منتخب کردہ کالم

بھارتی سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

بھارتی سپریم کورٹ نے انتخابات میں مذہب اور ذات کو استعمال کرنے پر پابندی لگادی۔ بھارتی سپریم کورٹ کے رخصت ہونے والے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی قیادت میں 7 رکنی ججوں پر مشتمل بینچ میں سے 4 نے متفقہ طور پر تحریر کیا کہ انتخابات ایک سیکولر سرگرمی ہے، اس لیے انتخابی مہم میں مذہب اور ذات کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں 1990 سے یہ پٹیشن زیر سماعت تھی، مگر مقدمات کی بھرمار اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر 26 سال بعد یہ معرکۃ الآرا فیصلہ سامنے آیا۔

بھارت میں 80 فیصد لوگوں کا مذہب ہندو مت ہے۔ مسلمان جنھوں نے ہزار سال تک حکومت کی تھی، دوسرے نمبر پر ہیں، ان کی آبادی کا کل تناسب 14.2 فیصد ہے۔ سکھ، عیسائی، بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 6فیصد ہے۔ مسلمان علما نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ بھارت میں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، جو ہندوتوا کے نعرے پر برسر اقتدار آئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے حوالے سے بھارتی سماج کو ہزاروں سال پیچھے لے جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی جماعت نے بھارتی اداروں کو ہندومت کے مطابق ڈھالنے کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔

بھارتی حکومت تعلیمی اداروں کے نصاب کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مودی نے ایک سائنسی کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ہندو دیوتا پلاسٹک سرجری کے ماہر تھے اور انھوں نے ہیلی کاپٹر ایجاد کیے تھے۔ بھارتی جنتا پارٹی نے مختلف ریاستوں میں گائے کے گوشت کے استعمال کو ممنوع قرار دلوایا ہے، جس سے اقلیتوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ 2013 میں دو مسلمانوں سمیت کئی افراد کو مشتعل ہجوم نے گائے کا گوشت رکھنے پر تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا، مگر جن ریاستوں میں دیگر جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں وہاں گائے کاٹنا جرم نہیں ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ میں واضح کیا تھا کہ اپنی پسند کے کھانے کا انتخاب ہر شہری کا بنیادی حق ہے، حکومت کسی شخص کو گائے نہ کھانے پر مجبور نہیں کرسکتی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دینے کی کوششوں کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں، فنکاروں، دانشوروں، ادیبوں اور اساتذہ نے کی۔ بہت سے ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں نے قومی اعزازات واپس کردیے تھے۔ اس روش کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں معروف اداکار شاہ رخ خان، عامر خان اور اوم پوری بھی شامل تھے۔ مذہبی انتہاپسندی کے خلاف مہم چلانے والوں میں معروف سماجی کارکن ارون دھتی رائے سرفہرست ہیں۔ انھوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کی کارروائیوں، خاص طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ بھارت کی آزادی کی جدوجہد انڈین نیشنل کانگریس نے شروع کی تھی۔کانگریس ایک انگریز نے قائم کی تھی، پھر ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ہند حکومت کی اصلاحات کے نتیجے میں تعلیم یافتہ درمیانہ طبقہ وجود میں آیا تھا۔

درمیانے طبقے کے بہت سے نوجوان انڈین سول سروس اور دیگر ملازمتوں میں کھپ گئے تھے، مگر چند سرپھرے ایسے بھی تھے جنھوں نے کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور دیگر تنظیموں میں شمولیت اختیار کی اور ہندوستان کی آزادی کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ دادا بھائی، نوروجی تلک، حسرت موہانی، محمد علی جناح، مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، بابا صاحب اور امبیدکر کانگریس کی قیادت میں شامل رہے۔ آزادی کی جدوجہد میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور دیگر تمام مذاہب اور ذاتوں کے لوگ شامل تھے۔ امبیدکر اور منڈل کا تعلق نچلی ذات کی ہندو برادری سے تھا۔ ہندوستان کے عوام نے انگریزوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے تاریخی قربانیاں دیں۔

ان قربانی دینے والوں میں بھگت سنگھ اور اشفاق اﷲ سمیت تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ مہاتما گاندھی یوں تو عظیم رہنما تھے مگر انھوں نے سیاست میں مذہب کا استعمال شروع کیا تھا۔ جب مولانا محمد علی جوہر نے ترکی کی خلافت کو بچانے کے لیے خلافت تحریک شروع کی تو گاندھی نے اس تحریک کی حمایت کی تھی۔ مساجد اور مندروں میں خلافت تحریک کے جلسے ہوئے۔ محمد علی جناح پہلے شخص تھے جنھوں نے خلافت تحریک میں شمولیت سے انکار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں مذہب کا استعمال خطرناک ہے۔ جناح صاحب کا مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی سے سخت مکالمہ ہوا تھا اور پھر جناح صاحب کانگریس سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ گاندھی کئی بار اپنی تحریک کے لیے مذہب اور ذات کو استعمال کرتے رہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو ہمیشہ سیکولر سوچ کے حامل تھے۔ دلت رہنما ڈاکٹر امبیدکر کانگریس کی نچلی ذات کے ہندوؤں سے متعلق پالیسیوں سے نالاں تھے۔

انھوں نے اسی بنا پر بدھ مت اختیار کیا اور جناح صاحب کے پاکستان کے نظریہ کی حمایت کی تھی، مگر اس طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کی تقسیم کی ذمے داری اپنے قریبی دوست پنڈت نہرو اور سردار پٹیل پر عائد کی تھی۔ سردار پٹیل آزادی کے وقت وزیر داخلہ تھے۔ سردار پٹیل پر مسلمان دشمن فسادات میں منفی کردار ادا کرنے کا الزام بھی لگا تھا، مگر جب بھارت آزاد ہوا تو گاندھی نے کوئی انتظامی عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا۔ پنڈت نہرو وزیراعظم بنے۔ انھوں نے ڈاکٹر امبیدکر کو وزیر قانون اور مولانا ابوالکلام آزاد کو وزیر تعلیم مقرر کیا۔

امبیدکر کی قیادت میں بھارتی پارلیمنٹ نے آئین ساز کمیٹی قائم کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی زیر نگرانی سیکولر اور سائنسی بنیادوں پر نئی تعلیمی پالیسی ہوئی۔ اس تعلیمی پالیسی نے جدید بھارت کے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ امبیدکر کی قیادت میں ایک ایسا جامع آئین تیار ہوا جس میں مذہب اور ذات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں تھا اور ریاستوں کو خودمختاری دی گئی تھی۔ سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے دور میں سوشلزم کو آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ بھارتی یونین نے اس آئین کی بنیاد پر آزاد عدلیہ کی بنیاد رکھی۔ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ نے اس آئین کی پاسداری کرتے ہوئے کئی تاریخی فیصلے کیے۔

کانگریس پارٹی نے اگرچہ سیکولر سیاست کا نعرہ لگایا اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور تک اس نعرے پر عملدرآمد ہوا مگر پھر حکمرانوں نے اپنے مقاصد کے لیے مذہب اور ذات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ سینئر صحافی سعید حسن خان جن کی بھارت کی سیاست پر ہمیشہ گہری نظر رہتی ہے، کہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی، مزدور اور کسان تحریکوں کو کمزور کرنے کے لیے کانگریس نے ہندو انتہاپسندی کے ہتھیار کو بار بار استعمال کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے اقتصادی دارالحکومت بمبئی اور اطراف کے علاقوں میں آزادی کے وقت سے مزدور تحریک مضبوط تھی۔ بمبئی کے صنعتکاروں نے بال ٹھاکرے کی حوصلہ افزائی شروع کی۔ ان کوششوں کے پیچھے کانگریس بھی تھی۔

80 کی دہائی میں بمبئی کے مضافاتی علاقوں میں ہندو مسلمان فساد ہوا۔ بال ٹھاکرے نے مزدور تحریک کو سخت نقصان پہنچایا، کمیونسٹ پارٹی کی مزدور تنظیموں کی جگہ ہندو انتہاپسندوں نے لے لی۔ جب 1977 میں کانگریس کو شکست ہوئی اور ڈیسائی کی قیادت میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو کانگریس نے امرتسر میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ میں ایک انتہاپسند بھنڈراوالا کی بالواسطہ سرپرستی کی۔ پھر اندرا گاندھی اقتدار میں آگئی۔ اندرا گاندھی نے فوج کے ذریعے بھنڈراوالا کا خاتمہ کیا۔ مسز گاندھی کے سکھ باڈی گارڈز نے اندرا گاندھی کو قتل کردیا۔

دہلی میں سکھوں کے خلاف بدترین فسادات ہوئے، جس نے مسلم کش فسادات کی یاد تازہ کردی۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے دور میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایک مسلمان طلاق یافتہ خاتون شاہ بانو کو شوہر سے معاوضہ دینے کا حکم دیا۔ بھارت کے مسلمانوں نے اس فیصلے کو شریعت میں مداخلت قرار دیا اور تحریک شروع کردی۔

راجیو گاندھی دباؤ کا شکار ہوئے اور آئین میں ترمیم کرکے اس فیصلے کو غیر موثر بنایا۔ مگر مسلمانوں کی اس تحریک سے حوصلہ پاکر انتہاپسند ہندو رہنما ایل کے ایڈوانی نے رتھ یاترا تحریک شروع کی۔ اس تحریک کا مقصد رام مندر تعمیر کرنا تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں ہندو انتہاپسند متحرک ہوگئے اور ہندو انتہاپسندوں نے بابری مسجد کو شہیدکرنے کا منصوبہ بنایا۔ کانگریس کے وزیراعظم نرسمہاراؤ کی نااہلی کی بنا پر انتہاپسندوں کو بابری مسجد کے انہدام کا موقع ملا۔ ایک سینئر بھارتی صحافی کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام بھارت کی سیکولر تاریخ پر ایسا سیاہ دھبہ ہے جو مٹائے نہ مٹے گا۔

پاکستان کے سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی قیادت میں 19 جون 2014 کو اقلیتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں تاریخی فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر عملدرآمد سے پاکستان کے ان شہریوں کو جن کا مذہب اسلام نہیں ہے بہت سے حقوق حاصل ہوجائیں گے، مگر وفاقی حکومت نے اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ اس وقت آیا ہے جب مختلف ریاستوں میں انتخابات ہورہے ہیں۔ اس فیصلے پر عملدرآمد سے ہی تمام شہریوں کو تحفظ حاصل ہوگا۔ بھارت، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کی بقا سیکولر ریاست میں ہے اور سیکولر ریاست سے ہی حقیقی جمہوریہ وجود میں آسکتی ہے۔