ان کی کتابیں بھی خاصی پذیرائی حاصل کر چکیں۔ چودھری صاحب نے ”سچ تو یہ ہے‘‘ کے پیش لفظ میں‘ اس کی ترتیب و تدوین میں اصغر عبداللہ کی خدمات کا کھلے دل سے تذکرہ کیا ہے۔
کہتے ہیں‘ ہر ایک کا اپنا اپنا ”سچ‘‘ ہوتا ہے۔ چودھری صاحب کا بھی اپنا ”سچ‘‘ ہے۔ البتہ کئی باتوں کی طرح یہ بات بھی ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ افتخار چودھری کو چیف جسٹس بنوانے کے لیے وہ انہیں پرویز مشرف کے پاس لے گئے تھے۔ مارچ 1996ء میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی زیرصدارت سپریم کورٹ کے فل بنچ نے الجہاد ٹرسٹ والے وہاب الخیری کی پٹیشن پر چیف جسٹس کے تقرر کے لیے سنیارٹی کے اصول کا فیصلہ دے دیا تھا (1997ء میں خود سجاد علی شاہ اس فیصلے کی زد میں آ گئے) ان کے بعد اجمل میاں اور سعید الزماں صدیقی سنیارٹی کی بنیاد پر ہی چیف جسٹس بنے۔ مشرف کے (پہلے )پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے پر سعید الزماں صدیقی سمیت چھ جج رخصت ہوئے‘ تو (باقی ماندہ ججوں میں سے) ارشاد احمد خاں کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر ہی عمل میں آیا۔ افتخار چودھری سے پہلے جناب بشیر جہانگیری‘ شیخ ریاض احمد اور ناظم حسین صدیقی کا تقرر بھی سنیارٹی کی بنیاد پر ہی ہوا تھا۔
11 دسمبر 2013ء کو افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ پر جناب تصدق حسین جیلانی ،ناصر الملک‘ جواد ایس خواجہ‘ انور ظہیر جمالی اور موجودہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کا تقرر بھی سنیارٹی کے اسی اصول پر ہوا…اور آئندہ تقرریوں کے لیے بھی یہی اصول ہو گا۔
جناب ایاز امیر کی اس بات سے کسے اختلاف ہو گا کہ چودھری صاحبان ہمیشہ حقیقت پسند رہے۔ اپنی طویل سیاسی زندگی میں کبھی فضول قسم کی چھلانگ یا قلابازی نہیں لگائی… نوازشریف اور مشرف سے کئی بار انہیں اختلاف ہوا‘ ان کے ساتھ زیادتیاں بھی ہوئیں‘ اکبر بگٹی کے قتل اور لال مسجد سانحہ سمیت کئی مواقع پر مشرف نے ان کے لیے پشیمانی کا اہتمام کیا‘ لیکن وہ نوازشریف اور مشرف دونوں کے اقتدار کے آخری دنوں تک ان کے ساتھ رہے ۔یہ حقیقت پسندی ہی تو تھی